میت کی طرف قربانی کرنا کیسا ہے اور گوشت کا حکم
Kheriyat se ho aap
Marhoom k name se qurbani k bare me
Kuchh msail btaye
Uska gosht kya kiya jae
Walekum Assalam
Alhamdu Liilah sab theek
Aap kaise hain
Alhamdulillah
In sha Allah Bata Ta hun
اگر وارث نے میت کے حکم سے اس کی طرف سے قربانی کی تو اس پر لازم ہے کہ اسے صدقہ کردے اور اس میں سے نہ کھائے،
اور اگر وارث میت کے حکم کے بغیر تبرعاً اس کی طرف سے قربانی کرے ،تو اس کے لیے اس میں سے کھانا ،جائز ہے
علامہ شامی فرماتے ہیں:’’ لو ضحی عن میت وارثہ بامرہ الزمہ بالتصدق بھا وعدم الاکل منھا،وان تبرع بھا عنہ لہ الاکل لانہ یقع علی ملک الذابح والثواب للمیت،لھذا لو کان علی الذابح واحدۃ سقطت عنہ اضحیتہ کما فی الاجناس،قال الشرنبلالی:لکن فی سقوط الاضحیۃ عنہ تامل۔۔ اقول:صرح فی فتح القدیر فی الحج عن الغیر بلا امر انہ یقع عن الفاعل فیسقط بہ الفرض عنہ وللآخر الثواب فراجعہ‘‘ترجمہ:اگر وارث نے میت کے حکم سے اس کی طرف سے قربانی کی تو اس پر لازم ہے کہ اسے صدقہ کردے اور اس میں سے نہ کھائے،اور اگر وارث میت کے حکم کے بغیر تبرعاً اس کی طرف سے قربانی کرے ،تو اس کے لیے اس میں سے کھانا ،جائز ہے، کیونکہ یہ قربانی ملکِ ذابح پر واقع ہوئی ہے اور میت کے لیے ثواب ہے،اور اسی لیے اگر ذابح پرایک قربانی لازم ہو، تو ساقط ہو جائے گی جیسا کہ اجناس میں ہے۔علامہ شرنبلالی نے فرمایا:لیکن اس سے قربانی کے ساقط ہونے میں تامل ہے۔میں(علامہ شامی)کہتا ہوں:علامہ ابن ہمام نے فتح القدیر میں حج عن الغیر بلاامر کے بارے میں فرمایا ہے کہ وہ فاعل کی طرف سے واقع ہوگا اور اس سے اس کا فرض ساقط ہو جائے گا اور اس دوسرے شخص کے لیے اس حج کا ثواب ہے،تو اس کی جانب رجوع کرو۔(رد المحتارمع الدرالمختار،کتاب الاضحیہ،ج9،ص554،مطبوعہ کوئٹہ)
فتاوی قاضی خان میں ہے:’’ ولو ضحی عن المیت من مال نفسہ بغیر امر المیت جاز،ولہ ان یتناول منہ ولا یلزمہ ان یتصدق بہ،لانھا لم تصر ملکاً للمیت بل الذبح حصل علی ملکہ،ولھذا لو کان علی الذابح اضحیۃ سقطت عنہ‘‘ترجمہ:اگر کسی نےاپنے مال سے میت کی طرف سے بغیر اس کی وصیت کے قربانی کی تو یہ جائز ہےاور اس ذبح کرنے والے کے لیے اس قربانی میں سے کھانا، جائز ہے اور اس گوشت کو صدقہ کرنا لازم نہیں، کیونکہ وہ میت کی ملک نہ ہوئی، بلکہ قربانی ذبح کرنے والے کی ملک پر ہوئی، لہذا اگر ذبح کرنے والے پر قربانی واجب تھی ،تو اس سے واجب ساقط ہو گیا۔(فتاوی قاضی خان،کتاب الاضحیۃ،ج3،ص239،مطبوعہ کراچی)
ردالمحتار میں ہے:’’ من ضحی عن المیت یصنع کما یصنع فی اضحیۃ نفسہ من التصدق والاکل والاجر للمیت والملک للذابح وقال الصدر والمختار انہ ان بامر المیت لا یاکل منھا والا یاکل،بزازیہ‘‘ترجمہ: اگرمیت کی طرف سے قربانی کی تو صدقہ اور کھانے میں اپنی ذاتی قربانی والا معاملہ کیا جائے اور اجر وثواب میت کے لیے ہوگا اور ملکیت ذبح کرنے والے کی ہوگی، فرمایا صدر نے کہ مختاریہ ہے کہ اگر قربانی میت کی وصیت پر کی تو خود نہ کھائے، ورنہ کھائے۔ بزازیہ۔(ردالمحتار مع الدرالمختار،کتاب الاضحیۃ،ج 9،ص540،مطبوعہ کوئٹہ)
فتاوی رضویہ میں امام اہلسنت سے سوال ہوا:’’ایک شخص نے ایک قربانی میں تین آدمیوں کے نام جو مرگئے ہیں کی ،کیا فرماتے ہیں قربانی درست ہے یانہیں؟“
امام اہلسنت نے جواباً ارشاد فرمایا:”قربانی اللہ عزوجل کے لیے کی اور اس کا ثواب جتنے مسلمانوں کوپہنچانا چاہا اگر چہ عام امت مرحومہ کو ،تو قربانی درست ہوگی اور ثواب سب کو پہنچے گا اور اگر ان تینوں نے اپنی طر ف سے قربانی کی وصیتیں کی تھیں، تو ہر ایک کے مال سے جدا قربانی لازم ہے۔ ایک قربانی دوکی طرف سے نہیں ہوسکتی،اگر کی جائے، تو کسی کی طرف سے نہ ہوگی،محض گوشت ہوگا۔‘‘(فتاوی رضویہ ،کتاب الاضحیہ،ج20،ص457،رضافاؤنڈیشن،لاھور)
ایک اور مقام پر سیدی اعلیٰ حضرت سے سوال ہوا کہ’’ منجانب میت جو قربانی دی جائے، اس گوشت کو کس طرح تقسیم کیا جائے، اس کا رواج ہے کہ ایک حصہ خویش واقرباء اور ایک وقف علی المساکین اور تیسرا حصہ وقف کیا جاتاہے۔‘‘
سیدی اعلیٰ حضرت جواباً ارشاد فرماتے ہیں:’’اس کے بھی یہی حکم ہیں، جو اپنی قربانی کے کہ کھانے، کھلانے، تصدق، سب کا اختیار ہے اور مستحب تین حصے ہیں: ایک اپنا ، ایک اقارب، ایک مساکین کا، ہاں اگر میت کی طر ف سے بحکم میت کرے۔ تو وہ سب تصدق کی جائے۔‘‘(فتاوی رضویہ ،کتاب الاضحیہ،ج20،ص455،رضافاؤنڈیشن،لاھور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں