مختصر حالات سلطان اولیاء قطب عالم حضرت علاؤالدین احمد صابر پاک کلیری علیہ الرحمۃ والرضوان

مختصر حالات سلطان اولیاء قطب عالم حضرت علاؤالدین احمد صابر پاک کلیری علیہ الرحمۃ والرضوان

*ولادت و باسعادت۔۔۔۔۔*
آپ کی ولادت شریفہ ١٩ ربیع النور شریف ٥٩٢ھ مطابق ١٩ فروری ١١٩٢ء کو بوقتِ تہجد بروز جمعرات ہرات(افغانستان) میں ہوئی۔ آپ کا وجود مسعود ایسا تھا کہ نومولود ہونے کے باوجود دایہ کو بے آپ کو غسل کرانے کی ہمت نہ ہوئی۔

*آپ کا نسب نامہ۔۔۔۔۔*
حضرت علاؤالدین صابر پاک کلیری بن سید عبداللہ بن سید فتح اللہ بن سید نور محمد بن سید احمد بن سید غیاث الدین بن سید بہاؤالدین بن سید داؤد بن تاج الدین بن سید محمد اسماعیل بن سید امام موسیٰ کاظم بن سید امام جعفر صادق بن سید الشہداء حضرت امام حسین بن حضرت سیّدنا حضرت علی المرتضیٰ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین....
بعض لوگوں نے آپ کا نسب نامہ اس طرح بیان کیا ہے.
سید علاؤالدین صابر پاک بن سید عبد الرحیم بن سید عبد السلام بن سید سیف الدین بن سید عبد الوہاب بن سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہم 
لیکن اس بات کو صحیح قرار دیا گیا کہ آپ حسنی سید ہیں اور غوث پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد سے ہیں۔اور آپ کے والد ماجد کا نام عبداللہ بن عبد الرحیم بھی ذکر کیا گیا ہے۔
آپ کی والد ماجد کا نام حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھا 
آپ کی والدہ ماجدہ کا نام حضرت سیدتنا ہاجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تھا۔جو نسباً فاروقی تھیں۔ 
*اسم مبارک..* 
آپ کا پورا نام حضرت علاؤالدین علی احمد صابر کلیری علیہ الرحمۃ ہے۔ 
منقول ہے آپ کی ولادت سے قبل حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم خواب میں تشریف لائے اور علی نام رکھنے کا حکم فرمایا. پھر نبی اکرم ﷺ خواب میں تشریف لائے اور احمد نام رکھنے کا حکم فرمایا۔اور پھر آپ کے ماموں جان اور پیر و مرشد نے آپ صابر کا لقب عطا فرمایا جس کا واقعہ مندرجہ ذیل ہے

سلسلۂ چشتیہ کے عظیم بزرگ قطب عالم حضرت شاہ بابا فرید الدین گنج شکر علیہ الرحمۃ والرضوان کے حضرت صابر پاک علیہ الرحمۃ والرضوان بھانجے اور مرید اور خلیفہ بھی تھے۔حضرت صابر پاک علیہ الرحمۃ والرضوان تربیت حاصل کرنے کے لیے اپنے پیر و مرشد کی بارگاہ میں حاضر ہوئے۔ حضرت بابا فرید الدین گنج شکر علیہ الرحمہ نے آپ کو سب سے پہلے فرض اور نفل نمازوں پر استقامت کا حکم فرمایا۔اور آپ کو لنگر تقسیم کرنے معمور کر دیا۔ آپ نے ایک عرصہ تک لنگر تقسیم کیا۔ لیکن لنگر کا ایک لقمہ نہ کیوں کہ پیر و مرشد صرف لنگر تقسیم کرنے پر معمور کیا تھا۔ آپ نے ایک عرصہ تک درختوں کے پتے کھاۓ۔دن بھر آپ روزہ رکھتے شام درختوں کے پتے اور پھلوں اور پھولوں سے افطار کرتے تھے۔جس کی وجہ آپ کا جسم انتہائی لاغر ہو گیا پیر و مرشد نے کیفیت دریافت کی۔ آپ لنگر تقسیم کرکے خود کچھ کھاتے یا نہیں؟ سعادت مند مرید نے عرض کی آپ نے لنگر تقسیم کرنے کا حکم دیا مجھ میں اتنی جرأت کہاں کہ بلا اجازت ایک دانہ بھی کھاؤں۔ پیر و مرشد اپنے بھانجے اور مرید کامل کا جواب سن کر بے انتہا خوش ہوئے اور اپنے گلے سے لگا کر صابر کا خطاب عطا فرمایا۔
اس طرح آپ کا پورا نام حضرت علاؤالدین علی احمد صابر کلیری علیہ الرحمۃ ہوا۔ 

*زندگی کے عام حالات و تعلیم وتربیت۔۔*
جب آپ کی عمر شریف پانچ سال کی ہوئی تو والد محترم داغ مفارقت دے گئے۔اور آپ کی تربیت آپ کی والدہ ماجدہ نے فرمائ۔ جب آپ کی عمر شریف چھ سال کی ہوئی تو آپ با قاعدہ خشوع اور خضوع کے ساتھ نماز ادا کرنا شروع کر دی۔اور جب کی عمر شریف کا ساتواں سال شروع ہوا تو نماز تہجد بھی پابندی سے پڑھنا شروع کر دی۔ آپ ہر وقت یاد الٰہی اور عبادت الٰہی میں مشغول رہتے تھے۔ آپ کے حجرے سے اللہ کے ذکر کی آوازیں آتی تھیں۔اور آپ نے بچپن سے ہی روزہ رکھنا شروع کر دیا۔اور مسلسل روزے رکھتے اور آپ کی یہ عادت آخری عمر تک رہی۔
آپ نے ابتدائی تعلیم ہرات (افغانستان) میں ہی حاصل کی پھر جب والد ماجد کا وصال ہو گیا تو آپ کی والدہ ماجدہ نے آپ کو اپنے بھائی حضرت بابا فرید الدین گنج شکر علیہ الرحمہ کے سپرد کر دیا اور آپ نے بہت مختصر سے وقت تین سال کی مدت میں اپنی حیرت انگیز صلاحیت کی بنا آپ نے کئ علوم ظاہری مہارت تامہ حاصل کر لی۔حضرت بابا فرید گنج شکر کے بقول ۔حضرت صابر پاک علیہ الرحمۃ نے تین سال میں عربی،فارسی،کی کتب متداولہ فقہ،حدیث،تفسیر،منطق،معانی وغیرہا علوم کی تکمیل کی۔یہ علوم انھوں نے اتنی جلدی حاصل کر لیے کہ کوئی دوسرا بچہ پندرہ سال میں بھی حاصل نہیں کر پاۓ گا۔
حضرت بابا فرید گنج شکر نے آپ کو خلافت عطا فرما کر کلیر شریف روانہ ہونے کا حکم فرمایا۔
جب آپ رحمه الله تعالی علیه ۱۰ ذو الحجہ ٦٤٦ھ یا ٦٥٠ھ میں ۳۳ سال کی عمر میں کلیر تشریف لائے تو یہ ایک عظیم الشان اور بارونق شہر تھا۔ دولت کی فراوانی، وسیع و عریض عمارتیں اور مزین و آراستہ مکانات نے اس شہر کو مزید خوبصورت بنادیا تھا لیکن اس شہر کا ظاہر جس قدر روشن تھا اس شہر کے مکینوں کا باطن اس قدر تاریک تھا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ حضرت سید نا علی احمد صابر رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے ساتھ انتہائی بد سلوکی سے پیش آئے۔

آپ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کی تشریف آوری وہاں کے قاضی کو ایک آنکھ نہ بھائی۔ اس نے آپ رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ کے خلاف کلیر کے قیام الدین نامی رئیس کو ورغلایا، رئیس بھی قاضی کی باتوں میں آ گیا۔ جب حضرت سیدنا علی احمد صابر رحمتہ اللہ تعالی علیہ سے اس رئیس کا سامنا ہوا تو اس نے آپ رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ سے کہا: ” اگر آپ امامت اور خلافت کے دعوے دار ہیں تو بتائیے میری تین ماہ سے غائب خوبصورت اور قد آور سبز رنگ والی بکری کہاں ہے ؟ اگر بتا دیں گے تو ہم آپ کو اپنا امام مان کر آپ کی بیعت کر لیں گے ۔ آپ رحمتہ اللہ تعالی علیہ نے اس رئیس کی دستگیری فرماتے ہوئے عالم ارواح کی جانب توجہ فرمائی اور ہاتھ اٹھا کر فرمایا " اے بکری کے کھانے والو نکل آؤ۔ لمحہ بھر میں وہ تمام کے تمام لوگ آپ رحمہ اللہ تعالی عنہ کی بارگاہ میں حاضر ہو گئے ، آپ رحمہ اللہ تعالی علیہ نے ارشاد فرمایا: تم لوگوں نے رئیس کی بکری پکڑ کر کھالی ہے، اس کی تفصیل بیان کرو۔ رئیس کے خوف سے ان تمام لوگوں نے انکار کیا تو آپ رحمہ اللہ تعالی علیہ نے نرمی سے ارشاد فرمایا: بہتر یہی ہے کہ خود اپنا اپنا حال بیان کر دو ورنہ ذرا سی دیر میں پردہ فاش ہو جائے گا اور پھر شرمندگی اٹھانا پڑے گی۔ یہ سن کر بھی وہ لوگ مسلسل انکار ہی کرتے رہے تو آپ رحمتہ اللہ تعال علیہ نے رئیس سے ارشاد فرمایا: آپ اپنی بکری کا نام پکار ئیے۔ جیسے ہی اس نے حرمنہ“ کہہ کر آواز دی تو بکری کو ہڑپ کر جانے والوں کے پیٹ سے یہ آواز آئی: میں ان لوگوں کے پیٹ میں ہوں ، انہوں نے آدھی رات کو چاہ صدرق کے کنارے پر ذبح کر کے میرا گوشت بھون کر کھایا تھا اور ہڈیاں، کھال میں رکھ کر کنویں میں پھینک دی ہیں۔ یہ سن کر رئیس نے عرض کی: آپ بے شک اقطاب میں سے ہیں۔ آگے بڑھ کر بیعت کرناہی چاہتا تھا کہ قاضی نے اسے روک لیا اور اس کے کان میں کہا: ” اس کے دھوکے میں مت آنا یہ بہت بڑا جادو گر معلوم ہوتا ہے۔ “ یہ سن کر رئیس کا دل لمحہ بھر میں پلٹ گیا، اس کے قدم رک گئے اور اس قدر روشن کرامت دیکھنے کے باوجود زبان سے بدگمانی کے زہر میں بجھا ہوا تیر نکلا: ” مجھے تو تم قطب نہیں جادو گر لگتے ہو ۔ “ یہ سن کر حضرت سیدناعلی احمد صابر علیہ الرحمۃ مسکرا دیے اور عفو و در گزر کی معنوی کرامت کا اظہار کرتے ہوئے یوں فرمایا: الحمد اللہ! آج یہ سنت نبوی بھی ادا ہو گئی کہ مجھے جادو گر کہا گیا۔

*وصال مبارک۔۔۔۔*
آپ رحمتہ اللہ علیہ نے ایک اپنے خلیفہ حضرت شمس الدین ترک سے فرمایا جس دن تم سے کسی کرامت کا ظہور ہو جائے تو سمجھ میرا انتقال ہو گیا۔جس دن حضرت شمس الدین ترک علیہ الرحمۃ سے کرامت کا ظہور ہوا فوراً کلیر شریف حاضر ہوئے اور خود آپ کی تہجیز، تکفین اور تدفین کی۔آپ کا وصال ١٣ ربیع النور شریف ٦٩٠ھ مطابق ١٥ مارچ ١٢٩١ء میں ہوا۔ آپ کا مزار پر انوار کلیر شریف ضلع سہارنپور یو۔پی ہند میں نہر گنگ کے کنارے مرجع الخلائق ہے

سرکار مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ والرضوان فرماتے ہیں
کیسے کانٹوں رتںیاں صابر
تارے گنت ہوں سیںاں صابر

*ازقلم۔۔۔۔۔ محمد زبیر رضا قادری*
*متعلم۔۔۔جامعہ رضویہ منظر اسلام بریلی شریف*




ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے