علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ

عرس قائد اہل سنت کی مناسبت سے صاحب عرس کی کتاب حیات کے چند اوراق آپ کے مطالعے کی میز پر


 علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ—————شخص وعکس
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
از قلم :محمد فیض اللّٰہ مصباحی، برکاتی 
قاضی ادارہ شرعیہ جھارکھنڈ 
"""""""'''''''''""""""""""""""""""""""""""""""""""""""
       سرزمین ہند بڑی زرخیز واقع ہوئی ہے.اس کی گود میں بے شمارصاحبان علم وفضل ,پیکر زہد وتقوی اور دین متین کی بے لوث خدمات انجام دینے والےایسے نفوس قدسیہ جلوہ گر ہوئے جن کی علمی وروحانی تابشوں سےکفر وشرک اور جہالت وگمراہی کی تاریکیاں چھٹیں .جن کے کارنامہاے حیات کی شمیم انگیزیوں سےآج تک مذہب وملت کےشبستان وجود معطر ہیں .جن کے ایمانی جلال وجمال,لسانی فضل وکمال اور قلمی جود ونوال نے تیر وتار ماحول کو اپنے انوارو تجلیات سے روشن وتابناک بنا رکھا ہے.اسی چمنستان علم وفضل کے ایک گل شاداب کا نام مفکر اسلام مناظر اہل سنت رئیس القلم علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ ہے.

     *ولادت باسعادت* :آپ کی پیدائش بتاریخ 5/مارچ1925ءضلع بلیا اترپردیش کے ایک معمولی مگر بزرگوں کا عقیدت مند گاؤں "رشید پورہ" کےایک دینداراورعلم دوست گھرانے میں ہوئی.والد بزرگوار حضرت مولانا شاہ عبد اللطیف رشیدی علیہ الرحمہ کی آغوش محبت میں پروان چڑھے .جد امجد حضرت مولانا عظیم اللّٰہ علیہ الرحمہ کی تربیتوں کی گھنیری چھاوں میں آپ کا علمی جوہر خوب نکھرا.والد ماجد سلسلہ رشیدیہ کے بزرگ حضرت شاہ عبد العلیم آسی علیہ الرحمہ سے شرف ارادت رکھتے تھے.شاید اسی وجہ سے آپ نے اپنے فرزند ارجمند کانام غلام رشید رکھا جو بعد میں ارشد القادری بن کر خلق خدا کی رشد وہدایت کا روشن منارہ ثابت ہوا.

     *تعلیم*: 1930ء میں رسم بسم اللّٰہ خوانی ہوئی.ابتدائی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی .اعلٰی تعلیم کے حصول کے لیے الٰہ آباد, بریلی شریف اور ناگپور کا سفر کیا .علمی اضطراب بڑھا تو مرکز علم وفن ازہر ہند جامعہ اشرفیہ مبارک پور کا رخ کیا اور تقریبا آٹھ سالوں تک بڑی عرق ریزی ,جگر کاوی اور جاں سوزی کے ساتھ ابو الفیض حافظ ملت علامہ شاہ عبد العزیز علیہ الرحمہ,حضرت علامہ سلیمان بھاگل پوری علیہ الرحمہ ,علامہ عبد المصطفٰی ازہری علیہ الرحمہ اور دوسرے متبحر علما کے خرمن علم وفضل سےخوشہ چینی کی.

    *دستار*:1944ء میں جامعہ اشرفیہ مبارک پور کے سالانہ جلسہ میں عباقر اہل سنت کے مقدس ہاتھوں آپ کے سر پر دستار فضیلت باندھی گئی.

     *درس وتدریس*:چشمہ علم وحکمت سے اپنی علمی پیاس بجھانے کے بعد آپ نے تدریسی میدان میں قدم رنجہ فرمایا اور باستثناے تبلیغی اسفار 1945ءتا2001ء مختلف مدارس میں نہایت ذمہ داری,جاں کاہی اور کمال مہارت کے ساتھ تشنگان علوم نبوت کو سیراب کرتے رہے.جن درسگاہوں کی مسند درس وتدریس پر جلوہ فگن ہوکر آپ نے علم وحکمت کے موتی لٹائے ان میں سرفہرست شمس العلوم ناگپور،مہاراشٹراور مدرسہ فیض العلوم جمشید پور،جھارکھنڈ ہیں. 
    شہر آہن جمشید پور کو جب سے آپ کی قدم بوسی نصیب ہوئی ،دین وسنت اور علم وفضل کے لحاظ سےاس کا بخت خفتہ بیدار ہوا.آپ کی نگاہ کیمیا اثر نے اس کی تقدیر ہی بدل دی.جہاں لادینیت اور بد مذہبیت پنپ رہی تھی,آپ کی مساعی جمیلہ اور بے پناہ تگ ودو کی برکتوں سے ہر طرف سنیت کی بہاریں قائم ہو گئیں . آپ کی محنتوں کا ثمرہ مدرسہ فیض العلوم دانش وبینش کا ایسا درخشندہ سورج ہے جس کی تجلیوں سے بے شمار افراد کی جہالتوں کے پردے چاک ہوئے اور تا ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے.اس کے خوان علم وعرفان سے مستفیض افراد ملک وبیرون ملک میں پورے علمی طنطنہ اورفنی ہمہمہ کے ساتھ تدریسی ,تنظیمی اور دعوتی خدمات انجام دے رہے ہیں اور علم وعمل کی کرنوں سے حیات سنیت اور کائنات محبت وعقیدت کو منور وتاباں کر رہے ہیں.

      *تلامذہ*:نصف صدی سے زائد پر محیط تدریسی دور میں حضور قائد اہل سنت علیہ الرحمہ کی بافیض بارگاہ سے شعور وآگہی اور فکروفن کی دولت حاصل کرنے والے تلامذہ کی تعداد بقول خلیل احمد رانا آٹھ ہزار کے قریب ہے.فقیہ ملت مفتی جلال الدین امجدی علیہ الرحمہ جیسی عبقری اورقد آورشخصیت آپ کے تلامذہ کی صف میں شامل ہیں.

*بیعت وخلافت*:خلیفہ اعلی حضرت صدر الشریعہ مصنف بہار شریعت علامہ امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ سے آپ کو ارادت کا شرف حاصل ہوا.قطب مدینہ خلیفہ اعلی حضرت حضرت مولانا ضیاء الدین مہاجر مدنی علیہ الرحمہ اور سرکار پٹنہ حضرت سید شاہ فدا حسین علیہ الرحمہ سے اجازت وخلافت ملی.

*مساجد ومدارس اور تنظیموں کا قیام*:خالق کائنات ومالک شش جہات نے آپ کو بے پناہ تنظیمی صلاحیتوں سے نوازا تھا.دین وملت کے فروغ واستحکام اور بکھری ہوئی قوم مسلم کی شیرازہ بندی کا جذبہ بے کراں آپ کی شریانوں میں لہو کے ساتھ گردش کرتا تھا.آپ آفاقی فکر ونظر کے حامل ,پرعزم حرکت وعمل کی چلتی پھرتی تصویر,جہد مسلسل کے خوگر,سعی پیہم کے عادی ,اخلاص و وفا کے پیکر جمیل ,علم وحکمت کے بحر نا پیدا کناراور عمل وکردار کے سیل رواں تھے.آپ کے دل میں مسلک حق کی ترویج واشاعت اور دین پاک کی دعوت وتبلیغ کا جذبہ فراواں موجزن تھا. ہر وقت اسلام کے ارتقا اور مسلمانوں کی زبوں حالی کوخوش حالی میں بدلنےکی فکر میں مصروف رہتے.آٹھوں پہر اپنوں کے لیے سوچتے رہتے.ملت کی تعمیر وترقی کے لیے لائحہ عمل تیار کرتے.جماعت کی حالت زار پر آٹھ آٹھ آنسو روتے اور مذہب ومسلک کی زلف برہم کی مشاطگی کے لیے ہمیشہ فکرمند اور سرگرم عمل رہتے.
    آپ نے قوم وملت کی تعمیر وترقی کے لیے نہ صرف افکار ونظریات پیش کیے بلکہ مختلف ممالک کا سفر کرکے تعلیمی اور تبلیغی ضروریات کی تکمیل کے لیےمتعدد مساجد ومدارس اور تنظیوں کی طرح ڈالی اور ہچکولے کھاتی کشتی ملت کو ساحل مراد سے ہم کنار کرایا.آپ کا شمار ان سربر آوردہ شخصیات میں ہوتا تھا جھنوں نے بیسویں صدی عیسوی کے نصف آخر میں اپنی لازوال اور بے لوث خدمات سے گلشن ملت کو سرسبز وشاداب بنایا اور جن کی سعی جمیل اور خدمات جلیلہ کے بطن سے ملک وبیرون ملک میں کئی ایک تبلیغی مراکز اور ایسے مدارس ومساجد وجود میں آئیں جن کی عطر بیز خوشبووں سےروح اسلام وجد کر اٹھی اور جن کی خدمات دین متین کی رعنائیوں کو دیکھ کر دنیاے اہل سنت جھوم اٹھی.
     آپ کے قائم کردہ مدارس ومساجد اور تنظیوں کی مجموعی تعداد تین درجن سے زائد ہے .ان میں جامعہ حضرت نظام الدین اولیا دہلی,جامعہ مدینة الاسلام ہالینڈ,اسلامک مشنری کالج انگلینڈ,دارالعلوم علیمیہ ,سرینام امریلکا,مدرسہ فیض العلوم,جمشید پور,دارالعلوم ضیاء الاسلام ہوڑہ کولکاتا,الجامعةالقادریہ اسلامی مرکز رانچی ,ادارہ شرعیہ پٹنہ,ادارہ شرعیہ رانچی,ورلڈ اسلامک مشن انگلینڈ,علمی دعوتی واصلاحی تحریک دعوت اسلامی ,مکہ مسجد,مدینہ مسجد ,جمشید پور,مسجد غوثیہ رانچی سرفہرست ہیں.

    *تالیف وتصنیف*: قسام ازل نے جہاں آپ کو خطابت,ردومناظرہ,درس وتدریس اور تدبیروتنظیم کا ملکہ عطا فرمایا تھا وہیں انشاپردازی اور تالیف وتصنیف کا جوہر بھی عطا فرمایا تھا.آپ ایک عدیم النظیر مفکر,بے مثال مناظر,عظیم دانشوراور باشعور قائد ہونے کےساتھ ساتھ بلند پایہ ناقد,مستند ادیب,دیدہ ور محقق اور صاحب طرز انشا پرداز تھے.آپ کے قلم حق رقم سے علوم ومعارف کے ایسےچشمے ابلے جن سے فکر وآگہی کے پژمردہ چمن" *لالہ زار* "بن گئے.باطل پرستوں کے ایوانوں میں" *زلزلہ* "آیااورشان الوہیت ورسالت میں گستاخیاں کرنے والوں کی بنیادیں " *زیرو زبر*"ہوگئیں." *دہلی سے سہارن پور کا سفر* "کر کے بد عقیدوں کی قلعی کھول دی." *جماعت اسلامی*"اور" *تبلیغی جماعت*"کے چہروں سے تلبیس کی چادر ہٹاکر قوم مسلم کو" *دعوت انصاف* "دیا." *عقیدہ توحید*"," *عقیدہ علم غیب*"اور" *رسالت محمدی*" کے ثبوت پر نقلی و عقلی دلائل کا انبار لگاکر " *دور حاضر کےمنکرین رسالت*"کا ناطقہ بند کردیا.قرآن کی روشنی میں محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت ورفعت کے بیان پر مشتمل رسالہ" *محمد رسول اللّٰہ قرآن میں*"لکھ کر سچے عاشق رسول ہونے کا ثبوت پیش کیا." *تفسیر ام القرآن*"اور" *فن تفسیر میں امام احمد رضا کا مقام*"تحریرفرما کر اس فن شریف میں دل چسپی رکھنے والوں کےلیے معلومات کا بیش بہا خزانہ پیش کیا." *تاریخ فقہ حنفی*"اور" *تاریخ فن حدیث*"کی صورت میں تاریخ سے شغف رکھنے والوں کو گراں قدر علمی سرمایہ عطاکیا.مختصر یہ کہ آپ کے قلم سیال نے جس وادی کارخ کیا اسے خوب عمدگی سے سیر کیا.جس حق کو چاہا اس کا چہرہ نکھار کر رکھ دیا اور جس باطل پر کمند ڈالی اس کے پرخچے اڑادیے.زلف وزنجیر,انوار احمدی,دل کی مراد,جلوہ حق,نقش کربلا,لسان الفردوس,مصباح القرآن,سرکارکا جسم بے سایہ اور تعزیرات قلم کے پیکر میں علوم ومعارف کا گنجینہ قوم کو عطا کیا.آپ کی نگارشات علم وادب کی شاہکار,فکروآگہی کا سنگم,پرکشش زبان وبیان کا مخزن,تنقیدو تبصرہ کی دستاویز,تحقیق وتدقیق کا سر چشمہ,ملی دردو کرب کا آئینہ,احقاق حق اور ابطال باطل کا خوب صورت نمونہ ہیں.
     انشا پردازی میں آپ کا وہ ہنر جس نے علمی اور ادبی حلقوں میں آپ کو نمایاں مقام عطاکیا اور ارباب علم ودانش سے خوب دادو تحسین کے تمغے حاصل کیے,وہ ہے آپ کی سحر انگیز ,جاب فکر ونظر اور دلربا طرز تحریر.آپ کے رشحات قلم اس قدردل کش اور ادبی محاسن وکمالات سے آرستہ ہوتے ہیں کہ پڑھیے تو پڑھتے ہی رہیے,اکتاہٹ ارو اچاٹ پن کا احساس ہی نہیں ہوتا.آپ نے معانی ومفاہیم کو اس دل آویزی اور ادبی پیراے میں الفاظ کا جامہ پہنایا ہے کہ خشک سے خشک مضمون بھی دل برداشتگی اور تنگئ خاطر کا سبب نہیں بنتاہے.قوت استدلال ,بلندئ فکر,اسلوب نگارش,شعور کی پختگی,مذہب وملت کے تئیں اخلاص ووفا اور معانی ومفاہیم کی کثرت وفراوانی کے لحاظ سے آپ کا زرنگار قلم اپنا ایک الگ مقام رکھتا ہے.آپ کی تحریریں جہاں اپنوں کے لیے نسیم سحر کی سی ٹھنڈک فراہم کرتیں وہیں دشمنوں کے لیے شمشیر براں,برق تپاں اور سوہان روح ہوا کرتی تھیں.

*نعتیہ شاعری*: حضور قائد اہل سنت کی شخصیت گوناگوں خوبیوں کی حامل تھی.جہاں آپ فقید المثال نثر نگار,نادر روزگار انشاپرداز اور صاحب طرز ادیب تھے وہیں آسمان شعروسخن کے بدر منیر بھی تھے.جہاں آپ نے نثری صنف سخن کے زلف برہم کو سنوارااور اس کے عارض تاباں پر غازہ ملا وہیں اپنی قندیل شعور وآگہی سے جہان شعروسخن کو بھی روشنی بخشی اور شریعت طاہرہ کے سانچے میں ڈھلی ہوئی شاعری کے ذریعہ گم گشتگان راہ کو نشان منزل اور شمع ہدایت عطاکی.عشق رسول آپ کا طرہ امتیاز اور نشان افتخار تھا.محبت مصطفوی کی آپ نے ایسی بادہ خوری کی تھی کہ ہر وقت اس کی سرمستیوں سے سرشاراور بے خودرہا کررتے تھے.اسی بے لوث محبت اور عشق صادق کا فیضان تھا کہ آپ ہر محاذ پر نہایت پامردی اور ثبات قدمی کے ساتھ ڈٹے رہے.سد سکندری بن کر باطل قوتوں سے پنجہ آزمائی کی اور ہر جگہ فتح وکامرانی کا پرچم لہرایا.
    آپ نےعشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی شاعری کا مرکز ومحور قراردیاتھا.آپ کاقلم عشق رسول صلی اللہ علیہ کے شعلہ سوزاں میں تپ کر کندن ہوچکا تھا.یہی وجہ ہے کہ آپ کے نوک قلم سے نکلا ہوا ایک ایک شعر بزم عشاق کی جھلملاتی شمع کو فروزاں کرتاہے.آپ نے اپنی شاعری میں جذبہ محبت وعقیدت کا ایسا پھول کھلایا جس کی نکہت اور دل کشی نے تشنہ کام محبت کے لیے متاع تسکین فراہم کیا.آپ نے ایک عاشق دل گیر کے پیکر میں سرور عاشقاں علیہ التحیة والثناء کی بارگاہ میں نذرانہ محبت وگلہاے عقیدت نچھاور کرتے ہوے عشق وایمان کی ایسی جوت جگائی ہے کہ ایک ایک شعر کو پڑھنے اورسننے سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم مدینہ طیبہ کی پر بہار فضاوں میں سانس رہے ہیں.ہر طرف رحمت ونور کی جھماجھم بارش ہو رہی ہے اور ہم جلوہ محبوب کی یادوں میں نہارہے ہیں.
    آپ کی شاعری زبان وبیان کی نزاکت ولطافت,خوب صورت الفاظ کی بندش,سحر طرازی,طلاقت لسانی,سلاست زبانی,تغزل کا بانکپن,طرزادا کی دل آویزی,اسلوب بیان کی دل کشی,مضامین کی آوردگی وروانی,اور مطالب کی شگفتی وبرجستگی جیسی اعلی خصوصیات کی حامل ہے.آپ کی نعتوں کا مجموعہ آپ کے فرزند علامہ غلام زرقانی مدظلہ العالی کی کاوش سے بنام" *اظہار عقیدت*"زیور طبع سے آراستہ ہوچکا ہے.

    *ردومناظرہ*:یوں تو رئیس القلم علیہ الرحمہ کو شاعری ,درس وتدریس ,تصنیف وتالیف,تبلیغ وارشاد سب میں اعلی دست گاہ حاصل تھی مگر فن مناظرہ میں آپ کو جو نشان امتیازاور نمایاں مقام حاصل تھاماضی قریب میں اس کی نظیر نہیں ملتی.اس فن میں آپ یکتاےروزگار اور درنایاب تھے.حضور حافظ ملت,حضور مجاہدملت اور دیگر بزرگوں کی دعاے سحرگاہی اور نگاہ پر تاثیر نے آپ کو اس میدان کا ماہر شہ سوار بنادیاتھا.
      فن مناظرہ سے تعلق رکھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ اس کی خارداراور دل سوز وادی کی آبلہ پائی کے لیے صرف علوم اسلامیہ اورفنون دینیہ میں مہارت کافی نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ تجربہ کاری,دقیق نظری,حاضردماغی,حاضر جوابی ,ژرف نگاہی,وسعت مطالعہ,غیر معمولی قوت حافظہ,تاریخ واحوال زمانہ سے آگہی,اپنے اور مد مقابل کے علما کی تصانیف پر گہری نظر,معقولات ومنقولات میں تبحر,زبان وبیان پر کامل قدرت,حریف کی شاطرانہ چالوں سے باخبری,اس کی کمزوری پر نظر,تحقیقی والزامی جواب کا ملکہ,حملہ ودفاع کا بر وقت فیصلہ ,استحضار علمی اور بیدار قلبی جیسے اوصاف کی ضرورت ہوتی ہے.
     مناظر اہل سنت علامہ موصوف علیہ الرحمہ کی کتاب حیات میں یہ تمام اوصاف وکمالات بدرجہ اتم موجود تھے.یہی وجہ ہے کہ آپ نے ہر محاذ پر جماعت اہل سنت کی کامیاب نمائندگی اور پر زور وکالت کرتے ہوے میدان مناظرہ کے جاں گسل اور جاں گداز مراحل کونہایت کامرانی اور شیر دلی کے ساتھ طے کیا.باطل قوتوں کے مقابل سینہ سپر ہوکر ان کے ہفوات,گمراہ کن افکارونظریات اوران کےمزعومات باطلہ کا دنداں شکن جواب دیا اور بتوفیق ایزدی حق کا چہرہ آفتاب سے زیادہ روشن کیا.مسلک حق مسلک اعلی حضرت پر کیے جانے والے اعتراضات اور حملوں کا نہ صرف دفاع اور مقابلہ کیا بلکہ ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوے مخالفین ومعترضین کو ان کے گھر کا آئینہ بھی دکھایا.
      میری معلومات کے مطابق آپ نے آٹھ مناظرے کیے اور سب میں فتح مبیں کا تاج آپ کے سر پر سجا.باطل جماعتوں کو منہ کی کھانی پڑی اور راہ فرار کے علاوہ کوئی صورت نظر نہ آئی.
       آپ کے مناظرےکی اجمالی فہرست درج ذیل ہے(1)1954ءمیں مناظرہ جمشید پور(2)مناظرہ چھپرہ,بہار(3)مناظرہ امراوتی,مہاراشٹر(4)1966ء میں مناظرہ بولیا,راحستھان(5)22,23,24/اپریل 1978ء میں مناظرہ جھریا,دھنباد(6)23/دسمبر1978میں مناظرہ کٹک ,اڑیسہ(7)مناظرہ برار,ضلع ایوت,مہاراشٹر(8)مناظرہ اربڑا,ضلع مالدہ,بنگال.

     *وصال پر ملال*:15/صفر1423ھ مطابق29/اپریل2002ءبروز پیر دہلی میں شام 4/بج کر 35/منٹ پر علم وفن اورعزیمت واستقامت کا یہ آفتاب ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا.
      ممتاز قادرالکلام شاعر محمد عبد القیوم طارق پاکستانی نے" *جمیل گلشن رضا*"سے عیسوی سن وصال (2002ء)اخذ کیاہے اور قطعہ کے پیکر میں ہجری سن وصال یوں بیان کیا ہے:
وہ خوش نصیب تھا,اخلاص تام سے اس نے🍀
تمام عمر گزاری بہ پاس فکر رضا.
اس ارشد چمن رضویت کا طارق نے🍀
سن وصال کہا ہے"اساس فکر رضا"(1423ھ)
----------------------------------------
🍀🍀🍀🍀🍀🍀🍀🍀🍀🍀
محمد فیض اللّٰہ برکاتی مصباحی.پرنسپل جامعہ فاروقیہ ریوڑی تالاب بنارس 
ناظم تعلیمات الجامعة القادریہ اسلامی مرکز,ہند پیڑھی,رانچی.جھارکھنڈ 
14/صفر المظفر 1445ھ

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے