شادی بیاہ کے بڑھتے اخراجات و خرافات اور اُن کا حل

شادی بیاہ کے بڑھتے اخراجات و خرافات اور اُن کا حل
_
از : محمد عامر حسین مصباحی ، رسول گنج عرف کوئلی 
استاذ: جامعہ ضیائیہ فیض الرضا ددری ، سیتامڑھی ، بہار
٭٭٭ 
___ نسلوں کی حفاظت و صیانت کے لیے اللہ رب العزت نے ہر جاندار خواہ انسان ہو یا جانور اس کے اندر شہوت ودیعت کی ہے کیوں کہ اسی سے نسلوں کی بقا اور اس کا دوام ہے۔ بقاے نسل کے ساتھ ساتھ خواہشات نفسانی کی تکمیل بھی انتہائی ضروری ہے یہی وجہ ہے کہ انسانوں کے اندر شادی بیاہ کے اصول و ضوابط کو پسندیدگی اور قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور دنیا کے بیش تر ادیان و مذاہب اس پر عمل پیرا ہیں اور اس کے خلاف کام کرنے والےکو حقارت کی نظر سے دیکھاجاتا ہے اورمناسب انداز میں تادیبی کار روائی بھی کی جاتی ہے ۔
____مذہبِ اسلام میں شہوت کی تکمیل اور حصولِ اولاد کے لیے ایک جامع اور مکمل نظام موجود ہے جس میں اعتدال اور حدودِ شرع کی پاس داری کے ساتھ کم خرچ میں انتہائی سادگی کے ساتھ رسمِ نکاح ادا کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔
___نکاح جتنا آسان ہوگا معاشرہ اتنا ہی بے حیائیوں اور فحاشیوں سے پاک وصاف ہوگا، 
اور اہم ترین بات یہ ہے کہ 
نکاح حضرت سیّدنا آدم علٰی نَبِیِّنَا وعلیہ الصَّلٰوۃ وَالسَّلام سے شروع ہونے والی عظیم عبادت،نسلِ انسانی کے وجود میں آنے اور باقی رہنے کا ذریعہ اور صالحین و عابدین علیہ رحمۃ اللہ المُبِین کی پیدائش کا سبب ہے۔ نکاح اگر شریعت کے مطابق کیا جائے تو شرم و حیا کے حُصُول کے ساتھ ساتھ فراخ دستی اور خوشحالی کا سبب بھی ہے کہ حدیثِ پاک میں ہے:اِلْتَمِسُوا الرِّزْقَ بِالنِّكَاحِ یعنی نکاح (شادی) کے ذریعے رزق تلاش کرو۔
(جامع صغیر،ص98،حدیث: 1567) __ حضرت علامہ عبدالرءُوف مناوی علیہ رحمۃ اللہ الہادِی اس کی شرح میں فرماتے ہیں:جب شادی کی نیت اچھی ہو تو یہ نکاح برکت اور رزق میں وُسعَت کا سبب بنتا ہے۔
(فیض القدیر،ج 2،ص198،تحت الحدیث:1567)
___یقیناً ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اُس نکاح کو برکت والا قرار دیا جس میں فریقین کا خرچ کم ہو چنانچہ نبیِّ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: بڑی برکت والا وہ نکاح ہے جس میں بوجھ کم ہو۔ (مسند احمد، ج9،ص365، حدیث:24583) 
___ حکیم الامّت مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ المنَّان اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں: یعنی جس نکاح میں فریقین کا خرچ کم کرایا جائے، مہر بھی معمولی ہو، جہیز بھاری نہ ہو، کوئی جانب مقروض نہ ہوجائے، کسی طرف سے شرط سخت نہ ہو، اﷲ (عَزَّوَجَل) کے توکل پر لڑکی دی جائے وہ نکاح بڑا ہی بابرکت ہے ایسی شادی خانہ آبادی ہے، آج ہم حرام رسموں، بے ہودہ رواجوں کی وجہ سے شادی کو خانہ بربادی بلکہ خانہا (یعنی بہت سارے گھروں کے لئے باعثِ) بربادی بنالیتے ہیں۔ اللّٰہ تعالٰی اس حدیثِ پاک پر عمل کی توفیق دے۔
(مراٰۃ المناجیح،ج5،ص11(ماہنامہ فیضانِ مدینہ جنوری 2018)
مگر افسوس کہ غیر اقوام کے ساتھ رہن سہن اور سماجی رابطوں نے مسلمانوں کی اسلامی ثقافت اور کلچر کو بھی بدل کر رکھ دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ لفظِ شادی سےفضول خرچی ،اسراف اور بُرے رسم و رواج کا ایک خاکہ ذہن میں ابھر کر آتا ہے۔کچھ بُری اور بیہودہ رسموں کا تذکرہ مناسب سمجھتا ہوں۔ 

*لڑکی والوں سے موٹی رقم کا مطالبہ:*
___مہنگائی اور معاشی تنگی سے پریشان باپ جب اپنی لڑکی کے لیے مناسب لڑکا تلاش کرنے کی ابتدا کرتا ہے تو اُس کا سامنا نکمے ، نالائق اور ایسے بے روزگار بیٹوں کے باپ سے ہوتا ہے جو اپنے اس بے قیمت لعل(لال) کا بھی اچھا خاصہ دام مقرر کرچکے ہوتےہیں اور کسی صورت مفت میں ملنے والے تین چار لاکھ روپے سے کم میں ماننے کو تیار نہیں ہوتے اور اگر لڑکی کے باپ نے مناسب، تعلیم یافتہ اور معاشی طور پر خوشحال لڑکا پسند کرلیا تو اُس وقت تک رشتہ جُڑنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی جب تک کہ منہ مانگی رقم نہ دینی پڑےیہ وہ رقم ہے جو بغیر عوض لڑکی کے باپ کو ادا کرنی پڑتی ہےآخر یہ ظلم نہیں تو اور کیا ہے؟حالانکہ دعویٰ تو سنتِ نکاح کی ادائیگی کا ہوتا ہے مگر دُور دُور تک سنت پر عمل کا کوئی نام و نشان نہیں پایا جاتا ہمارے پیارے آقائے کریم علیہ الصلٰوۃ والسلام نے رشتۂ نکاح میں کس چیز پر توجہ دلائی وہ اس اس حدیث مبارکہ سے ظاہر ہے *فرمانِ مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہے: عورت سے نکاح چار باتوں کی وجہ سے کیا جاتا ہے: مال، حَسَب نَسَب،حُسْن وجمال اور دِین مگر تم دِین والی کو ترجیح دو ۔ (بخاری ،ج3،ص429، حدیث:5090*

*جہیز کی غیرشرعی مانگ:*
___ دین داری اور خوش خُلقی پر ظاہری اور مادِّی چیزوں کو فَوقیَّت دینے والوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ نبیِّ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: جس نے کسی عورت سے اُس کی عزّت کی وجہ سے نکاح کيا تو اللہ تعالیٰ اس کی ذِلّت کو بڑھائے گا،جس نے عورت کے مال و دولت (کے لالچ)کی وجہ سے نکاح کيا، اللہ تعالیٰ اُس کی غربت میں اضافہ کرےگا،جس نے عورت کے حَسَب نَسَب(یعنی خاندانی بڑائی)کی بنا پر نکاح کيا، اللہ تعالٰی اس کی کمينگی کو بڑھائے گااور جس نے صرف اور صرف اس لیے نکاح کيا کہ اپنی نظر کی حفاظت کرے،اپنی شرم گاہ کو محفوظ رکھے،يا صِلَۂ رحمی کرے تو اللہ تعالٰی اس کے لیے عورت میں برکت دے گااور عورت کے لئے مرد میں برکت دے گا۔
(معجم اوسط،ج2،ص18،حدیث:2342(ماہنامہ فیضانِ مدینہ اکتوبر 2017)

___جہیز کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ لڑکی کا باپ اپنی استطاعت ، خوشی اور بطورِ صلۂ رحمی بغیر کسی مطالبہ کے اپنی بیٹی اور داماد کو اُن کی نئی زندگی کی شروعات کے موقع پرضرورت کے سامان مثلاً کچھ کپڑے، برتن ،پلنگ، بستر ،میزاور کرسی وغیرہ دے کر اُن کی مدد کریں تو جائز ہے بلکہ کارِ ثواب میں شامل ہےکیوں اس میں ایک مومن کی مدد، دلجوئی، حسنِ سلوک اور تحفہ پیش کرنا ہے،ان چیزوں کا دینا نہ واجب ہے اور نہ فرض مگر اس کولڑکا یا اس کے گھر والے اگر اپنا پیدائشی حق سمجھ لیں اورجبری تقاضہ کرنے لگ جائیں کہ گاڑی، فریج،واشنگ مشین،گودریج الماری اور ان کے علاوہ دیگر اشیا کی لمبی چوڑی فہرست پکڑا کر کہیں کہ یہ تمام سامان دینا ہوگا ورنہ ہم رشتہ نہیں کریں گے یہ ایک غیر شرعی قابلِ مذمت مطالبہ ہے جسے اللہ عزوجل پسند نہیں فرماتا ۔ 

*شوہر کی ذمہ داری*
  __نان و نفقہ و سکنیٰ یعنی رہنے سہنے کھانے ، پینے اور پہننےکا انتظام و انصرام کرنا علی قدرِ استطاعت شوہر کی ذمہ داری ہے 
مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ بہار شریعت جلد 2 میں کچھ اس طرح ارشاد فرمایا کہ 
اگر یہ ” ا ندیشہ “ ہے کہ نکاح کرے گا تو نان نفقہ نہ دے سکے گا یا جو ضروری باتیں ہیں ان کو پورا نہ کرسکے گا تو’’مکروہ ‘‘ ہے اور ان باتوں کا ’’یقین ‘‘ہو تو نکاح کرنا ’’حرام ‘‘مگر نکاح بہرحال ہو جائے گا۔
پتہ چلا کہ زوجہ کے حقوق نہ ادا کرنے کی صورت میں نکاح سے منع کیا گیا ہے اور ایسی صورت میں قطعِ شہوت کے لیےروزہ رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ مگر معمول یہ بنتا جارہا ہےکہ شوہرکو فکر کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ سسرال والےتو سب سنبھال ہی لیں گے۔ یہ غلط روش ہے جس کی وجہ سے ایک غریب باپ اپنی بیٹیوں کے مستقبل کا سوچ کر تنہائی میں آنسو بہاتا نظر آتا ہےبلکہ آج بہت سی صاحبِ ثروت،تعلیم یافتہ،خوب صورت اور بااخلاق لڑکیوں کے باپ کوبھی بیٹیوں کے مستقبل کی فکر دامن گیر رہتی ہے کہیں نہ کہیں اس کے ذمہ دار لڑکی والے بھی ہوتے ہیں اپنے نام و نمود اور سماج میں اپنی عزت و شان اور ناک اونچی کرنے کے لیے بیجا تکلفات کا اہتمام کرتے ہیں اور بے تحاشا قرض میں بھی مبتلا ہوجانے کی پرواہ نہیں کرتے۔

*باراتیوں کی تعداد:*
__شادی کے موقع پر لڑکے والوں کی جانب سےباراتیوں کی تعداد بھی قابلِ غور ہے۔ دو ،تین سو کی تعداد میں باراتیوں کو لے جانا ،طرح طرح کے پکوان اور ڈشوں کی فرمائش کرنا لڑکی کے باپ پر یہ بھی ایک بڑا بوجھ لڑکےوالوں کی جانب سے ہوتا ہے اور پھرتھوڑی سی کمی بیشی ہونے پربرسرِ محفل عزت اتاری جاتی ہے۔ خدارا! غور کریں کیا اس طرح کی غیراخلاقی بلکہ غیر انسانی باتیں بھی ایک مومن کے شایانِ شان ہیں؟ 

*دیگر اخراجات:*
__شادی میں ہونے والی دیگر فضول رسمیں جیسے منگنی ، ابٹن ، مہندی اور ہلدی وغیرہ میں بہت سارے غیر شرعی اُمور انجام دئیے جاتے ہیں ساتھ ہی ناچ گانےباجےاور پٹاخوں پر پانی کی طرح پیسہ لٹایا جاتا ہے۔اس میں بہت سارے کام غیر شرعی ہیں کچھ کاموں کی اجازت بھی ہےجیسے ابٹن لگانا یا لڑکی کو مہندی لگانا،منگنی کرنا تو اس میں بھی شرعی احکام کا حددرجہ خیال رکھنا ضروری ہےورنہ سب کا حکم ایک جیسا ہی ہوگا۔
__مسلمانوں کو خود ہی غور کرنا چاہیے کہ ان غیرشرعی امور کی وجہ سےنکاح کی ایک عظیم سنت کتنےاخراجات اور بے جا خرافات و رسومات کا مجموعہ بن جاتی ہے ساتھ ہی ایک ناپائیدار زندگی کی بنیاد اور آپس میں بدخلقی، نااتفاقی کا سبب بھی

*خرافات کا حل:*
__مضمون میں مذکورہ فضول رسم و رواج نے شادی کو مشکل ترین بنادیا ہے۔ آج مسلم لڑکیاں غیر مسلم لڑکوں کے ساتھ بھاگ کر شادی رچالیتی ہیں اور نتیجتاً اپنی جان و ایمان کو گنوا بیٹھتی ہے اس کا ایک بڑا سبب شادی کی مشکلات بھی ہیں اس لیےخدارا! شادی کو آسان بنائیں ، سنت کے مطابق اس کو انجام دیں،کم باراتیوں کے ساتھ دلہن کے گھر جائیں ، میزبان کی طرف سے کی گئی ضیافت کی قدر کریں، ان کی دلجوئی کریں،بے جا مطالبات کا بوجھ ان پر نہ ڈالیں، بھوج بھنڈارے کے نام پر نمائشی کام نہ کریں بلکہ حسبِ استطاعت ولیمہ کی سنت ادا کریں ، لڑکی والے ہوں تو بہت زیادہ مہر کا مطالبہ نہ کریں مہر اتنا ہو کہ لڑکا باسانی اسے ادا کرسکے۔ اللہ رب العزت ہمیں عمل کی توفیق بخشے آمین

ہمیں کرنی ہے شہنشاہِ بطحا کی رضا جوئی 
وہ اپنے ہوگئے تو رحمتِ پروردگار اپنی 
______٭٭٭_______

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے