اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے
امت پر تیری آکےعجب وقت پڑا ہے
از قلم مفتی علی اصغر
2 ربیع الثانی 1445
18 اکتوبر 2023
آج کل کے ماحول میں لوگ کہتے نظر آتے ہیں کہ دعا کا وقت نہیں ہے عملی اقدامات کا وقت ہے
ان نادانوں کو کیا خبر کہ عملی اقدامات اسباب ہیں اور دعا مسببُ الاسباب کی طرف رجوع کا نام ہے۔
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عادتِ کریمہ تھی کہ آپ دعا کو پہلے اور اسباب کو بعد میں اختیار فرماتے تھے۔
عملی اقدامات اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتے جب تک اللہ رب العزت کی غیبی مدد شامل نہ ہو
لہٰذا اللہ کی طرف رجوع کرنا اس کی بارگاہ میں فریاد کرنا ایک عظیم عبادت ہے
یہ الگ بات ہے کہ عملی اقدامات کرنا جن جن کا فرض ہے ان کے ذمہ یہ بوجھ قرض ہے اور رب کی بارگاہ میں اس پر جواب بھی دینا ہوگا
لیکن عام مسلمان دعا سے جو ضروری فوائد حاصل کر سکتا ہے ان فوائد سے ہرگز محروم نہیں رہنا چاہیے
دعا کرنے والا اگر سچا اور مخلص ہے تو اپنے مظلوم بھائی بہنوں اور لاچار بچوں کو اپنے گھر کا فرد سمجھ کر ان کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھ کر جب رب کی بارگاہ میں دعا کرتا ہے تو اس کا یہ درد، یہ ہمدردی، یہ اللہ کی بارگاہ میں اپنے بھائیوں کے لئے دعا و گریہ کرنا بے حسی کو دور کرتا ہے، جذبہء رحم اور رقتِ قلب اسے نصیب ہوتا ہے۔
اور سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ وہ کام کر رہا ہوتا ہے جو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا کرتے ہیں
کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رب کی بارگاہ میں امت پر رحم اور آسانی کی مسلسل دعا کرتے رہے ہیں اور اس وقت بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رب کی بارگاہ میں امت کو نہیں بھولتے
لہٰذا مظلوموں کے لئے اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا مانگنا وہ کام ہے جو رب تعالیٰ کو پسند ہے۔
بہت سارے لوگ معاشرے میں وہ بھی پائے جاتے ہیں جو اپنے لئے تو دعا کرتے ہیں لیکن دوسروں کے لئے اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا کرنے، دوسرے کی ترقی بہتری حاجت کے پورا ہونے کے لئے دعا کرنے کی انہیں توفیق نہیں ملتی بلا شبہ یہ ایک بڑی محرومی ہے۔
ہسپتالوں میں بکھرے اعضاء، تڑپتے بدن، بلکتے بچے، آبادیوں کی تباہ کاریاں دیکھنے کے بعد ایک مسلمان اپنے رب کی بارگاہ میں فریاد نہ کرے رحم طلب نہ کرے تو اس سے بڑھ کر کون بے حس ہوگا۔
باتیں کرنے والے تو بہت مل جائیں گے
لیکن محاسبہ کیجئے کہ کس کس نے تنہائی میں بیٹھ کر اپنے رب کے سامنے اپنے مظلوم مسلمان بھائیوں کے لئے دعا کی
کس کس نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں فریاد کی
واضح رہے کہ یہ دعا و فریاد
محض التجا ہونی چاہئے نہ کہ شکوہ، کیونکہ ہم اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی ہیں
وہ ابتلاء اور آزمائش میں بھی مبتلا کرتا ہے سابقہ انبیاء تک اس کی راہ میں شہید کر دئیے گئے
ظالم کو مہلت بھی رب کی طرف سے ملتی ہے
نتائج اور انجام نکالنا ہمارا کام نہیں ہے میرے رب کی خفیہ تدبیر کیا ہے وہی بہتر جانتا ہے
ہم اتنا جانتے ہیں کہ ہم حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے امتی ہیں اور ہمارا رب ہم پر مہربان ہے اور وہ اپنے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے ہم پر کرم فرماتا رہے گا۔
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں