چوری کے مال کا حکم
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ.
علمائے کرام کی بارگاہ میں ایک سوال عرض ہے میری سریا سیمنٹ کی دکان ہے سیمنٹ کے کٹوں کی گاڑی منگاتے ہیں تو ڈرائیور دوچار کٹے بڑھتی ڈال کر لاتے ہیں، ان کٹوں کو کم پیسوں میں دے جاتے ہیں جو وہ کٹے فالتو ڈال کر لاتے ہیں ان کٹوں کو کم پیسوں میں لینا کیسا ہے؟،
🔸 سائل محمد معید رامپوری
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
و علیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
📝الجواب بعون الملک الوہاب ⇩
مذکورہ صورت میں ڈرائیور جو سیمینٹ کے کٹے لاتا ہے وہ مالک کی اجازت کے بغیر ہو تے ہیں جو کہ چوری ہے، اور چوری کا مال یقینی طور پتہ ہونے کی صورت میں خریدنا ناجائز ہے۔
( 📕جیسا کے بہار شریعت میں مذکور ہے۔ جلد 2 صفحہ 719 )
( 📘اور اسی طرح فتاویٰ بحر العلوم میں مذکور ہے )
حدیث شریف ہے:
,,عن ابی ھریرۃ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال من اشتری سرقۃ وہو یعلم انہا سرقۃ فقد اشترک فی عار ہا واثمہا ،،
یعنی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے ارشاد فرمایا:
,,جوشخص کسی چوری کے سامان کو یہ جانتے ہوئےکہ یہ چوری کا ہے خرید لے تو وہ شخص اسکے وبال اور گناہ میں حصہ دار ہوگیا۔
(📔 بهقي و شعب الايمان حدیث 5258 )
📌چوری کا مال دانستہ خریدنا حرام ہے بلکہ اگر معلوم نہ ہو مظنون ہو جب بھی حرام ہے، مثلا کوئی جاہل شخص کہ اس کے مورثین بھی جاہل تھے کوئی علمی کتاب بیچنے کو لائے اور اپنی ملک بتائے، اس کے خریدنے کی اجازت نہیں، اور اگر نہ معلوم ہے نہ کوئی واضح قرینہ تو خریداری جائز ہے، پھر اگر ثابت ہوجائے کہ یہ چوری کا مال ہے تو اس کا استعمال حرام ہے بلکہ مالک کو دیا جائے اور وہ نہ ہو تو اس کے وارثوں کو ، اور ان کا بھی پتہ نہ چل سکے تو فقراء کو،
( 📓فتاویٰ رضویہ جلد 17 صفحہ۔ 165 )
واللہ تعالیٰ اعلم
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
✍🏻کـــــــــتـــــبـــــہ
حضرت مولانا محمد جنید صاحب قبلہ مدظلہ العالی والنورانی پیلی بھیت حال مقیم ۔جامعہ نیپال
رابطہ
+917520015800
✅الجواب صحیح والمجیب نجیح خلیفئہ حضور تاج الشریعہ حضرت مفتی سید شمش الحق برکاتی مصباحی صاحب قبلہ
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں