داوٗد عَلَیْہِ السَّلام کی دلکش آواز کے کرشمے

داوٗد عَلَیْہِ السَّلام کی دلکش آواز کے کرشمے

حضرتِ سیِّدُنا داتا گنج بخش رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : *اللّٰہُ وَدود عَزَّوَجَلَّ نے حضرتِ سیِّدُنا داوٗد عَلٰی نَبِیِّنا وَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کو اِس قَدَر نوازا تھا کہ آپ کی خوش الحانی کے باعث چلتا ہوا پانی ٹھہر جاتا، چرندے اور جانور آوازِ مبارَکہ سن کر پناہ گاہوں سے باہَر نکل آتے ، اُڑتے پرندے گر پڑتے اور بسا اوقات ایک ایک ماہ تک مدہوش پڑے رہتے اور دانہ نہ چُگتے ، شیرخوار بچے نہ روتے نہ دودھ طلب کرتے ، کئی افراد فوت ہوجاتے حتّٰی کہ ایک بار آپ عَلٰی نَبِیِّنا وَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کی پرسُوز آواز کے سبب بَہُت سارے افراد دم توڑ گئے ۔ شیطان یہ سب کچھ دیکھ کر جل بُھن کر کباب ہوا جارہا تھا بالآخر اُس نے بانسری اور طنبورہ بنایا اور حضرتِ سیِّدُنا داوٗد عَلٰی نَبِیِّناوَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کے رحمتوں بھرے اجتماع کے مقابلے میں اپنا نُحُوستوں بھرا اجتماع یعنی محفلِ موسیقی کا سلسلہ شروع کیا ۔ اب سامِعینِ داوٗدی دو گروہوں میں مُنقَسِم ہو گئے ، سعادت مند حضرات حضرتِ سیِّدُنا داوٗد عَلٰی نَبِیِّنا وَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام ہی کو سنتے جبکہ بدبخت افراد گانے باجوں اور راگ رنگ کی محافل میں شرکت کرکے اپنی آخرت خراب کرنے لگے ۔* 

📗 ( ماخوذ از کشف المحجوب ص۴۵۷ )

 *کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ ڈالا جائیگا*

*میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو !دیکھا آپ نے !* گانے باجے سننا سنانا شیطانی اَفعال ہیں ، سعادت مند مسلمان ان چیزوں کے قریب بھی نہیں پھٹکتے ۔

 گانوں باجوں سے بچنا بے حد ضروری ہے کہ اِس کا عذاب کسی سے بھی نہ سہا جاسکے گا ۔ حضرت سیِّدُنا اَنَس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے منقول ہے : *’’ جو شخص کسی گانے والی کے پاس بیٹھ کر گانا سنتا ہے قِیامت کے دن اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اس کے کانوں میں پِگھلا ہوا سیسہ اُنڈیلے گا‘‘ ۔*  

📗 (کنزُ العُمّال ج۱۵ ص۹۶حدیث۴۰۶۶۲دارالکتب العلمیۃ بیروت)

*بندر و خِنزیر*

عُمدَ ۃُالقاری میں ہے ، مدینے کے تاجدار ، رسولوں کے سالار‘ نبیوں کے سردار، مدینے کے تاجدار، بِاذنِ پروردگار غیبوں پر خبردار، شَہَنشاہ ِاَبرار، ہم غریبوں کے غمگسار، ہم بے کسوں کے مدد گار، صاحبِ پسینۂ خوشبودار‘ شفیعِ روزِ شُمار، جناب احمدِ مختار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ارشادِ عبرت بنیاد ہے : *آخِر زمانہ میں میری امّت کی ایک قوم کو مَسْخْ کر کے بندر اور خِنزیر بنادیا جائے گا ۔* صحابۂ کرام عَلَيهِمُ الّرِضْوَان نے عرض کی : *یارسولَ ﷲ عَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ خواہ وہ اِس بات کی گواہی دیتے ہوں کہ آپ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں اوراللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ۔* فرمایا : *ہاں خواہ نَمازیں پڑھتے ہوں ، روزے رکھتے ہوں ، حج کرتے ہوں ۔* عرض کی گئی : *ان کا جُرم کیا ہوگا ؟* فرمایا : *وہ عورَتوں کا گانا سنیں گے اور باجے بجائیں گے اور شراب پئیں گے اسی لَھْو و لَعِب (یعنی کھیل کود) میں رات گزاریں گے اور صبح کو بندر اور خِنزیر بنا دیئے جائیں گے ۔* 

📗 (عُمدَ ۃُالقاری ج ۱۴ ، ص۵۹۳ دارالفکر بیروت)

*سُرخ آندھیاں* 

حضرتِ مولائے کائنات، علیُّ المُرتَضٰی شیرِ خدا کَرَّمَ اﷲ ُ تعالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے روایت ہے ، تاجدارِ رسالت، محبوبِ رَبُّ الْعِزَّت عَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہ ُتَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسَلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے : *جب میری امّت پندرہ ۱۵ خصلتیں اختیار کر لے گی تو اس پر آفتیں اور بلائیں نازل ہوں گی* عرض کی گئی : *یا رسولَ اللہ عَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہ تَعَالٰی علیہ واٰلہٖ وَسلَّم وہ کون سی خصلتیں ہیں؟* 

فرمایا : 

*{۱}* جب مالِ غنیمت کو ذاتی دولت بنالیا جائے اور

*{۲}* امانت کو مالِ غنیمت بنا لیا جائے اور

*{۳}* زکوٰۃ کو جُرمانہ سمجھا جائے اور

*{۴}* آدمی اپنی بیوی کی اطاعت کرے اور 

*{۵}* ماں کی نافرمانی کرے اور

*{۶}* دوست کے ساتھ بھلائی کرے اور

*{۷}* باپ کے ساتھ بے وفائی کرے اور

*{۸}*مساجِد میں آوازیں بُلند کیجائیں *(یعنی مسجدوں میں دنیاوی باتوں کا شور، لڑائیاں جھگڑے ہونے لگیں ۔* نعت خوانی ، ذکر اللہ کی مجلسیں، میلاد شریف ، ذکر کے حلقے تو حضور (عَلَیْہِ السَّلَام) کے زمانہ ہی میں بھی مسجدوں میں ہوتے تھے ۔ 

📗 (مراۃ المناجیح ج۷ص ۲۶۳، ضیاء القرآن )) 

اور 

*{۹}* سب سے رَذیل( یعنی کمینہ ترین) شخص کو قوم کا سردار بنالیا جائے اور

*{۱۰}* کسی شخص کے شَر سے بچنے کیلئے اُس کی عزت کی جائے اور 

*{۱۱}* شرابیں پی جائیں اور

*{۱۲}* ریشم پہنا جائے اور 

*{۱۳}* گانے والیوں اور

*{۱۴}* آلاتِ مُوسیقی کو رکھا جائے اور 

*{۱۵}* اِس امّت کے بعد والے پہلوں کو بُرا کہیں ،

*اُس وقت لوگوں کو سُرخ آندھیوں یا زلزلوں یا زمین میں دھنسنے یا چہروں کے مسخ یا پتھر برسنے کا انتظار کرنا چاہیے ۔* 

📗 (سنن الترمذی ج۴ ص۸۹ ۔ ۹۰، حدیث۲۲۱۷، ۲۲۱۸ دارالفکر بیروت )

*یاد رکھئے !* موسیقی والے گانے سننا گناہ ہے بلکہ کہیں سے اس کی آواز آرہی ہو تو وہاں سے ہٹ جانا اور نہ سننے کی بھر پور کوشش کرنا ضَروری ہے چُنانچِہ حضرتِ علّامہ شامی قُدِّسَ سرُّہُ السّامی فرماتے ہیں : *’’ بانسری اور دیگر سازوں کا سننا بھی حرام ہے اگر اچانک سُن لیا تو معذور ہے اور اس پر واجِب ہے کہ نہ سننے کی پوری کوشِش کرے ۔ ‘‘*  

📗 ( رَدُّ المُحتار ج۹ ص۶۵۱ دارالمعرفۃ بیروت)

*مُوسیقی کی آواز سے بچنا واجِب ہے*

حضرتِ سیِّدُنا علّامہ شامی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ، *’’ (لچکے توڑے کے ساتھ) ناچنا ، مذاق اُڑانا، تالی بجانا، سِتار کے تار بجانا، بَربَط، سارنگی ، رباب، بانسری ، قانون ، جھانجھن، بِگل بجانا ، مکروہِ تحریمی( یعنی قریب بہ حرام) ہے کیونکہ یہ سب کفّار کے شعار ہیں ، نیز بانسری اور دیگر سازوں کا سننا بھی حرام ہے اگر اچانک سُن لیا تو معذور ہے اور اس پر واجِب ہے کہ نہ سننے کی پوری کوشِش کرے ‘‘ ۔*  
📗 (اَیضاً ص۶۵۱)

*مُوسیقی کی آواز آتی ہو تو ہٹ جائیے*

*میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو !* جوں ہی موسیقی کی آواز آئے تو ممکنہ صورت میں فوراً کانوں میں اُنگلیاں داخِل کرکے وہاں سے دُور ہٹ جانا چاہئے ۔ اگر اُنگلیاں تو کانوں میں ڈال دِیں مگر وَہیں کھڑے یا بیٹھے رہے یا معمولی سا پرے ہٹ گئے تو مُوسیقی کی آواز سے بچ نہیں سکیں گے ۔ اُنگلیاں کانوں میں ڈال کر نہ سَہی مگر کسی طرح بھی مُوسیقی کی آواز سے بچنے کی بھرپور کوشش کرنا واجِب ہے ۔ اگر کوشش نہیں کریں گے تو ترکِ واجِب کا گناہ ہوگا ۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے