حروف تہجی کا تلفظ :
" الف، با، تا، ثا" یا " الف، بِ ، تِ، ثِ؟ "
اج، صبح صبح، اختلاف قراءت، نیز حروف تہجی کے طرزِ تلفظ، اور اس كي ادايگی پر گفتگو جاری تھی، حضرت مولانا اختر حسین فیضی ، مولانا محمد قاسم مصباحی، اور مولانا محمد ہارون مصباحی صاحبان ( اساتذہء اشرفیہ) کا خیال تھا کہ عربی میں، تہجی حروف کو " الف، با، تا، ثا وغیرہ پڑھا جانا چاہیے۔ جیسا کہ اب ایسا پڑھا جا رہا ہے۔ ہاں اردو میں " الف، بِ ( بے ) تِ ( تِے) ثِ ( ثِے) ہونا چاہیے، تاکہ فرق رہے۔ حقیر بھی یہی سمجھتا تھا۔
استاذِ گرامی علامہ محمد احمد مصباحی، مد ظلہ العالی، ہماری باتیں سن کر، مسکرانے لگے۔ فرمایا: دونوں طرح پڑھنا درست ہے۔ خواہ اردو کے تہجی حروف ہوں، یا عربی کے۔
مزید وضاحت فرمائی کہ تفخیم کی صورت میں " با، تا" اور امالہ کی صورت میں " بِ، تِ " ( بے، تے) پڑھا جائےگا۔ اور یہ دونوں ( امالہ وتفخیم) قراءات متواترہ سے ہیں۔ ان میں سے کسی ایک کو دوسرے پر فضیلت، نہیں ۔ مثلا: "کھٰیٰعص" ( بصورت تفخیم) اور " کھِیِعص" ( بصورت امالہ) دونوں پڑھنا، متواتر ہے۔
اب مجھے سمجھ ایا کہ ہم نے، جو بچپن میں الف، بِ ، تِ ، ثِ پڑھا تھا، وہ غلط نہ تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔
در اصل فن تجوید سے بلکل ناواقف ہوں۔ بس ادایگی نماز کی حد تک ،کچھ معمولی جانکاری ہے۔ اس لیے حضرت کا یہ افادہ مجھے بے حد پسند ایا۔۔۔
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں