از قلم مفتی علی اصغر
یکم جمادی الثانی 1441
27 جنوری 2020 مقام اشاعت
ٹیلی گرام چینل میری پسند
اعجاز علمی پر عرب میں بہت کام ہوا ہے بغداد میں منعقد ہونے والی قرآن کانفرس میں ایک سے زائد ایسے معمر علماء سے ملاقات ہوئی جن کی پہچان اعجاز علمی تھی جنہوں نے پوری زندگی قرآن پاک کے اس عنوان پر کام کرتے ہوئے گزاری۔
اعجاز علمی ہوتا کیا ہے آج دوران مطالعہ ایک کتاب سے تفسیر علمی اور اعجاز علمی کی تعبییر آسان الفاظ سے گزری تو سوچا شئیر کروں
لیکن یہ واضح رہے کہ لفظ تفسیر علمی ایک خاص اصطلاح ہے اور فن تفسیر اور فن تفسیر علمی دو الگ الگ مصطلحات ہیں
قرآن پاک میں تقریبا ایک ہزار سے زائد ایسی آیات ہیں جو کون اور مظاہر عالم سے متعلق ہیں لفظ تفسیر علمی کا موضوع صرف یہی آیات ہیں
تفسیر علمی کی تعریف یہ ہے
ھو الکشف عن معانی آلایۃ فی ضوء ما ترجحت صحتہ من نظریات العلوم الکونییۃ
یعنی اس میں مفسر نظام کائنات سے متعلق ان آیات کی توضیح و تشریح کرتا ہے اور اسلامی افکار بیان کرتا ہے اور سائنس اور قرآنی سوچ کا فرق بیان کرتا ہے
جس کتاب میں میں نے تفسیر علمی کی یہ تعریف پڑھی یہ کافی مغلق تھی لیکن جو وضاحت میں نے اپنے الفاظ میں کی اس کی تائید کے لئے جب مزید چیزیں میں نے دیکھیں تو
مشہور فن تفسیر پر لکھی گئی کتاب کے مصنف شیخ حسین ذھبی نے تفسیر علمی کی جو تعریف کی ہے اس سے یہ تشریح درست ثابت ہوتی ہے وہ لکھتے ہیں
" نريد بالتفسير العلمي التفسير الذي يحكم الاصطلاحات العلمية في عبارات القرآن الكريم ويجتهد في استخراج العلوم والآراء الفلسفية منه
اعجاز علمی کیا ہوتا ہے اعجاز علمی کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن پاک کی وہ اخبار جن کو سب تجربات کی روشنی میں درست مان چکے ہیں غیر مسلم بھی تسلیم کر چکے ہیں کہ یہ چییز واقعی یوں ہے ایسی آیات کو لے کر معاصرانہ افکار کے تقابل کو بیان کر کے قرآن کریم کی حقانیت کو بیان کرنا اعجاز علمی کہلاتا ہے اس میں خاص کر یہ بیان کیا جاتا ہے کہ جب یہ آیات نازل ہوئیں تو اس وقت لوگوں کے پاس ایسی استطاعت اور قوت نہیں تھی کہ وہ اپنے تجربات کی روشنی میں بھی جان سکتے کہ یہ بات واقعی حق ہے مسلم تو صرف ایمان شہادت کی وجہ سے اس چیز کو حق جانتے رہے کہ آج کے تجربات نے منکرین کو بھی ایسی اشیاء کا قائل بنا دیا ہے
بلا شبہ یہ ایک عظیم فن ہے جو قرآن کریم کی حقانیت کو ثابت کرتا ہے
چنانچہ اعجاز علمی کی تعریف یہ کی گئی ہے
فھو اخبار القرآن الکریم بحقیقۃ اثبتھا العلم التجربی اخیرا و ثبت عدم امکان ادراکھا بالوسائل البشریۃ فی زمن الوحی
راقم الحروف کے پاس چند کتب اعجاز قرآن کے متعلق ہیں ان میں سے ایک چھوٹا سا رسالہ یمن کے ایک بزرگ سید محمد بن علوی علیہ الرحمہ کا بھی ہے جن کی کتاب النیات کا ترجمہ المدینۃ العلمیہ نے شائع کیا ہے
انہوں نے سورہ طارق کی آیت نمبر 11 کے تحت ایک نکتہ بیان کیا کہ قرآن پاک نے کہا
وَ السَّمَآءِ ذَاتِ الرَّجْعِۙ(۱۱) یعنی آسمان سے ہی بارش بار بار برستی ہے
وہ لکھتے ہیں کہ یہاں لفظ رجع آیا ہے اور بارش آسمانوں کو مرجع قرار دیا گیا ہے آج کی سائنس بتاتی ہے کہ بخارات آسمان کی طرف ہی بڑھتے ہیں ہماری آوازیں لہروں کی شکل میں آسمان کی طرف ہی بڑھتی ہیں اور نا جانے کون کون سی چیزیں ہیں جن کا رخ آسمان کی طرف ہے آج سیٹلائٹ کے دور میں ہم اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں لیکن قرآن پاک نے تو آسمانوں کو اس وقت مرجع قرار دے دیا تھا جب لوگ علم فلکیات کا کوئی علم نہیں رکھتے تھے
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں