حالات حاضرہ اور اعلی حضرت

 حالات حاضرہ اور اعلی حضرت

حضور اعلی حضرت قبلہ قدس سرہ فرماتے ہیں :

حال ناگفتہ بہ ہے کہ انٹر پاس کو رزاق مطلق سمجھا ہے وہاں نوکری میں عمر کی شرط، پاس کی شرط، پھر پڑھائی وہ مفید کہ عمر بھر کام نہ آئے، نہ اس کی نوکری میں اس کی حاجت پڑے، 
اپنی ابتدائی عمر کہ وہی تعلیم کا زمانہ ہے یوں گنوائی، اب پاس ہونے میں جھگڑا ہے، تین تین بار فیل ہوتے ہیں 
اور پھر لپٹے چلے جاتے ہیں،ا ور قسمت کی خوبی کہ مسلمان ہی اکثر فیل کئے جاتے ہیں، پھر تقدیر سے پاس بھی مل گیا تو اب نوکری کا پتا نہیں ا ورملی بھی تو صریح ذلت کی، 
اور رفتہ رفتہ دنیوی عزت کی بھی پائی تو وہ کہ عندالشرع ہزار ذلت، 

کہئے ! پھر علم دین سکھنے اور دین حاصل کرنے اور نیک وبد میں تمیز کرنے کا کون سا وقت آئے گا۔ لاجرم نتیجہ یہ ہوتاہے کہ دین کو مضحکہ سمجھتے ہیں، اپنے باپ دادا کو جنگلی، وحشی، بے تمیز، گنوار، نالائق، بیہودہ، احمق، بے خردجاننے لگتے ہیں، بفرض غلط اگریہ ترقی بھی ہوئی تو نہ ہونے سے کروڑ درجے بد تر ہوئی، کیا تم علم دین کی برکتیں ترک کرو گے،فھل انتم منتھون ۱؎

(تو کیا تم باز آئے۔ ت)

(۱؎ القرآن الکریم ۵ /۹۱)

یہ وجوہ ہیں یہ اسباب ہیں، مرض کا علاج چاہنا اور سبب کا قائم رکھنا حماقت نہیں تو کیاہے، 
اس نے تمھیں ذلیل کردیا اس نے غیر قوموں کو تم پر ہنسوایا، اس نے اس نے اس نے جو کچھ کیا وہ اس نے، 
اور آنکھوں کے اندھے اب تک اس اوندھی ترقی کا رونا روئے جاتے ہیں، ''ہائے قوم وائے قوم یعنی ہم تواسلام کی رسی گردن سے نکال کر آزاد ہوگئے، تم کیوں قلی بنے ہو'' حالانکہ حقیقۃ یہ آزادی ہی سخت ذلت کی قیدہے جس کی زندہ مثال یہ ترکوں کا تازہ واقعہ ہے ۔ 
ولا حول ولاقوۃ الا باﷲ العلی العظیم۔


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے