نیاز مندوں کی بے نیازی:فکری پستی کی غمازی
(1)اسلاف کرام غربا،مساکین اور حاجت مندوں کو اپنے قریب رکھتے اور حسب ضرورت ان کی مدد بھی فرماتے۔وہ سلاطین وحکام سے دوری بنا کر رکھتے،تاکہ یہ لوگ اپنے کسی مقصد باطل کے لئے انہیں استعمال نہ کریں۔وہ اصحاب حکومت وسلطنت سے بے نیازی کا اظہار فرماتے اور اس پر کھرے اترتے تھے۔ان کا ظاہر وباطن یکساں تھا۔
پندرہویں صدی ہجری میں غربا ومساکین اور حاجت مندوں کو خود سے دور رکھا جاتا ہے،اور ان سے بے نیازی ظاہر کی جاتی ہے،کیوں کہ ان سے کچھ ملنے کی امید نہیں اور اصحاب ثروت وارباب دولت سے رشتہ جوڑنے کو خوش قسمتی تصور کیا جاتا ہے۔غریبوں سے بے نیازی اور امیروں سے نیازمندی اسلاف کرام کا طرز عمل نہیں،بلکہ ہر ایک کے ساتھ حسن اخلاق کا رویہ اپنائیں اور بدمذہبوں سے دوری بنائیں۔
یہ نہیں کہا جا رہا ہے کہ اصحاب ثروت سے آپ منہ پھیر لیں اور ان کو برا بھلا کہیں،یہ بھی غلط ہے،کیوں کہ اسلام نے ہر مومن کو عزت عطا فرمائی ہے،بلکہ آپ اپنے غلط طرز عمل کو بدلیں۔رئیسوں کی چابلوسی اور چپل بوسی ترک کریں اور اپنے عالمانہ وقار کو ملحوظ خاطر رکھیں۔
(2)حضوران ملت کے سامنے اصحاب جبہ ودستار دست بستہ کھڑے رہتے ہیں،وہ ان پر عقیدت ومحبت کے پھول نچھاور کرتے ہیں،ان پر فریفتگی اور ان سے دل بستگی کا اظہار بھی خوب کرتے ہیں،لیکن یہ کمزور حضرات ان نفوس عالیہ کو ضخیم لفافے پیش کرنے سے قاصر ہوتے ہیں،لہذا حضوران ملت کی جانب سے ایسے لوگوں کی جانب کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی ہے۔
اگر حضوران ملت کبھی کبھار رسمی طور پر ان سے خیریت پرسی کر لیں تو یہ بے چارے پھولے نہیں سماتے اور دیگر بے چاروں سے خود کو بہت عظیم سمجھتے ہیں،حالاں کہ ان کے پاس عظمت کا کوئی سبب بھی نہیں ہوتا ہے اور بعض بے چارے تو بڑے ہی گستاخ ومغرور ہوتے ہیں۔
(3)ان بے چاروں میں بھی بہت سے چالاک لوگ ہوتے ہیں۔یہ لوگ حضوران ملت کے عقیدت مندوں اور مریدوں سے اپنی عقیدت کا معاوضہ وصول کر لیتے ہیں۔انہیں ان کے عقیدت مندوں میں عزت ملتی ہے اور پروگرام بھی۔نذرانے بھی اور تحفے بھی،یعنی سارا معاملہ روزی روٹی کا ہے۔
بے سبب جان کسی پر نہیں دیتا کوئی
کچھ تو رشتہ ہے صحیح شمع سے پروانے کو
(4)ان بے چاروں میں سے جو لوگ حضوران ملت کی تشہیر کرتے ہیں،ان کے پروگرام دلواتے ہیں،ان کے لئے ماحول سازی کرتے ہیں اور لوگوں کو ان سے مرید کراتے ہیں یا اسی قسم کا کوئی فائدہ انہیں پہنچاتے ہیں تو ایسوں کا رتبہ بھی ان کی نظر میں بلند ہو جاتا ہے۔الغرض حضوران ملت بھی اپنے مفادات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔
(5)حضوران ملت کی خدمت جائز ہے،لیکن پندرہویں صدی ہجری میں تمام حضوران ملت مکمل قابل اعتماد نہیں۔کب کس کا قدم پھسلے کہ تمہاری آخرت تباہ ہو جائے،توبہ ورجوع کی امید نہیں،کیوں کہ توبہ کی تا حلق میں پھنس جاتی ہے،لہذا سب سے بہتر یہی ہے کہ اخلاص کے ساتھ دین خداوندی کا کام کریں اور اللہ ورسول (عزوجل وصلی اللہ تعالی علیہ وسلم)کی طرف متوجہ ہوں۔اگر شخصیات ہی کی طرف قدم بڑھانا ہو تو جو صالحین گزر چکے،ان میں سے کسی کا انتخاب کر لو۔یہ کوئی نیا فلسفہ نہیں،بلکہ فقہ حنفی کے مرجع صحابی رسول حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کی فکر ہے اور (اصحابی کالنجوم فبایہم اقتدیتم اہتدیتم)کی بشارت بھی ان نفوس قدسیہ کے پیرو کاروں کے لئے ہے۔ان کا قول درج ذیل ہے:
(عن عبد الله بن مسعود رضي الله عنه :مَن كانَ مُسْتَنًّا- فَلْيَسْتَنَّ بمن قد ماتَ-فإنَّ الحيَّ لا تُؤمَنُ عليه الفِتْنَةُ-الحدیث)
(رواه ابن عبد البر في "جامع بيان العلم وفضله" (جلد دوم:ص947- رقم 1810)
ترجمہ:جو طریقہ اختیار کرنا چاہے تو اس کا طریقہ اختیار کرے جو گزر چکے،کیوں کہ ژندہ انسان فتنہ سے مامون و محفوظ نہیں۔
طارق انور مصباحی
جاری کردہ:24:فروری 2025
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں