جماعت کا وقت ہوجائے تو امام کے لئے کب تک انتظار کیا جائے؟
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
السلام علیکم ورحمتہ اللہ تعالی وبرکاتہ
فجر کی جماعت کا وقت ۵:۳۰ ہے امام صاحب ۰۵:۳۱ پر پہونچے امام صاحب کے پہونچنے سے پہلے زید( جوکہ مقتدی ہے) نے ایک دوسرے مقتدی کو جو کہ فاسق معلن ہے نمازپڑھانے کے لئے آگے بڑھادیا اس فاسق معلن نے نماز بھی پڑھادی. آیا زید کا یہ فعل درست ہے؟ نیز کوئی شرعی حکم ہے کہ امام صاحب کیلئے دوچار منٹ کا انتظار کریں.؟
نماز سب کی گئی اتنا تو معلوم ہے..
مفتیان کرام جواب سے نواز کر شکریہ کا موقع دیں؛
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
الجواب بعون الملک الوھاب؛
جب نمازی اذان سے آجاتے ہوں تو بلاوجہ بعد اذان ہر شخص کو جُدا جدا بلانے کا التزام کرنا جس سے اُنہیں اذان پر آنے کی عادت جاتی رہے نہ چاہئے۔
فان فیہ علی ھذا التقدیراخلاء للاذان عمایقصد بہ
کیونکہ ایسی صورت میں اذان کا مقصد فوت ہوجاتا ہے۔ )
اور وقت کراہت تک انتظارِ امام میں ہرگز تاخیر نہ کریں، ہاں وقتِ مستحب تک انتطار باعثِ زیادت اجر وتحصیلِ فضیلت ہے پھر اگر وقت طویل ہے اور آخر وقت مستحب تک تاخیر حاضرین پر شاق نہ ہوگی کہ سب اُس پر راضی ہیں تو جہاں تک تاخیر ہو اُتنا ہی ثواب ہے کہ یہ سارا وقت اُن کا نماز ہی میں لکھا جائیگا،
وقدصحّ عن الصحابۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنھم انتظار النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم حتی مضی نحومن شطر اللیل وقداقرھم علیہ النبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم وقال انکم لن تزالوا فی صلاۃما انتظرتم الصلاۃ
یہ بات صحت کے ساتھ ثابت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم رات گئے تک نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا انتظار کرتے حتی کہ رات کا ایک حصہ گزر جاتا اور آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے انکے اس عمل کی تصویب فرمائی اور ارشاد فرمایا: جتنا وقت تم نماز کا انتظار کرتے ہویہ سارا وقت تم نماز میں ہی ہوتے ہو۔
(📗الصحیح لمسلم باب فضل الصلواۃ المکتوبۃ مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/۲۳۴)
ورنہ اوسط درجہ تاخیر میں حرج نہیں جہاں تک کہ حاضرین پر شاق نہ ہو۔
فی الانقرویۃ عن التاتارخانیۃعن المنتقی للامام الحاکم الشھیدان تاخیرالمؤذن وتطویل القرأۃ لادراک بعض الناس حرام ھذا اذاکان لاھل الدنیا تطویلاً وتاخیراً یشق علی الناس والحاصل ان التاخیر القلیل لاعانۃاھل الخیرغیرمکروہ ولاباس بان ینتظر الامام انتظاراً وسطا
انقرویہ میں تاتارخانیہ سے اور اس میں امام حاکم الشہید کی منتقی سے ہے کہ مؤذن کااقامت کو مؤخر کرنا اور امام کا قرأت کو لمبا کرنا تاکہ بعض خاص لوگ جماعت کو پالیں حرام ہے یہ حرمت اس وقت ہے جب یہ طوالت وتاخیر کسی دنیا دار کے لئے ہو اور لوگوں پر یہ شاق گزرے حاصل یہ ہے کہ تھوڑی تاخیر تاکہ اہلِ خیر شریک ہوجائیں مکروہ نہیں،امام کو اوسط درجہ کا انتظار کرنا جائز ہے۔
(📗فتاوٰی انقرویہ کتاب الصلوٰۃ مطبوعہ الاشاعۃ العربیہ قندھار افغانستان ۱/۵
(📕بحوالہ فتاوی رضویہ کتاب الصلوة جلد 5)
واللہ اعلم بالصواب
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
کتبـــہ
حضرت علامہ محمداسماعیل خان امجدی صاحب قبلہ مدظلہ العالی والنورانی؛
رابطہ؛☎9918562794)
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں