بلعم بن باعوراء کا واقعہ

بلعم بن باعوراء کا واقعہ

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

 وَاتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَاَ الَّذِیْۤ اٰتَیْنٰهُ اٰیٰتِنَا:
اور اے محبوب! انہیں اس آدمی کا حال سناؤ جسے ہم نے اپنی آیات عطا فرمائیں۔
*شانِ نزول:* حضرت عبداللہ بن عباس، عبداللہ بن مسعود اور امام مجاہد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم فرماتے ہیں:
’’ یہ آیت بلعم بن باعوراء کے بارے میں نازل ہوئی۔ 
*(تفسیرکبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۷۵، ۵ / ۴۰۳)* 

 حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ جب حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے جَبّارین سے جنگ کا ارادہ کیا اور سر زمینِ شام میں نزول فرمایا تو بلعم بن باعوراء کی قوم اس کے پاس آئی اور اس سے کہنے لگی کہ:
’’ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بہت تیز مزاج ہیں اور اُن کے ساتھ بہت بڑا لشکر ہے ،وہ یہاں اس لئے آئے ہیں تاکہ ہم سے جنگ کریں اور ہمیں ہمارے شہروں سے نکال کر ہماری بجائے بنی اسرائیل کو اس سرزمین میں آباد کریں ، تیرے پاس اسمِ اعظم ہے اور تم ایسے شخص ہو کہ تمہاری ہر دعا قبول ہوتی ہے، تم نکلو اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ وہ اُنہیں یہاں سے بھگا دے۔
قوم کی بات سن کر بلعم نے کہا: افسوس ہے تم پر! حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اللہ تعالیٰ کے نبی ہیں ، اُن کے ساتھ فرشتے اور ایمان دار لوگ ہیں ،اس لئے میں اُن کے خلاف کیسے بد دعا کر سکتا ہوں ! مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو علم ملا ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ اگر میں نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے خلاف ایسا کیا تو میری دنیا و آخرت برباد ہوجائے گی۔ قوم نے جب گریہ وزاری کے ساتھ مسلسل اصرار کیا تو بلعم نے کہا :اچھا! میں پہلے اپنے رب کی مرضی معلوم کر لوں۔ بلعم کا یہی طریقہ تھا کہ جب کبھی کوئی دعا کرتا تو پہلے مرضی ٔالٰہی معلوم کرلیتا اور خواب میں اس کا جواب مل جاتا۔
چنانچہ اس مرتبہ اس کو یہ جواب ملا کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اُن کے ساتھیوں کے خلاف دعا نہ کرنا۔ چنانچہ اُس نے قوم سے کہہ دیا کہ:
’’میں نے اپنے رب سے اجازت چاہی تھی مگر میرے رب نے اُن کے خلاف بد دعا کرنے کی ممانعت فرما دی ہے۔ پھر اس کی قوم نے اسے ہدیئے اور نذرانے دیئے جنہیں اُس نے قبول کر لیا ۔اس کے بعد قوم نے دوبارہ اس سے بد دعا کرنے کی درخواست کی تو دوسری مرتبہ بلعم نے رب تبارک و تعالیٰ سے اجازت چاہی۔ اب کی بار اس کا کچھ جواب نہ ملا تو اُس نے قوم سے کہہ دیا کہ:
’’ مجھے اس مرتبہ کچھ جواب ہی نہیں ملا۔ وہ لوگ کہنے لگے کہ۔ 
’’اگر اللہ تعالیٰ کو منظور نہ ہوتا تو وہ پہلے کی طرح دوبارہ بھی صاف منع فرما دیتا، پھر قوم نے اور بھی زیادہ اصرار کیا حتّٰی کہ وہ ان کی باتوں میں آ گیا۔ چنانچہ بلعم بن باعوراء اپنی گدھی پر سوار ہو کر ایک پہاڑ کی طرف روانہ ہوا۔ گدھی نے اسے کئی مرتبہ گرایا اور وہ پھر سوار ہو جاتا حتّٰی کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے حکم سے گدھی نے اس سے کلام کیا اور کہا: افسوس! اے بلعم! کہاں جا رہے ہو؟
 کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ فرشتے مجھے جانے سے روک رہے ہیں۔ (شرم کرو) کیا تم اللہ تعالیٰ کے نبی اور فرشتوں کے خلاف بد دعا کرنے جا رہے ہو؟
 بلعم پھر بھی باز نہ آیا اور آخر کار وہ بد دعا کرنے کے لئے اپنی قوم کے ساتھ پہاڑ پر چڑھا۔ اب بلعم جو بد دعا کرتا اللہ تعالیٰ اس کی زبان کو اس کی قوم کی طرف پھیر دیتا تھا اور اپنی قوم کے لئے جو دعائے خیر کرتا تھا تو بجائے قوم کے بنی اسرائیل کا نام اُس کی زبان پر آتا تھا۔ 
یہ دیکھ کر اس کی قوم نے کہا: اے بلعم! تو یہ کیا کر رہا ہے؟ بنی اسرائیل کیلئے دعا اور ہمارے لئے بد دعا کیو ں کر رہا ہے؟ 
بلعم نے کہا:’’ یہ میرے اختیار کی بات نہیں ،میری زبان میرے قبضہ میں نہیں ہے، اللہ تعالیٰ کی قدرت مجھ پر غالب آ گئی ہے۔ اتنا کہنے کے بعد اس کی زبان نکل کر اس کے سینے پر لٹک گئی۔ 
اس نے اپنی قوم سے کہا :میری تو دنیا و آخرت دونوں برباد ہوگئیں ،اب میں تمہیں ان کے خلاف ایک تدبیر بتاتا ہوں: 
’’تم حسین و جمیل عورتوں کو بنا سنوار کر ان کے لشکر میں بھیج دو، اگر ان میں سے ایک شخص نے بھی بدکاری کر لی تو تمہارا کام بن جائے گا کیونکہ جو قوم زنا کرے اللہ تعالیٰ اس پر سخت ناراض ہوتا ہے اور اسے کامیاب نہیں ہونے دیتا۔
چنانچہ بلعم کی قوم نے اسی طرح کیا، جب عورتیں بن سنور کر لشکر میں پہنچیں تو ایک کنعانی عورت بنی اسرائیل کے ایک سردار کے پاس سے گزری تو وہ اپنے حسن و جمال کی وجہ سے اسے پسند آ گئی۔ 
حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے منع کرنے کے باوجود اس سردار نے اس عورت کے ساتھ بدکاری کی، اس کی پاداش میں اسی وقت بنی اسرائیل پر طاعون مُسلَّط کر دیا گیا۔ 
حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا مُشیر اس وقت وہاں موجود نہ تھا جب وہ آیا تو اس نے بدکاری کا قصہ معلوم ہونے کے بعد مرد و عورت دونوں کو قتل کر دیا۔ 
تب طاعون کا عذاب ان سے اٹھا لیا گیا ، لیکن اس دوران ستر ہزار اسرائیلی طاعون سے ہلاک ہو چکے تھے۔ اس آیت میں اس کا بیان ہے۔ 
(بغوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۷۵، ۲ / ۱۷۹-۱۸۰)

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
المرتب⬅ محــمد یـوسـف رضــا رضــوی امجــدی 
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے