15 رجب المرجب شریف عرسِ امامِ جعفرِ صادق رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ:
امامِ جعفر صادق کامختصرتعارف
نام ونسب: آپ کانام”جعفر“ اورکُنیّت ”ابوعبداللہ“ ہے ۔آپ کی ولادت 80 ہجری میں ہوئی، آپ کے دادا شہزاد ۂ امام حسین حضرت سیّدنا امام زَیْنُ الْعَابِدِین علی اَوسط اور والد امام محمد باقِر ہیں جبکہ والدہ حضرت سیّدتنا اُمِّ فَرْوَہ بنتِ قاسم بن محمد بن ابوبکر صدیق ہیں رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن۔ یوں والد کی جانب سےآپ”حسینی سَیِّد“ اور والدہ کی جانب سے”صدیقی“ ہیں۔ سچ گوئی کی وجہ سےآپ کو صادِق کے لقب سے جانا جاتا ہے
[سیر اعلام النبلا،ج 6، ص438]
تعلیم وتربیت :آپ نےمدینۂ مُنَوَّرہ کی مشکبار عِلمی فضا میں آنکھ کھولی اور اپنے والدِ گرامی حضرت سیّدنا امام ابو جعفر محمدباقِر ، حضرت سیّدنا عُبَيۡد الله بن ابی رافع، نواسۂ صدیقِ اکبر حضرت سیّدنا عُروہ بن زُبَير، حضرت سیّدنا عطاء اور حضرت سیّدنا نافع عَلَیْہِمُ الرََّحْمَۃ کے چَشْمۂ عِلْم سے سیراب ہوئے۔
[تذکرۃ الحفاظ،ج1 ، ص126]
دو جَلیلُ القدر صحابۂ کِرام حضرت سیّدنا اَنَس بن مالک اورحضرت سیّدنا سہل بن سعد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کی زیارت سے مُشَرَّف ہونے کی وجہ سے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ تابعی ہیں۔
[سیر اعلام النبلا،ج 6، ص438]
دینی خدمات: کتاب کی تصنیف سےزیادہ مشکل افراد کی علمی، اَخلاقی اور شخصی تعمیر ہے اور اُستاد کا اِس میں سب سے زیادہ بُنیادی کِردار ہوتا ہے۔ حضرت سیّدنا امام جعفرصادِق رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی صحبت میں رَہ کرکئی تَلامِذہ(شاگرد) اُمّت کے لئے مَنارۂ نور بنے۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے عِلمی فیضان سے فیض یاب ہونے والوں میں آپ کے فرزندامام موسیٰ کاظم، امامِ اعظم ابو حنیفہ ، امام مالک، حضرت سفیان ثَوری،حضرت سفیان بن عُیَیْنَہ عَلَیْہِمُ الرَّحۡمَۃ کے نام سرِفَہرِست ہیں۔
[تذکرۃ الحفاظ ،ج1، ص125، سیر اعلام النبلا ،ج6 ،ص439]
قابلِ رشک اوصاف ومعمولات: خوش اَخلاقی آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی طبیعت کا حصہ تھی جس کی وجہ سے مبارک لبوں پر مسکراہٹ سجی رہتی مگر جب کبھی ذکرِ مصطفےٰ ہوتا تو (نبیِّ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ہیبت وتعظیم کے سبب) رنگ زَرد ہو جاتا، کبھی بھی بے وضو حدیث بیان نہ فرماتے ، نماز اور تلاوت میں مشغول رہتے یا خاموش رہتے ، آپ کی گفتگو ”فضول گوئی“ سے پاک ہوتی۔
[الشفاء مع نسیم الریاض،ج4، ص488ملخصاً]
آپ کے معمولات ِزندگی سے آباء و اجداد کے اَوصاف جھلکتے تھے،آپ کے رویّےمیں نانا جان نبیِّ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی معاف کردینے والی کریمانہ شان دیکھنے میں آتی، گُفتار سےصدیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی حق گوئی کا اظہار ہوتا اور کردار میں شجاعتِ حیدری نظر آتی، آپ کے عفو و دَرگُزر کی ایک جھلک مُلاحَظَہ کیجیے:
(حکایت) ایک مرتبہ غلام نے ہاتھ دُھلوانے کے لئے پانی ڈالا مگر پانی ہاتھ پر گرنے کے بجائے کپڑوں پر گرگیا، آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے اسے نہ تو جھاڑا، نہ ہی سزا دی بلکہ اسے معاف کیا اور شفقت فرماتے ہوئے اسے آزاد بھی کردیا۔ [بحرالدموع،ص 202 ملخصاً]
وصال ومَدْفَن: آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا وصال 15رَجَبُ الْمُرَجَّب 148 ہجری کو 68 سال کی عمر میں ہوا اور تدفین جَنَّتُ الْبَقِیْع آپ کے دادا امام زین العابدین اور والد امام محمد باقِر رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہما کی قبورِ مبارَکہ کے پاس ہوئی۔
[الثقات لابن حبان،ج3، ص251،وفیات الاعیان،ج1، ص168]
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں