معراج، شب معراج اور اہتمام عبادت قرآن وسنت کی روشنی میں

🌙🌙🌙🌙🌙🌙🌙🌙🌙🌙🌙
       معراج، شب معراج اور اہتمام عبادت
             قرآن وسنت کی روشنی میں
🌙🌙🌙🌙🌙🌙🌙🌙🌙🌙🌙
از: عبدالقدوس مصباحی۔
دارالعلوم فیض رضا، شاہین نگر، حیدرآباد، تلنگانہ۔

آقاے کریم -صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم- کا شب معراج مختصر سے وقت میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک تشریف لے جانا نص قرآنی اور وہاں سے لا مکاں تک جانا متعدد احادیث صحیحہ متواترہ مشہورہ سے ثابت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
((سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرىٰ بِعَبْدِهٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِیَهٗ مِنْ اٰیٰتِنَا اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ)) [سورة بني إسرائيل:١٧، الآية:١]

((پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے خاص بندے کو رات کے کچھ حصے میں مسجد حرام -خانۂ کعبہ- سے مسجد اقصیٰ -بیت المقدس- تک سیر کرائی، جس کے ارد گرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں، تاکہ ہم اسے اپنی عظیم نشانیاں دکھائیں، بےشک وہی سننے والا، دیکھنے والاہے)) [کنز العرفان]

*شان نزول:*
امام ابو حیان اندلسی لکھتے ہیں کہ:
"جب نبی پاک -صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم- نے مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک جانا بیان کیا اور کفار نے اس کی تکذیب کی تو اللہ رب العزت نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی۔"

حضرت علامہ نعیم الدین مراد آبادی -رضی اللہ تعالیٰ عنہ- اس آیت کے تحت "تفسیر خزائن العرفان" میں ارشاد فرماتے ہیں:
"معراج شریف نبی کریم -صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم- کا ایک جلیل معجزہ اور اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے۔ اور اس سے حضور -صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم- کا وہ کمال قرب ظاہر ہوتا ہے جو مخلوق الہی میں آپ کے سوا کسی کو میسر نہیں۔ *نبوت کے بارہویں سال سید عالم -صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم- معراج سے نوازے گئے۔ مہینہ میں اختلاف ہے؛ مگر اشہر یہ ہے کہ ستائیسویں رجب کو معراج ہوئی۔* مکہ مکرمہ سے حضور پرنور -صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم- کا بیت المقدس تک شب کے چھوٹے سے حصہ میں تشریف لے جانا نص قرآنی سے ثابت ہے، اس کا منکر کافر ہے۔ اور آسمانوں کی سیر اور منازل قرب میں پہنچنا احادیث صحیحہ معتمدہ مشہورہ سے ثابت ہے جو حد تواتر کے قریب پہنچ گئی ہیں، اس کا منکر گم راہ ہے۔ *معراج شریف بہ حالت بیداری جسم و روح دونوں کے ساتھ واقع ہوئی،* یہی جمہور اہل اسلام کا عقیدہ ہے، اور اصحاب رسول -صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم- کی کثیر جماعتیں اور حضور -صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم- کے جلیل القدر صحابہ کرام -رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین- اسی کے معتقد ہیں۔ نصوص آیات اور احادیث سے بھی یہی مستفاد ہوتا ہے۔ بیوقوف فلسفیوں کے فاسد خیالات و گمان، محض باطل ہیں۔ قدرت الہی کے پختہ یقین رکھنے والوں کے سامنے وہ تمام شبہات محض بے حقیقت ہیں۔"
[سورة بني إسرائيل: ۱۷، تحت الآیة المذکورة]

*معراج شریف کے متعلق احادیث شریفہ:*
معراج رسول -صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم- کے متعلق بخاری، مسلم، دلائل النبوۃ، مسند احمد اور مسند بزار میں متعدد احادیث شریفہ موجود ہیں۔ طوالت کے خوف سے یہاں ان کا ذکر ترک کیا جا رہا ہے۔ ان تمام احادیث کریمہ کو خاتم الحفاظ امام جلال الدین سیوطی -رضی اللہ تعالیٰ عنہ- نے اپنی کتاب "الآیة الکبریٰ في شرح قصة الإسراء" میں تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ اہل شوق کو مذکورہ کتاب کی جانب رجوع کرنا چاہیے۔

*معراج پاک اقوال امت کی روشنی میں:*
[١] امام ابو جعفر طحاوی -رضی اللہ تعالیٰ عنہ- معراج کے متعلق رقم طراز ہیں:
"معراج حق ہے، حضور -صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم- کو بیداری کے عالم میں جسم اقدس کے ساتھ آسمان تک، پھر وہاں سے جس قدر بلندی تک اللہ نے چاہا؛ معراج کا شرف بخشا۔" [العقيدة الطحاوية]
[٢] امام نجم الدین عمر نسفی -رضی اللہ تعالیٰ عنہ- فرماتے ہیں:
"نبی کریم -صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم- کو حالت بیداری میں اور جسم اقدس کے ساتھ آسمان، پھر وہاں سے جس قدر بلندی تک اللہ نے چاہا؛ معراج عطا فرمائی۔" [عقائد نسفی]
[۳] حضرت ملا علی قاری -رضی اللہ تعالیٰ عنہ- امام اعظم -رضی اللہ تعالیٰ عنہ- کے الفاظ "خبر المعراج حق" کی شرح میں لکھتے ہیں:
"آپ -صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم- کو بیداری کے عالم میں آسمان پر مشیئت الہی کے مطابق بلند مقامات تک معراج حاصل ہوئی۔" [منح الروض الازھر]
[٤] علامہ سعد الدین تفتازانی -رضی اللہ تعالیٰ عنہ- "ثم ما شاء الله" کے الفاظ کی حکمت یوں لکھتے ہیں:
"یہ اسلاف کے اقوال کی طرف اشارہ ہے، بعض کے یہاں جنت، بعض کے یہاں عرش، بعض کے یہاں فوق العرش اور بعض کے یہاں طرف عالَم تک معراج ہوئی۔" [شرح عقائد نسفی]

*تاریخ معراج:*
مذکورہ بالا تمام دلائل سے یہ تو واضح ہو گیا کہ آقاے کریم -صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم- کو معراج کا شرف حاصل ہوا۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ شرف حاصل کب ہوا؟ تو اس سلسلے میں علماے کرام کی آرا مختلف ہیں جیسا کہ علامہ غلام رسول سعیدی -رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ- اپنی مایہ ناز تفسیر "تبیان القرآن" میں لکھتے ہیں کہ حضرت ملا علی قاری -رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ- فرماتے ہیں کہ سید جمال الدین محدث نے "روضۃ الاحباب" میں لکھا ہے کہ:
*"واقعۂ معراج، ماہ رجب کی ستائیس تاریخ کو ہوا جیسا کہ حرمین شریفین میں اسی پر عمل ہوتا ہے۔"*
ایک قول یہ ہے کہ معراج ربیع الآخر میں ہوئی۔ ایک قول یہ ہے کہ رمضان میں ہوئی۔ ایک قول یہ ہے کہ شوال میں ہوئی۔ اس کے علاوہ اور بھی متعدد اقوال ہیں۔ [تبیان القرآن]

حضرت علامہ نعیم الدین مرادآبادی -رضی اللہ تعالیٰ عنہ- "تفسیر خزائن العرفان" میں لکھتے ہیں کہ:
*"مہینہ میں اختلاف ہے مگر اشہر یہ ہے کہ ستائیسویں رجب کو معراج ہوئی۔"*

*شب معراج کی عبادت:*
شب بیداری کے استحباب اور اس کے فوائد و برکات پر علماے اسلام کا کوئی اختلاف نہیں، حقیقت تو یہ ہے کہ اس کا حکم قرآن کریم اور احادیث کریمہ سے ثابت ہے۔ صحابہ کرام، تابعین عظام اور پاکان امت کی مبارک زندگی شب بیداری میں گزری۔ احادیث کریمہ میں جہاں شب قدر اور شب براءت کے فضائل وارد ہیں؛ وہیں شب معراج کے فضائل بھی بیان ہوئے ہیں۔ ذیل میں چند احادیث کریمہ درج کیے جا رہے ہیں، ملاحظہ ہوں:
[۱] حضرت انس بن مالک -رضی اللہ تعالیٰ عنہ- روایت کرتے ہیں کہ رسول پاک -صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم- نے فرمایا:
"ماہ رجب میں ایک ایسی رات ہے جس میں عمل کرنے والے کے حق میں سو سال کی نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور وہ *رجب کی ستائیسویں رات ہے،* تو جو شخص اس رات بارہ رکعت اس طرح پڑھے کہ ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ اور قرآن کریم کی کوئی سورت پڑھے، ہر رکعت کے بعد قعدہ کرے، اخیر میں سلام پھیرے، پھر نماز سے فارغ ہونے کے بعد سو مرتبہ "سبحانَ اللهِ والحمد للهِ ولا إلهَ إلا اللهُ واللهُ أكبر" پڑھے، سو مرتبہ استغفار کرے، سو مرتبہ آقاے کریم -صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم- کی بارگاہ میں درود پاک پڑھے اور اپنے حق میں دنیا و آخرت کی بھلائی سے متعلق جو چاہے دعا کرے تو یقیناً اللہ تعالیٰ اس کی تمام دعائیں قبول فرمائے گا، البتہ کسی نافرمانی والے کام میں دعا کرے تو یہ دعا مقبول نہیں ہوگی۔" [شعب الایمان، جامع الکبیر]
[۲] حضرت سلمان فارسی -رضی اللہ تعالیٰ عنہ- سے روایت ہے کہ آقاے کریم -صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم- نے فرمایا:
"ماہ رجب میں ایک ایسا دن اور ایک ایسی رات ہے، جس نے اس دن روزہ رکھا اور اس رات قیام کیا تو گویا اس نے سو سال روزہ رکھا اور سو سال شب بیداری کی، اور *وہ رجب کی ستائیسویں شب ہے۔"* [شعب الایمان، جامع کبیر، در منثور، کنز العمال]
[۳] حضرت انس -رضی اللہ تعالیٰ عنہ- سے روایت ہے کہ حضور -صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم- نے ارشاد فرمایا:
"جنت میں ایک نہر ہے جسے رجب کہا جاتا ہے۔ وہ دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ شیریں ہے۔ جو رجب میں ایک دن روزہ رکھے گا؛ اللہ رب العزت اسے اس نہر سے سیراب فرمائے گا۔" [شعب الایمان]
[٤] ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ -رضی اللہ تعالیٰ عنہا- فرماتی ہیں کہ:
"رجب وہ باعظمت مہینہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نیکیوں کا ثواب کئی گنا زیادہ دیتا ہے۔ جس نے اس ماہ میں ایک دن کا روزہ رکھا تو گویا اس  نے سال بھر کے روزے رکھے۔ اور جس نے اس ماہ میں سات دن کے روزے رکھے تو اس پر دوزخ کے سات دروازے بند ہو جاتے ہیں۔ اور جس نے اس ماہ میں آٹھ دن روزے رکھے؛ اس کے لیے جنت کے آٹھ دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ اور اس ماہ میں دس دن کے روزے رکھنے والا، اللہ سے جو مانگے گا؛ وہ اسے عطا کرے گا۔ اور جو اس ماہ پندرہ روزے رکھے تو آسمانی منادی آواز دیتا ہے: اے روزے دار! تیرے تمام پچھلے گناہ معاف کر دیے گئے۔ اب نیک عمل شروع کر دو۔ جو زیادہ اچھے عمل کرے گا؛ اسے زیادہ ثواب دیا جائے گا۔" [ما ثبت  بالسنۃ بحوالہ شعب الایمان]
[۵] حضرت ابو ہریرہ -رضی اللہ تعالیٰ عنہ- روایت کرتے ہیں کہ حضور -صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم- نے ارشاد فرمایا:
*"ماہ رجب کے ستائیسویں دن* جو شخص روزہ رکھے؛ اس کے لیے ساٹھ مہینے روزہ رکھنے کا ثواب لکھ دیا جاتا ہے۔" [الغنیة لطالبي طریق الحق]
[٦] حضرت حسن بصری -رضی اللہ تعالیٰ عنہ- فرماتے ہیں کہ:
*"حضرت عبداللہ بن عباس -رضی اللہ تعالیٰ عنہ-* ماہ رجب کے ستائیسویں دن معتکف ہو جاتے اور ظہر تک نماز پڑھتے رہتے، جب نماز ظہر ادا فرماتے تو تھوڑا سا ہٹ کر چار رکعت نماز پڑھتے، ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ اور سورۂ فلق و ناس ایک ایک بار پڑھتے اور سورۂ قدر تین بار اور سورۂ اخلاص پچاس بار پڑھتے، پھر نماز عصر تک دعا کرتے رہتے اور فرماتے:
*"آج کے دن حضور -صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم- کا عمل ایسا ہی ہوتا۔"* [ایضا]

مذکورہ بالا تمام احادیث شریفہ سے یہ واضح ہوگیا کہ معراج کی رات، عظمت و رفعت اور عبادت و ریاضت والی رات ہے۔ اس رات قیام کرنے والوں کے متعلق احادیث کریمہ میں بےشمار بشارتیں موجود ہیں۔ ان عظیم بشارتوں کےہوتے ہوئے کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ صحابۂ کرام اس مقدس و متبرک رات کو یوں ہی گزار دیے ہوں؛ حالاں کہ وہ کامل طور پر اس آیت کریمہ کے مصداق ہیں:
((تَتَجَافٰى جُنُوْبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَّ طَمَعًا وَّمِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَ)) [سورة السجدۃ: ۳۲، الآية: ١٦]
((ان کی کروٹیں ان کی خواب گاہوں سے جدا رہتی ہیں، اور وہ ڈرتے اور امید کرتے اپنے رب کو پکارتے ہیں اور ہمارے دیے ہوئے میں سے خیرات کرتے ہیں)) [كنز العرفان]
اس لیے محض قیاس کا سہارا لے کر یہ کہنا کہ اس شب میں عبادت کرنا صحیح نہیں؛ کیوں کہ یہ بدعت ہے۔ آقاے کریم -صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم- اور صحابہ کرام نے اس کا اہتمام نہیں کیا، کسی صورت صحیح نہیں؛ اس لیے کہ حضور -صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم- نے شب معراج، سفر معراج سے قبل اور سفر معراج کے درمیان نماز ادا فرمائی، براق پر تشریف رکھنے سے پہلے، حضرت ام ہانی -رضی اللہ تعالیٰ عنہا- کے گھر میں نماز ادا فرمائی، اور بیت المقدس میں تمام انبیا -علیہم الصلاۃ والسلام- کی امامت فرمائی۔ علاوہ ازیں اوپر حضرت عبد اللہ بن عباس -رضی اللہ تعالیٰ عنہما- کی عبادت اور آپ کے ارشاد کا ذکر ہوا کہ آج کے دن حضور -صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم- کا عمل مبارک ایسا ہی ہوتا۔ اس سے صاف معلوم ہوا کہ اس شب عبادت کرنا آقاے کریم -صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم- اور صحابہ کرام -رضی اللہ تعالیٰ عنہم- کی سنت ہے؛ اس لیے ایسوں کو احتیاط سے کام لینا چاہیے۔ اللہ رب العزت ایسے لوگوں کو ہدایت دے۔ آمین۔

امکان غالب ہے کہ شب معراج، اہتمام عبادت کے متعلق پیش کردہ احادیث کریمہ کا کوئی یہ کہہ کر انکار کر دے کہ یہ ضعیف ہیں، مرجوح  ہیں، لائق اعتبار نہیں، صحیح اور راجح احادیث کریمہ پیش کی جائے؛ اس لیے اس کی وضاحت ضروری ہے۔

*فضائل اعمال میں ضعیف احادیث شریفہ بھی لائق استناد:*
محدثین کرام کا اس پر اتفاق ہے کہ فضائل اعمال میں ضعیف روایتیں بھی لائق اعتبار وقابل احتجاج ہیں۔ چناں چہ امام ابو زکریا یحییٰ بن شرف نووی دمشقی -رضی اللہ تعالیٰ عنہ-فرماتے ہیں:
"و قد اتفق العلماء علی جواز العمل بالحدیث الضعیف في فضائل الأعمال۔" [شرح الأربعین للنوویۃ]
"علماے امت نے فضائل اعمال میں حدیث ضعیف پر عمل کرنے کو بالاتفاق جائز کہا ہے۔"

*خلاصہ:*
[١] آقا کریم -صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم- کا معراج میں تشریف لے جانا قرآن کریم، احادیث شریفہ اور اقوال امت سے ثابت ہے۔
[٢] تاریخ معراج میں متعدد روایتوں کے باوجود علماے کرام نے ماہ رجب کی ستائیسویں شب کو راجح قرار دیا ہے۔
[٣] شب معراج، عبادت و ریاضت، متعدد احادیث کریمہ، سنت رسول -صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم- اور سنت صحابہ سے ثابت ہے۔

*پیغام:*
معراج، شب معراج اور اہتمام عبادت کے متعلق اتنی شفاف روایتوں کے باوجود ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو ان روایتوں کے حوالے سے طرح طرح کے شوشے چھوڑتا ہے، خاص کر اہتمام عبادت کے حوالے سے کہتا ہے کہ اس سلسلے کی ساری روایتیں ضعیف ہیں، لائق عمل نہیں ہیں۔ عوام اہل سنت سے میری مؤدبانہ گزارش ہے کہ اس طرح کی بے بنیاد باتوں پر کان نہ دھریں، بلکہ چھبیس رجب کو دن میں روزے رکھیں، اور رات میں عبادتوں کا خاصا اہتمام کریں۔

باری تعالیٰ اسے قبول فرمائے اور اسے نافع انام بنائے۔ والله المستعان وعلیه التکلان وصلی اللہ علی خیر الأنام و علی آله و أصحابه الکرام۔

💫💫💫💫💫💫💫💫💫💫💫

*نوٹ:*
اس مضمون کی تیاری میں درج ذیل کتابوں سے مدد لی گئی ہے:
1️⃣ خزئن العرفان از حضرت علامہ نعیم الدین مراد آبادی رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔
2️⃣ تفسیر تبیان القرآن از علامہ غلام رسول سعیدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔
3️⃣ معراج مصطفیٰ -صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم- از مفتی محمد خان قادری
4️⃣ شب معراج: فضائل وعبادت از مفتی ضیاء الدین نقشبندی۔

🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸

*♣️عبدالقدوس مصباحی۔♣️*
*دارالعلوم فیض رضا، شاہین نگر، حیدرآباد، تلنگانہ۔*

١٧؍ رجب المرجب، ١٤٤١ھ
١٣؍ مارچ، ٢٠٢٠ء

ایک تبصرہ شائع کریں

1 تبصرے

اپنا کمینٹ یہاں لکھیں