حضرت شمس تبريز عليه الرحمه

 حضرت شمس تبريز عليه الرحمه

 کی چند روزہ صحبتوں نے مولانا رومؒ کو قلندر بنا ڈالا تھا۔ان ملاقاتوں سے پہلے مولانا کا یہ حال تھا کہ شاہانِ وقت کے دربار سے بھی تعلق رکھتے تھے، قیمتی لباس پہنتے تھے اور جب گھر سے نکلتے تو اس شان سے کہ سکڑانوں افراد پیچھے پیچھے ہوتے اور آپ نہایت جاہ و جلال کے ساتھ آگے آگے چلتے۔۔۔ اگر کوئی اجنبی یہ نظر دیکھ لیتا تو یہی سمجھتا کہ کوئی حاکم اپنے تمام تر جلال و جبروت کے ساتھ گزر رہا ہے۔۔۔ مگر جس دن سے حضرت شمس تبریزؒ کی غلامی اختیار کی تو آپ کی دنیا ہی بدل گئی۔

ریاضت اور مجاہدہ اس قدر بڑھا ہوا تھا کہ کسی مرید یا خادم نے مولانا رومؒ کو شب خوابی کے لباس میں نہیں دیکھا۔ یہاں تک کہ تکیہ اور بستر بھی نہیں ہوتا۔ اگر نیند غالب آ جاتی تو بیٹھے بیٹھے سو جاتے۔ اکثر روزہ رکھتے ۔تھے آج کوئی شخص مشکل سے اس بات پر یقین کرے گا کہ مولانا رومؒ پانی سے افطار کیا کرتے تھے اور مسلسل دس دس، بیس بیس دن، تک کچھ نہیں کھاتے تھے۔ اذان ہوتی تو فوراً قبلے کی طرف مڑ جاتے اور چہرۂ مبارک کا رنگ بدل جاتا۔

نماز میں اتنا استغراق ہوتا کہ گرد و پیش کی خبر نہ رہتی۔ خادموں نے بار ہا اپنی آنکھوں سے یہ منظر دیکھا کہ عشاء کے بعد نماز کی نیت باندھی تو دو رکعتوں میں صبح ہو گئی۔ ایک بار جاڑوں کا موسم تھا۔ مولانا رومؒ نماز کے دوران رونے لگے اور یہاں تک روئے کہ داڑھی اور سینہ آنسوؤں سے تر ہو گیا۔ خادم سپہ سالار کا بیان ہے کہ سردی کی شدت کے باعثآنسو رخساروں پر جمنے لگے۔ مگر مولانا کی محویت میں کوئی فرق نہیں آیا۔

آپ کا مزاجانتہائی قناعت پسندانہ تھا۔ سلاطین و امراء جس قدر تحائف بھیجتے، مولانا رومؒ اپنے مریدانِ خاص صلاح الدین زوکوبؒ یا حسام الدین چلپیؒ کے پاس یہ ہدایت دے کر بھیج دیتے کہ انہیں فوری طور پر ضرورت مندوں میں تقسیم کر دیا جائے کبھی کبھی ایسا ہوتا کہ گھر میں بہت زیادہ تنگی ہوتی اور مولانا کے صاحب زادے سلطان ولد اصرار کرتے تو حسبِ ضرورت تھوڑی بہت رقم رکھ لیتے۔ جس دن گھر میں کھانے کا سامان نہ ہوتا اس روز مولانا رومؒ بہت خوش ہوتے اور بڑے والہانہ انداز میں فرماتے۔
"آج ہمارے گھر سے درویشی کی بو آتی ہے۔"

مولانا رومؒ کی فیاضی کا یہ عالم تھا کہ جب کوئی مانگنے والا سوال کرتا اور مولانا کے پاس دینے کے لئے کچھ نہ ہوتا تو اپنی عبا یا پیرہن اتار کر دے دیتے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے