از : ترجمانِ اسلام اعلی حضرت امام احمد رضا قادری قدس سرہ
(فتاوی رضویہ سے دو فتوے)
ترتیب و پیش کش : نثار مصباحی
پہلا فتوی:
مسئلہ ۱۰ : از محلہ بارہ ریواڑی, ضلع گوڑگانوہ ہزاری, مرسلہ: مرزا یوسف صاحب. ۳۰ ذیقعدہ ۱۳۳۵ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں جس کے متعلق حدیث شریف ذیل میں درج ہے:
"عن جابر بن سمرۃ قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم یقول لایزال الاسلام عزیزا الی اثناعشر خلیفۃ کلھم من قریش.
جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ تعالی علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ بارہ خلیفوں کے گزرنے تک اسلام غالب رہے گا اور وہ قریش سے ہوں گے۔
(صحیح مسلم کتاب الامارۃ باب الناس تبع لقریش قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۱۱۹)
وفی روایۃ: لایزال امر الناس ماضیا ما ولھم اثنا عشر رجلا کلہم من قریش ۳ ؎. فی روایۃ: لایزال الدین قائما حتی تقوم الساعۃ او یکون علیکم اثنا عشر خلیفۃ کلھم من قریش ٤؎
( ۳ ؎ صحیح مسلم کتاب الامارۃ باب الناس تبع لقریش قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۱۱۹)
(٤؎ صحیح مسلم کتاب الامارۃ باب الناس تبع لقریش قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۱۱۹)
اشارۃً یہ عبارت کتاب سے نقل کردی ہے مجھ کو عربی لکھنے پڑھنے کی مہارت نہیں ہے۔ لہذا یہ کام اہل علم کا ہے کہ وہ ذرا سے اشارہ سے سمجھ لیں.
دریافت طلب امر یہ ہے کہ بموجب اس حدیث شریف کے وہ کون سے بارہ خلیفہ قریش میں سے آں سرور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے بعد جانشین یا ولیعہد یا نائب منجانب خدا اور رسول امتِ محمدیہ میں قابلِ شمار ہیں؟
چونکہ خلیفۂ اول حضرت ابوبکر صِدیق رضی اللہ عنہ سے لیں تو پوری تعداد ہوگی۔ اور اگر حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے لیں تو اصحابِ ثلثہ رہ جاتے ہیں. غرض کون سی وہ صورت حق ہے جو اس حدیث شریف کا مصداق ہے؟
یا یہ حدیث ہی ماننے کے قابل نہیں ہے؟
اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر عنایت کرے۔ جواب سے ممنون فرمائیے۔
الجواب : حدیث ہے، اور صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ سے ہی شمار لینا لازم کہ اسی حدیث کی ایک روایت میں ہے:
*"یکون بعدی اثنا عشر خلیفۃ ابوبکر الصدیق لایلبث الا قلیلا"*
میرے بعد بارہ خلیفہ ہوں گے ابوبکر تھوڑے ہی دن رہیں گے۔
(المعجم الکبیر حدیث ۱۴۲ المکتبۃ الفیصیلۃ بیروت ۱ /۹۰)
*اس سے مراد وہ خلفاء ہیں کہ والیانِ امت ہوں اور عدل و شریعت کےمطابق حکم کریں، ان کا متصل مسلسل ہونا ضرور نہیں. نہ حدیث میں کوئی لفظ اس پر دال ہے.*
ان میں سے خلفائے اربعہ وامام حسن مجتبے و امیر معاویہ و حضرت عبداللہ بن زبیر و حضرت عمر بن عبدالعزیز معلوم ہیں اور آخر زمانہ میں حضرت سیدنا امام مہدی ہوں گے. رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین.
یہ نو ہوئے. باقی تین کی تعیین پر کوئی یقین نہیں.
واللہ تعالی اعلم.
(فتاوی رضویہ جلد 27, سافٹ ویئر سے کاپی)
دوسرا فتوی:
مسئلہ ۶۷ تا ۷۱ : از شہر, محلہ کنبوہ, کوٹھی حامد حسین خاں صاحب رئیس, مسئولہ: شمشاد علی خان صاحب ۲۶ رجب ۱۳۳۶ھ
(۱) صحیح مسلم و دیگر صحاح میں بہ الفاظِ مختلفہ و اتحادِ مطلب یہ حدیث وارد ہے کہ آں حضرت صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا کہ امر اسلام ہمیشہ غالب رہے گا اور اس میں بارہ خلیفہ ہوں گے۔ دریافت طلب یہ ہے کہ ان بارہ کے اسماء مبارک کیا ہیں؟
(۲) وہ خلفائے دوازدہ گانہ کل کے کل اخیار ہوں گے یا کہ بعض اچھے اور بعض برے، اور اگر کہا جائے کہ سب ان میں اچھے نہ تھے بلکہ کچھ ایسے بھی تھے جو کہ خیر الناس نہیں کہے جاسکتے، یہ تفصیل حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمائی ہے یا دیگرے علماء نے؟
(۳) وہ بارہ (۱۲) خلفاء زیب دہِ مسندِ خلافت ہوچکے یا یہ کہ ابھی کچھ باقی ہیں؟
(۴) چونکہ احادیث متعلقہ خلفاء اثنی عشر میں یہ مسئلہ وارد ہوا ہے کہ اسلام ختم نہ ہوگا تا وقتے کہ بارہ خلفاء پورے نہ ہو لیں. اگر خلفاء دنیا میں رونق افزائے عالم ہو کر اپنی تعداد پوری کرچکے ہیں تو اب حسبِ مفادِ حدیث اسلام و اسلامیان دنیا میں باقی ہیں یا کیا؟
(۵) شرح فقہ اکبر ملا علی قاری کے صفحہ ۸۲ یا کسی دوسرے صفحہ پر بارہ خلفاء کے جو نام ظاہر کیے گئے ہیں وہ صحیح ہیں یا غلط؟
الجواب : اصل یہ ہے کہ امورِ غیب میں اللہ و رسول جل و علا و صلی اللہ تعالی علیہ وسلم جتنی بات بیان فرمائیں اتنی یقینا حق ہے اور جس قدر ذکر نہ فرمائیں اس کی طرف یقین کی راہ نہیں کہ غیب بے خدا و رسول کے بتائے معلوم نہیں ہوسکتا لہذا اس حدیث کے معنی میں زمانۂ تابعین سے اشتباہ رہا۔
مہلب نے فرمایا: لم الق احدا یقطع فی ھذا الحدیث بمعنی.
میں نے کوئی ایسا نہ پایا کہ اس حدیث کی کوئی مراد قطعی بتاتا۔
(فتح الباری بحوالہ المھلب کتاب الاحکام تحت الحدیث ۷۲۲۲ و ۷۲۲۳ دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱۴/ ۱۸۱)
امام قاضی عیاض مالکی نے شرح صحیح مسلم میں بہت احتمالات بتا کر فرمایا : وقد یحتمل وجوھا اخر. وﷲ اعلم بمراد نبیہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم.
یعنی اس کے سوا حدیث میں اور احتمال بھی نکل سکتے ہیں اور ﷲ اپنے نبی کی مراد خوب جانے، جل و علا وصلی اﷲ تعالی علیہ وسلم۔
(شرح صحیح مسلم کتاب الامارۃ باب الناس تبع لقریش قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۱۱۹)
امام ابن جوزی کشف المشکل میں لکھتے ہیں: قد اطلت البحث عن معنی ھذا الحدیث وطلبتہ فی مظانہ وسألت عنہ فمارأیت احدا وقع علی المقصود بہ.
میں نے مدتوں اس حدیث کے معنی کی تفتیش کی اور جہاں جہاں گمان تھا وہ کتابیں دیکھیں اپنے زمانے کے ائمہ سے سوال کیے مگر مراد متعین نہ ہوئی۔
(کشف المشکل کتاب الاحکام باب الاستخلاف تحت الحدیث ۷۲۲۳ دارالکتب العلمیۃ بیروت ۸/ ۲۹۵)
اور ہو کیوں کر؟ کہ جس غیب کی ﷲ و رسول تفصیل نہ فرمائیں اس کی تفصیل قطعا کیوں کر معلوم ہو؟ ہاں, لوگ لگتے لگاتے ہیں جن میں سے کسی پر یقین نہیں. البتہ یہ معیار صحیح ہے کہ حدیث میں جو جو نشان ان بارہ خلفاء کے ارشاد ہوئے جس معنی میں نہ پائے جائیں باطل ہیں اور جس میں پائے جائیں وہ احتمالی طور پر مسلم ہوگا نہ کہ یقینی.
احادیثِ باب میں ان کے نشان یہ ہیں:
*(۱)* *کلھم من قریش*. سب قریشی ہوں گے
رواہ الشیخان.
(صحیح مسلم کتاب الامارۃ باب الناس تبع لقریش قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۱۱۹)
*(۲)* وہ سب بادشاہ و والیانِ ملک ہوں گے. صحیح مسلم میں ہے: *لایزال امرالناس ماضیا ما ولھم اثنا عشر رجلا کلھم من قریش.*
*[*(خلافت اس وقت تک جاری رہے گی جب تک بارہ مرد (خلفاء) حکمران رہیں گے جو سب قریش میں سے ہوں گے۔(ت) *]*
(صحیح مسلم کتاب الامارۃ باب الناس تبع لقریش قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۱۱۹)
مسند احمد وبزار و صحیح مستدرک میں عبدﷲ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے بسند حسن ہے: *انہ سئل کم تملک ھذہ الامۃ من خلیفۃ؟ فقال: سألنا عنہا رسول ﷲ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فقال: اثنا عشرۃ کعدۃ نقباء بنی اسرائیل.*
*[* عبدﷲ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے سوال کیا گیا کہ کتنے خلفاء اس امت کے حکمران بنیں گے؟ تو انہوں نے کہا کہ ہم نے رسول اﷲ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے پوچھا تھا۔ آپ نے ارشاد فرمایا وہ بنی اسرائیل کے نقیبوں کی تعداد کے مطابق بارہ ہوں گے۔(ت) *]*
(مسند احمد بن حنبل عن عبداللہ بن مسعود المکتب الاسلامی بیروت ۱/ ۳۹۸ ) (مجمع الزوائد بحوالہ بزار وغیرہ باب الخلفاء الاثنا عشر دارالکتاب بیروت ۵/ ۱۹۰)
*(۳)* ان کے زمانے میں اسلام قوی ہوگا. صحیح مسلم میں ہے: *لایزال الاسلام عزیزا الی اثنی عشر خلیفۃ کلھم من قریش.*
*[* بارہ خلفاء کی حکومت پوری ہونے تک اسلام غالب رہے گا، وہ سب قریشی ہوں گے۔(ت) *]*
(صحیح مسلم کتاب الامارۃ باب الناس تبع لقریش قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۱۱۹)
*(٤)* ان کا زمانہ زمانۂ صلاح ہوگا. بزار و طبرانی ابوجحیفہ رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی: *لایزال امر امتی صالحا*
*[*(بارہ خلفاء کی خلافت تک) میری امت کا معاملہ درست رہے گا۔(ت) *]*
(کنزالعمال برمز طب وابن عساکر عون الخ حدیث ۳۳۸۴۹ موسسۃ الرسالۃ بیروت ۱۲/ ۳۲)
*(۵)* ان پر اجتماعِ امت ہوگا یعنی اہل حل وعقد انہیں والیِ ملک و خلیفۂ صدق مانیں گے.
سنن ابی داؤد میں ہے: *لایزال ھذا الدین قائما حتی یکون علیکم اثنا عشر خلیفۃ کلھم تجتمع علیہ الامۃ*
*[* یہ دین اس وقت تک قائم رہے گا جب تک تم پر بارہ خلفاء حاکم ہوں ، جن پر تمام امت متفق ہوگی۔(ت) *]*
(سنن ابی داود, کتاب المھدی, آفتاب عالم پریس لاہور ۲/ ۲۳۲ )
*(٦ و ۷)* وہ سب ہدایت و دین حق پر عمل کریں گے. ان میں سے دو اہل بیتِ رسالت سے ہوں گے. استاذ امام بخاری و مسلم، مسدد کی مسند کبیر میں ابوالجلد سے ہے: *انہ لاتھلک ھذہ الامۃ حتی یکون منہا اثنا عشر خلیفۃ کلھم یعمل بالھدی و دین الحق، منھم رجلان من اھل بیت محمد صلی اللہ تعالی علیہ وسلم*
*[* بے شک یہ امت اس وقت تک ہلاک نہ ہوگی جب تک ان میں بارہ خلفاء حکمران ہوں گے، وہ سب ہدایت و دین حق پر عمل کریں گے ان میں سے دو رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے اہل بیت میں سے ہوں گے۔(ت) *]*
(فتح الباری بحوالہ مسدد فی مسندہ الکبیر تحت الحدیث ۷۲۲۲ و ۷۲۲۳ دارالکتب العلمیہ بیروت ۴/ ۱۸۳)
لگتے لگانے والوں میں جس نے سب طرقِ حدیث نہ دیکھے, ایک آدھ طریق کو دیکھ کر کوئی احتمال نکال دیا, جیسے ابوالحسین بن مناوی نے یہ معنی لیے کہ ایک وقت میں بارہ خلیفہ ہوں گے یعنی اس قدر اختلاف؟!؟؟ یہ فقط اس لفظِ مجمل بخاری پر بن سکتا تھا. اور الفاظ دیکھئے تو کہاں اس درجہ افتراق اور کہاں اجتماع. !! اور ایسی حالت میں اسلام کے قوی و غالب و قائم اور امرِ امت کے صالح ہونے کے کیا معنی؟
اسی قبیل سے علی قاری کا یہ زعم باتباع ابن حجر شافعی ہے کہ صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ سے آخر ولاۃ بنی امیہ تک ۱۲ ہوئے اور ان میں یزید پلید -علیہ ماعلیہ- کو بھی گِنا دیا حالانکہ اس خبیث کے زمانہ کو قوتِ دین و صلاح سے کیا تعلق؟؟
یہ احادیث دیکھ کر اس قول کی گنجائش نہ ہوتی. مگر صرف ۱۲ سلطنتیں نگاہ میں تھا اور حق یہ کہ اس خبیث پر اجتماعِ اہلِ حل و عقد کب ہوا؟ ریحانۂ رسول ﷲ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ اس کے دست ناپاک پر بیعت نہ کرنے ہی کے باعث شہید ہوئے. اہلِ مدینہ نے اس پر خروج کیا.
عبدﷲ بن حنظلہ غسیل الملائکہ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا:
*وﷲ ماخرجنا علی یزید حتی خفنا ان نرمی بالحجارۃ من السماء. ان رجلا ینکح امھات الاولاد والبنات والاخوات ویشرب الخمر ویدع الصلوۃ.*
*[* خدا کی قسم ہم نے یزید پر خروج نہ کیا جب تک یہ خوف نہ ہوا کہ آسمان سے پتھر آئیں، ایسا شخص کہ بہن بیٹی کی آبروریزی کرے اور شراب پیے اور تارک الصلوۃ ہو. (ت) *]*
(الصواعق المحرقۃ الخاتمہ فی بیان اعتقاد اہل السنۃ مکتبہ مجیدیہ ملتان ص ۲۲۱)
غرض جمیع طرقِ حدیث سے یہ قول باطل ہے.
*حدیث میں کہیں نہیں کہ وہ سب بلافصل یکے بعد دیگرے ہوں گے.*
ان میں سے آٹھ گزرگئے. صدیق اکبر ، فاروق اعظم ، عثمان غنی، علی مرتضی، حسن مجتبی، امیر معاویہ ، عبدﷲ بن زبیر، عمر بن عبدالعزیز. اور ایک یقینا آنے والے ہیں: حضرت امام مہدی (رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین.) باقی تین کی تعیین ﷲ و رسول کے علم میں ہے.
عجب عجب ہزار عجب کہ ان میں عبدﷲ بن زبیر رضی اللہ تعالی عنہما کہ صحابی ابن صحابی ہیں، امامِ عادل ہیں، رسول ﷲ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے بھتیجے ہیں، صدیقِ اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کے نواسہ ہیں، احد العشرۃ المبشرہ کے صاحبزادے ہیں, شمار نہ کیے جائیں ؟؟!! اور وہ خبیث ناپاک معدود ہو [شمار ہو] جسے امیر المومنین کہنے پر امیر المومنین عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک شخص کو بیس تازیانے لگائے ؟؟!!!
نسأل ﷲ العفو و العافیۃ.
عبدﷲ بن زبیر بھی درکنار، خود امام مجتبی کو نہ گنا کہ ان کی خلافت کا زمانہ قلیل تھا اور ولید کو گنا جس نے قرآن عظیم کو دیوار میں لٹکا کر تیروں سے چھیدا. !!!
ایسے بے سروپا بے معنی اقوال کی سند نہیں ہوتی. بلکہ وہ ایک متاخر عالم کی خطائے رائے ہے. عصمت انبیاء و ملائکہ علیہم الصلوۃ والسلام کے سوا کسی کے لیے نہیں.
نسأل ﷲ العفو و العافیۃ.
وﷲ تعالی اعلم.
(فتاوی رضویہ جلد 29)
نوٹ : فتاوی رضویہ سافٹ ویئر سے یہ دونوں فتوے کاپی کیے گئے ہیں. کتابتی اغلاط کی تصحیح کر دی گئی ہے. پھر بھی اگر کوئی غلطی نظر آئے تو اصلاح فرما دیں.
#نثارمصباحی
3 ربیع النور 1441ھ
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں