----------------------------------------------
🕯شیخ الاسلام حضرت امام ابو زکریا نووی رحمۃ اللہ علیہ🕯
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
نام و نسب:
اسم گرامی: یحیٰ۔
لقب: شیخ الاسلام،قطبِ وقت،محی الدین،حافظ الحدیث۔
سلسلہ نسب اسطرح ہے: یحییٰ بن شرف بن مری بن حسن بن حسین بن جمعہ بن حزام۔علیہم الرحمہ۔آپ کاسلسلہ نسب صحابیِ رسول ﷺ حضرت حزام بن خویلد رضی اللہ عنہ تک منتہی ہوتا ہے۔
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت محرم الحرام کے آخری عشرے631ھ کو دمشق ،شام کے ایک علاقے "حوران" کی ایک نواحی بستی"نویٰ" میں ہوئی۔اسی علاقے کی نسبت سے "نووی" کہلاتے ہیں۔
*تحصیل علم:* امام نووی 649ھ میں "مدرسہ رواحیہ" میں داخل ہوئے اور باقاعدہ تحصیل علم کا آغاز فرمایا دوسال بعد اپنے والد کے ساتھ حج بیت اللہ کے لیے تشریف لے گئے مدینہ منورہ میں ڈیڑھ ماہ قیام کیا اس سفر میں حرمین شریفین بیت اللہ کے فضلاء سے استفادہ کرتے رہے واپسی کے بعد پورے انہماک کے ساتھ کسب علم میں مصروف ہوگئے آپ نے خداداد قوت حفظ و ضبط اور فہم و فراست کے ساتھ تحصیل علم کے میدان میں قدم رکھا تھا اور بڑی تحقیق و تفتیش اور ذوق و شوق کے ساتھ علوم و فنون متداولہ کی تحصیل کی۔
آپ فرماتےہیں:
"کنت اعلق جمیع ما یتعلق بھا من شرح مشکل ووضوح عبارۃ وضبط لغۃ وبارک اللہ تعالیٰ فی وقتی"
پڑھتے وقت مشکل الفاظ کی تشریح پیچیدہ عبارت کی توضیح اور ضبط لغت کے ساتھ تعلق رکھنے والی تمام ضروری باتیں نوٹ کرلیا کرتا تھا اور اللہ تعالیٰ نے میرے اوقات میں برکت دی تھی۔
اسی طرح آپ نے حدیث، رجال، فقہ، اصول فقہ، عقائد و کلام، معقولات، عربیت ولغت کی باکمال اساتذہ فن سے تحصیل کی آپ کے نام آورشیوخ و اساتذہ کے نام یہ ہیں:
امام رضی بن برہان، عبدالعزیز بن محمد انصاری، زین الدین بن عبدالدائم، عماد الدین بن عبدالکریم بن حرستانی، زین الدین خالد بن یوسف، تقی الدین بن ابی الیسر، جمال الدین مصری، شمس الدین بن ابی عمر، زین خالد، ابو اسحاق ابراہیم بن عیسیٰ مرادی وغیرہ۔
علیہم الرحمہ۔
*بیعت و خلافت:* شیخ المشائخ حضرت شیخ یٰسین بن یوسف زرکشی علیہ الرحمہ سے علم التصوف کی تعلیم حاصل کی، اور انہیں سے بیعت ہوئے۔یہی وجہ ہے کہ صوفیہ و مشائخ سے بڑی عقیدت رکھتے ،اور ان کی مجلسوں میں حاضر ہوتے تھے۔ مخالفین تصوف پر برہمی کا اظہار کرتے تھے۔
*سیرت و خصائص:* شیخ الاسلام، محی الدین، قطب ِوقت، استاذ العلماء و المحدثین، امام الفقہاء و المتکلمین، رئیس الاولیاء والمتقین، حافظ الحدیث، مجتہد الشافعیہ،محسن ِ ملت اسلامیہ ، محی الدین شیخ الاسلام حضرت ابو زکریا یحیٰ بن شرف نووی شافعی رحمۃ اللہ علیہ۔
آپ علیہ الرحمہ کا ملت اسلامیہ میں ایک بہت بڑا مقام ہے۔ تمام طبقات آپ کی رائے کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ آپ شافعیوں کے ایک بہت بڑے فقیہ ہیں، اسی طرح علم الحدیث میں آپ کو امام تسلیم کیا جاتا ہے۔ آپ کے اقوال کو بطورِ دلیل و حجت پیش کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تذکرہ نگاروں اور علماء اسلام نے آپ کو عمدہ الفاظ کے ساتھ خراج عقیدت پیش کیا ہے۔
*حافظ ذہبی:* "الامام الحافظ الاوحد القدوۃ شیخ الاسلام الاولیاء صاحب التصانیف”
شیخ الاسلام امام نووی بے نظیر، پیشوا جلیل القدر حافظ حدیث اور سرتاج اولیاء ہیں اور بہت سی مفید کتابوں کے مصنف ہیں۔
*(تذکرۃ الحفاظ، ج۴، ص۲۵۰)*
*شیخ ابن فرح:* "نوبۃ الشیخ محی الدین قدصار الی ثلاث مراتب کل مرتبۃلو کانت لشخص لشدت الیہ الرحال العلم والزھد والامر بالمعروف والنھی عن المنکر"
شیخ محی الدین میں ایسی تین خوبیاں بدرجۂ کمال پائی جاتی تھیں کہ اگر ان میں سے ایک بھی کسی شخص میں پائی جاتی تو اس کی طرف عقیدت مندوں مستفیدین کے تانتے بندھ جائیں اور وہ ہیں علم، زہد اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر۔
*(ایضاً)*
*امام یافعی:* "الامام شیخ الاسلام المحقق المداقق النجیب البحر المفید"
گوناگوں فضائل و محاسن کے جامع، علوم میں مبتحر، حدیث، فقہ اور لغت میں وسیع المعرفت، عالم و فاضل یگانہ، ولی کبیر، سید شہیر، تمام معاصرین سے فائق و برتر ہر سوان کے محاسن کا چرچا اور فضائل کی شہرت ہے۔
*(البدایہ و النہایہ، ج۳، ص۲۷۸)*
*مہارت فی الحدیث:* امام نووی حدیث اور متعلقات حدیث سے خاص شغف رکھتے تھے ان کا شمار ممتاز محدثین اور نامور شارحین حدیث میں ہوتا ہے۔
حافظ شمس الدین ذہبی رقمطراز ہیں:
"کان حافظا للحدیث وفنونہ ورجالہ وصحیحہ علیلہ رأسا فی معرفۃ المذھب"
آپ نامور حافظ حدیث اس کے جملہ فنون کے عالم،فن رجال کے ماہر صحیح اور ضعیف کو خوب جانتے تھے تحقیق مذاہب میں آپ کا جواب نہ تھا۔
*(تذکرہ، ج۴، ص ۲۵۲)*
حدیث میں کمال کی بنا پر آپ کو دارالحدیث دمشق میں حافظ ابو شامہ جیسے عظیم محدث کا جانشین مقرر کیا گیا اور ان کی وفات کے بعد دارالحدیث دمشق کی تولیت و صدارت کے منصب پر فائز کیا گیا اس ذمہ داری کو وہ عمر بھر انجام دیتے رہے۔ *(مرأۃ الجنان، ج۴، ص۱۸۴)*
*مہارت فی الفقہ:* حدیث ہی کی طرح وہ فقہ میں بھی بڑی شان کے مالک تھے وہ فقہ وافتاء میں گہری نظر رکھتے ابن کثیر نے لکھا ہے وہ اپنے زمانہ کے اکابر فقہاء اور شوافع کے شیوخ میں تھے۔
*امام یافعی لکھتے ہیں:* وہ فقہ کی معرفت میں ممتاز و معتمد اور لائق اعتبار مفتی تھے۔
*حافظ ذہبی لکھتے ہیں:* امام شافعی کے مذہب کی انہوں نے گوناگوں خدمات انجام دیں ہیں اس کے تجسس و تفحص ضبط و تنقیح، تحریر و تدریس، ترتیب و تہذیب میں ان کا بڑا حصہ رہا ہے اور اس مذہب کے چوٹی کے علماء میں تھے۔ امام رافعی کے بعد اس مذہب میں ان سے زیادہ صاحب کمال اور ممتاز شخص کوئی نہیں گذرا۔
*(تذکرۃ المحدثین، ج۲)*
آپ حدیث و فقہ کے ساتھ قرآن و تفسیر و قرأت، عربیت، نحوو صرف، منطق و فلسفہ میں بھی مہارت رکھتے تھے وہ حافظ قرآن تھے تلاوت آپ کا بہترین مشغلہ تھا وہ جامع کمالات اور متعدد علوم و فنون پر دست گاہ رکھتے تھے۔
*تدریس:* امام نووی نے اپنی زندگی تحصیل علم اور اشاعت علم کے لیے وقف کردی تھی عمر عزیز کا ایک لمحہ بھی رائیگاں نہ کرتے وہ شب وروز علم کی تحصیل اور درس و تدریس، تصنیف و تالیف اور اشاعت علم میں مشغول رہتے۔ راستہ چلتے وقت بھی پڑھتےرہتے۔آپ نے پوری زندگی حصول علم اور اس کی اشاعت میں صرف کردی آپ کی ذات طلبہ اور علماء کا مرجع بنی ہوئی تھی۔ متعدد مدارس میں تدریس کے فرائض انجام دیئے اور بقول حافظ ذہبی آپ کی شب و روز کی کوششوں اور سعی جمیل کا نتیجہ یہ ہوا “تخرج بہ جماعۃ من العلماء” کہ آپ کے حلقۂ درس سے نادرۂ روزار علماء اور فضلاء محدثین نے سند فراغت حاصل کی۔
امام نووی مکارم اخلاق کے پیکر تھے پوری زندگی اشاعت علم اور عمل صالح کے لیے وقف کردی تھی معاشرت بڑی سادہ غازۂ تکلف سے عاری تھی۔ روکھا سوکھا کھاتے موٹا جھوٹا پہنتے دنیاوی لذتوں سے بے نیاز رہتے۔ بہت سادہ انتہائی متقیانہ زندگی بسر کرتے تھے آپ نے لذائذ و تمتعات دنیا سے بہت کم فائدہ اٹھایا۔
*(تذکرہ، ج۴، ص۲۵۴)*
آپ نہایت متدین عابد و زاہد شخص تھے۔ برابر عبادت ذکر الہی، اوراد و وظائف میں مشغول رہتے تھے مجاہدہ و تزکیۂ نفس مراقبہ و تصفیہ باطن، تقوی و طہارت اور معمولی جزوی باتوں میں احتیا کو اپنی ذات پر لازم کرلیا تھا اپنی خواہشات نفس کو یکسر پامال کردیا تھا۔ امام یافعی فرماتے ہیں وہ عابدو زاہد، متورع باعمل شب بیدار حامی دین اور ناصر سنت تھے عبادت و طاعت تلاوت قرآن تصنیف و تالیف میں ان کا تمام وقت بسر ہوتا۔ دنیا اور اس کے تعیشات سے بالکل دست کش رہتے اور تمام تر توجہ دین بنانے اور سنوارنے پر مرکوز رکھتے تھے۔ زہد و قناعت، اتباع سنت، اقتدائے سلف، نیکی و صلاح اور خیر خیرات کے کاموں میں لگے رہنا ان کی زہد و عبادت، حزم و احتیاط اور لوگوں سے حذرو اجتناب پر قابو نہیں ہوسکتا خود فرمایا کرتے ہیں جسم کی ترو تازگی اور نیند کی زیادتی کے ڈر سے پھل، ترکاری، سبزی اور عمدہ کھانے سے پرہیز کرتا ہوں وہ ہدیے اور فتوح کے قبول کرنے میں بھی حد درجہ محتاط واقع ہوئے تھے غیر متعلق افراد سے تو کچھ بھی قبول نہ کرتے ہاں ایسے لوگ جن سے وہ ذاتی طور پر واقفیت رکھتے اور ان کے کسب حلال کا یقین ہوتا ان سے قبول تحائف میں زیادہ اجتناب نہ کرتے ۔ تکلیفوں پر صبر و تحمل ان کی فطرت ثانیہ بن گئی تھی وہ اپنے معمولات پر بڑی سختی سے کاربند رہتے ان میں عمر بھر فرق آنے نہ دیا۔ سیرت و کردار کے لحاظ سے ان کا پایہ بہت بلند تھا امام یافعی فرماتے ہیں :کہ بخداوہ بہترین اوصاف و خصائص اور پاکیزہ سیرت و اخلاق سے متصف اور محاسن و کمالات میں عدیم النظیر تھے۔
*(مرأۃ الجنان، ج۴، ص۱۸۲)*
تاریخِ وصال: آپ کا وصال 45سال کی عمر میں 24/رجب المرجب 676ھ کو ہوا۔ آپ کا مزار شریف "نویٰ" شام میں مرجعِ خلائق ہے۔ 2017ء میں "خوارجی کتوں" نے اس محسنِ عظیم کا مزار شریف شہید کر دیا ہے۔
ماخذومراجع: طبقات الشافعیہ۔ محدثین عظام حیات وخدمات۔ عربی وکیپیڈیا۔
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
المرتب⬅ محــمد یـوسـف رضــا رضــوی امجــدی 📱919604397443
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں