حضرت خضر عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا اصل نام اور ان کی شان

حضرت خضر عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا اصل نام اور ان کی شان
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

 📬 حضرت یوشع بن نون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بات سن کر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا تھا:
 ’’مچھلی کا جانا ہی تو ہمارے مقصد حاصل ہونے کی علامت ہے۔ جن کی طلب میں ہم چلے ہیں ان کی ملاقات وہیں ہوگی۔ چنانچہ پھر وہ دونوں اپنے قدموں کے نشانات کی پیروی کرتے ہوئے واپس لوٹے۔
*( مدارک، الکھف، تحت الآیۃ: ۶۴، ص۶۵۸، ملخصاً)*
 
جب وہ دونوں بزرگ واپس اسی جگہ پہنچے تو وہاں انہوں نے اللّٰہ تعالیٰ کے بندوں میں سے ایک بندہ پایا جو چادر اوڑھے آرام فرما رہا تھا۔ 
یہ حضرت خضر عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تھے۔ 
لفظ خضر لغت میں تین طرح سے آیا ہے۔ 
(1) ’’خا ‘‘کے نیچے زیر اور ضاد کے اوپر جزم کے ساتھ یعنی خِضْر۔ 
(2) ’’خا ‘‘ کے اوپر زبر اور ضاد کے اوپر جزم کے ساتھ یعنی خَضْر۔ 
(3) ’’خا‘‘ کے اوپر زبر اور ضاد کے نیچے زیر کے ساتھ یعنی خَضِر۔ 
یہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا لقب ہے اور اس لقب کی وجہ یہ ہے کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جہاں بیٹھتے یا نماز پڑھتے ہیں وہاں اگر گھاس خشک ہو تو سرسبز ہوجاتی ہے۔ 

آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا نام بلیا بن ملکان اور کنیت ابوالعباس ہے ۔ 

ایک قول یہ ہے کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بنی اسرائیل میں سے ہیں ۔ 
ایک قول یہ ہے کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام شہزادے تھے اور آپ نے دنیا ترک کرکے زہد اختیار فرما لیا تھا۔ 
*( روح البیان، الکھف، تحت الآیۃ: ۶۵، ۵ / ۲۶۷، خازن، الکھف، تحت الآیۃ: ۶۵، ۳ / ۲۱۸، ملتقطاً)* 

اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت خضر عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی شان میں مزید دو باتیں ارشاد فرمائیں۔
ایک یہ کہ اسے ہم نے اپنے پاس سے خاص رحمت دی تھی۔ اس رحمت سے نبوت مراد ہے یا ولایت یا علم یا لمبی زندگی۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ولی تو بالیقین ہیں جبکہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نبوت میں اختلاف ہے۔
اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:  
’’سیدنا خضرعَلَیْہِ السَّلَام جمہور کے نزدیک نبی ہیں اور ان کو خاص طور سے علمِ غیب عطا ہوا ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا ’’وَ عَلَّمْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا‘‘۔
*(فتاویٰ رضویہ، ۲۶ / ۴۰۱)*

 ایک اور مقام پر فرماتے ہیں ’’معتمد ومختار یہ ہے کہ وہ (یعنی حضرت خضرعَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام) نبی ہیں اور دنیا میں زندہ ہیں۔
*( فتاویٰ رضویہ، ۲۸ / ۶۱۰)*

 دوسری یہ کہ اسے اپنا علم لدُنی عطا فرمایا۔ علم لدنی سے مراد غیب کا علم ہے۔
*( بیضاوی، الکھف، تحت الآیۃ: ۶۵، ۳ / ۵۱۰، جلالین، الکھف، تحت الآیۃ: ۶۵، ص۲۴۹، مدارک، الکھف، تحت الآیۃ: ۶۵، ص۶۵۸)* 

بعض مفسرین نے فرمایا علمِ لدنی وہ ہے جو بندے کو اِلہام کے ذریعے حاصل ہو۔ 
*( مدارک، الکھف، تحت الآیۃ: ۶۵، ص۶۵۸)* 

 *حضرت خضر عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے نام کی برکت:* 
بزرگانِ دین فرماتے ہیں:  
’’جو حضرت خضر عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا نام ان کی ولدیت اور کنیت کے ساتھ (یعنی ابوالعباس بَلیا بن ملکان ) یاد رکھے گا اِنْ شَآءَ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اس کا خاتمہ ایمان پر ہوگا۔
( صاوی، الکھف، تحت الآیۃ: ۶۵، ۴ / ۱۲۰۷)

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
المرتب⬅ قاضـی شعیب رضـا تحسینی امجــدی 📱917798520672+
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے