از: محمد مقتدر اشرف فریدی، اتر دیناج پور، بنگال۔
ماہ ربیع الاول کی رونقیں ہر سمت چھائی ہوئی ہیں، ہر چہار جانب مسرت و شادمانی کا سماں ہے، کیف و سرور کا حسین و دلکش منظر ہے، یہ تمام تر رعنائیاں، رونقیں اور بہاریں محسن انسانیت، آقائے کائنات، جان کائنات، رسول اعظم، رحمت دوعالم محبوب خدا ﷺ کی ولادت باسعادت کی برکات و خیرات ہیں۔ ربیع الاول یہ ایک ایسا متبرّک اور باعظمت مہینہ ہے کہ جس کی نسبت ہمارے آقا و مولا رسول اعظم، نبی محتشم سیّد الانبیا صلّی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلّم کی ولادت با سعادت سے ہے۔
اللہ کریم کی تمام نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت اور عظیم رحمت نبی کریمﷺ ہیں۔ پیارے آقاﷺ وہ عظیم نعمت ہیں جو کائنات کی ہر شی پر حاوی و محیط ہے۔
قرآن پاک میں اللہ عزّ و جلّ فرماتا ہے:
وما اَرْسَلْناكَ الّا رَحْمَةَ الّلعالَمِيْنَ۔
اے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر ہی بهیجا۔
اللہ کریم کا فرمان ہے کہ ہمارے آقا صرف ہمارے لئے نہیں بلکہ سارے جہاں کے لئے رحمت ہیں۔ آقائے کائنات، تاجدار انبیاﷺ نبیوں اور رسولوں کے لیے رحمت ہیں، جنات اور انسانوں کے لیے رحمت ہیں، دنیا اور آخرت میں رحمت ہیں، مومن و کافر کے لیے رحمت ہیں، اپنوں کے لیے بھی رحمت ہیں، غیروں کے لیے بھی رحمت ہیں، حیوانات، نباتات جمادات الغرض ہر شی کے لئے رحمت ہی رحمت ہیں۔ آپ کی شانِ رحیمی اور کریمی سے کوئی محروم نہیں۔ جس طرح اللہ کریم کی ربوبیت کا فیض ساری کائنات کے لیے عام ہے اسی طرح نبی کریم علیہ الصلاة و التسلیم کی رحمت کا فیضان بھی سارے عالم کو محیط ہے۔
نبی کریمﷺ کی تشریف آوری سے قبل سارا عالم ظلمت کدہ بنا ہوا تھا۔ ہر طرف ضلالت و گمراہیت چھائی ہوئی تھی، معبودان باطل کی پرستش کی جاتی تھی، بت پرستی اور کفر و شرک کی تاریکیاں چہار سو عام تھیں، ظلم و استبداد عروج پر تھا، اخوت و بھائی چارگی کا فقدان تھا، جبر و تشدد کو شان و عزت تصور کیا جاتا تھا، پوری انسانیت سسک رہی تھی، عورتوں کی عزت و وقار کا کوئی تحفّظ نہیں تھا، حق تلفی اور قتل و غارت گری کا بازار گرم تھا، پوری دنیا کا معاشرہ کفر و شرک، ضلالت و جہالت کی گھٹا ٹوپ تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا اور لوگ اخلاق و کردار کی پستی کے شکار تھے؛ ایسے پر فتن اور پر آشوب ماحول میں اللہ کریم نے اپنے محبوب ترین رسول، آخری نبی مصطفٰی جان رحمتﷺ کو اس دنیا میں مبعوث فرمایا تاکہ آپ ہدایت کے نور سے لوگوں کے قلوب و اذہان کو کفر و شرک کی گندگیوں سے پاک و صاف کر دیں اور مذہب مہذب اسلام کی حقانیت کو پوری دنیا پر ثابت کر دیں۔ آپ نے اس دنیا میں قدم رکھتے ہی ایک عظیم انقلاب پیدا کر دیا۔ آپ نے پوری دنیا کو انوار توحید و رسالت سے ایسا منور کیا کہ اسلام کو نور چہار سو پھیلتا چلا گیا۔ آپ کی تشریف آوری سے یہ گھٹا ٹوپ تاریک دنیا منوّر ہوئی، رشد و ہدایت کی قندیل چمک اٹھی، فسق و فجور کی سیاہی مٹ گئی، ظلمت کے کالے بادل چهٹ گئے، ضلالت کے اندھیرے چھٹنے لگے، کردار دمکنے لگے، اطوار مہکنے لگے، افکار چمکنے لگے، انوار برسنے لگے اور نور کی کرنوں سے یہ سارا جہاں روشن و منور ہوا۔ قحط سالی سے دوچار سر زمین عرب سر سبز و شاداب، خوش حال و خوش گوار ہو گئ، پوری کائنات میں ایک عظیم انقلاب پیدا ہوگیا- آپ رحمت و شفقت، حلم و کرم، جود و سخا، بخشش و عطا اور اخلاق کریمانہ کا پیکر بے مثال بن کر ظہور پزیر ہوئے۔
آپ کا اخلاق پوری انسانیت کے لیے نمونہ عمل ہے۔
اللہ کریم نے اپنے محبوب پاک حضور نبی اکرمﷺ کو خلق عظیم کے اعلی درجہ پر فائز فرمایا۔
اللہ کریم ارشاد فرماتا ہے: اِنَّكَ لَعَلیٰ خُلُقٍ عَظِیْمٍ (سورة القلم)
ترجمہ: یقینا آپ خلق عظیم پر فائز ہیں۔
آقائے کائنات، رسول اعظم نبی اکرم ﷺ نے اپنی بعثت کا مقصد ہی اخلاق کی تکمیل قرار دیتے ہوئے فرمایا: اِنَّمَا بُعِثْتُ لِاُتَمِّمَ مَكَارِمَ الاخلاق( بیھقی فی السنن الکبری، الرقم: (20571)
ترجمہ: یقینا میں اسی لیے بھیجا گیا ہوں کہ شریفانہ اخلاق کی تکمیل کروں۔
آپ کی ذات ستودہ صفات تمام صفات کمالیہ کے جامع اور تمام نقائص و عیوب سے پاک ہیں۔
اللہ کریم نے آپ کی سیرت طیبہ کو اہل ایمان کے لیے کامل اسوہ حسنہ، خوبصورت ماڈل اور بہترین نمونہ حیات قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُوْلِِ اللّهِ اُسْوَة حَسَنَة (سورة الاحزاب)
ترجمہ: یقینا تمہارے لیے رسول اللہﷺ کی ذات میں ہی حسین نمونہ عمل ہے۔
نبی اکرم رسول اعظم ﷺ کی ولادت با سعادت مومنوں کے لیے فرحت و مسرت کا باعث اور تسکین قلب کا ذریعہ ہے۔
اللہ کریم فرماتا ہے:
قُلْ بِفَضْلِ اللّهِ وَ بِرَحْمَتِهٖ فَبِذٰالِكَ فَلْیَفْرَحُوْا (سورہ یونس)
ترجمہ: تم فرماؤ: اللہ کے فضل اور اس کی رحمت پر ہی خوشی منانی چاہیے۔
متذکرہ بالا آیت کریمہ میں اللہ کریم نے اپنے فضل و رحمت پر خوشی منانے کا حکم دیا اور یقینا اللہ کے رسول ﷺ اللہ کریم کا عظیم ترین فضل اور رحمت ہیں۔ اللہ کریم کی اس عظیم ترین نعمت و رحمت کی حصول یابی پر ایک بندہ مومن کے لیے فرحت و مسرّت کا اظہار ایمانی تقاضہ اور یقینا سعادت بختی کی علامت ہے۔
جس گهڑی حضور نبی کریم علیہ الصلوة والتسلیم کی ولادت با سعادت ہوئی اس گهڑی آسمان بهی زمین پر رشک کر رہا تها، زمین بهی اپنی قسمت پر نازاں تھی، تمام جانور ایک دوسرے کو مبارک بادی پیش کر رہے تھے، ہر طرف فرحت و مسّرت کا سماں تھا، گویا کہ ہر شی سے صدا آرہی تھی کہ اے مصیبت زدوں، اب گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے اس لیے کہ حضرت سیدہ بی بی آمنہ رضی اللہ عنھا کی آغوش میں باعث تخلیقِ کائنات، تسکین قلب و جان، رحمت دو عالم فخر آدم و بنی آدم، اصل کائنات، مالک خشک و تر، قائد بحر و بر، مختار شجر و حجر نور مجسّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وجود مسعود ہو چکا ہے جو ساری کائنات کے لیے سراپا رحمت بن کر تشریف لائے ہیں-
حدیث قدسی ہے:
اللہ عزّ و جلّ ارشاد فرماتا ہے: لَوْلاَکَ مَا خَلَقْتُ الدُّنْیَا
اے محبوب اگر تجھے پیدا کرنا مقصود نہ ہوتا تو میں دنیا کو پیدا نہ فرماتا۔ نبی کریم علیہ الصلاۃ والتسلیم کی ذات ہی اس کائنات کی تخلیق کا سبب ہے۔
آپ کی تخلیق اگر مقصود نہ ہوتی تو کائنات ارض و سما کا وجود نہ ہوتا۔ کائنات کی ہر شی کا وجود ذات پاک مصطفیٰ صلّی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلّم ہی کے وجود مسعود سے ہے-
چرند پرند، سبزہ، پہاڑ جمادات، نبادات جن و انس غرض کہ تمام چیزیں آپ کی تخلیق کے باعث وجود میں آئیں۔
عاشقِ رسول، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری محدث بریلوی رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں:
وہ جو نہ تھے تو کچھ بھی نہ تھا، وہ جو نہ ہوں تو کچھ بھی نہ ہو،
جان ہے وہ جہاں کی، جان ہے تو جہان ہے۔
اللہ عزّ و جلّ کا بے پایاں فضل و احسان ہے کہ اس نے ہمیں اپنے محبوب پاک، رحمت دو عالم، نبی معظم، نور مجسم آقائے کائنات صلّی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلّم کی امتی میں پیدا فرمایا اور اپنے محبوب پاک صلّی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلّم کا کلمہ گو بنایا-
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں