---------------------------------------------------
فقیہِ اعظم علامہ مفتی پیر محمد قاسم مشوری رحمۃ اللہ علیہ🕯
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
نام و نسب:
اسم گرامی: مولانا مفتی محمد قاسم مشوری علیہ الرحمۃ۔
لقب: فقیہِ اعظم سندھ۔
سلسلۂ نسب اس طرح ہے:
حضرت خواجہ محمد قاسم مشوری بن حاجی محمد عثمان بن نہال خان بن اللہ بخش بن یار محمد بن پیارو خان بن شاہ محمد مشوری (علیہم الرحمۃ)۔
آپ کا خاندانی تعلّق: ’’ رندبلوچ‘‘ کی شاخ ’’مشوری‘‘سے ہے۔
*تاریخِ ولادت:* آپ کی ولادت باسعادت بروز پیر،12؍ربیع الاوّل 1316ھ مطابق یکم اگست1898ءکو درگاہِ عالیہ مشوری شریف ضلع لاڑکانہ سندھ میں ہوئی۔
*تحصیل علم:* آپ نہایت ہی ذہین و فطین تھے۔ اپنی والدہ محترمہ سے ناظرہ قرآن مجید مکمل کیا۔ آپ کی والدہ ماجدہ نہایت عابدہ ، زاہدہ اور شب خیز اور قرآن مجید کی عاملہ خاتون تھیں۔ اس کے بعد قریب ہی ’’گوٹھ ملا ابڑا‘‘ میں صوفیِ باصفا حضرت مولانا محمد عالم ابڑو سے فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ بَعْدَہٗ بارہ سال کی عمر میں اس وقت کی سندھ کی مشہور دینی درس گاہ ’’مدرسہ دارالفیض‘‘ گوٹھ سونہ جتوئی (ضلع لاڑکانہ ) میں داخلہ لیا۔
حضرت علامہ مفتی غلام محمد جتوئی اور سراج الفقہاء استاذ الاساتذہ عارف باللہ علامہ مولانا مفتی ابوالفیض غلام عمر جتوئی (علیہما الرحمۃ) سے 1339ھ/ 1920ء میں تحصیل علم کرکے سندِ فراغ حاصل فرمائی۔ آپ کی دستارِ فضیلت میں اس وقت کے جیّد علما و مشائخ نے شرکت فرمائی تھی۔
*بیعت و خلافت:* امام العرفا، رئیس الصلحا، عارف باللہ حضرت خواجہ سیّد محمد امام الدین شاہ راشدی قادری علیہ الرحمۃ (درگاہِ ٹھلا شریف لاڑکانہ) کے دستِ حق پرست پر سلسلۂ عالیہ قادریہ راشدیّہ میں بیعت ہوئے اور 1931ء میں خلافت و اجازت اور تبرکات سے سرفراز ہوئے۔
*سیرت و خصائص:* فقیہ العصر، مفتیِ اعظم سندھ، عالم و عارف، استاذ العلما، رئیس الصلحا، محققِ دوراں، قاسم العلمِ والعرفاں، فقیہِ اعظم حضرت علامہ مولانا مفتی محمد قاسم مشوری رحمۃ اللہ علیہ۔
قبلہ مفتی صاحب علیہ الرحمۃ اُن نفوسِ قدسیّہ میں سے ہیں جنہوں نے باب الاسلام سرزمینِ اولیا سندھ میں دینِ اسلام کی آبیاری فرمائی، مفتی صاحب علیہ الرحمۃ کی ساری زندگی درس و تدریس تصنیف و تالیف، وعظ و نصیحت اور مسلکِ حق اہلِ سنّت وجماعت کی ترویج و اشاعت میں گزری۔ مفتی صاحب کا فیضان عام ہے۔یہی وجہ ہے کہ سندھ کے اکثر علما بلا واسطہ یابالواسطہ آپ کے تلامذہ میں شامل ہیں۔ آپ نے تحصیلِ علم کے بعد اپنےاستاذِ محترم سراج الفقہا حضرت علامہ مولانا غلام عمر جتوئی کے ارشاد پر، مدرسۂ جامعہ عربیہ قاسم العلوم قائم کیا۔ دیگر مدارس کے برعکس آپ کا طریقۂ کاریکسر منفرد تھا۔ آپ کے ہاں طلبہ کے داخلے کا رجسٹر تھا اور نہ ہی روزانہ حاضری کا معمول ، طلبہ کاشش ماہی یا سالانہ امتحان ہوتا تھا اور فارغ ہونے والے فضلا کو سند بھی نہیں دی جاتی تھی، اس کے باوجود نتیجہ سو فیصد ہوتا، وہاں سے فارغ ہونے والا ہر فاضل تدریس کے قابل ہوتا۔ دور دراز علاقوں سے طلبہ سفر کرکے حاضرِ خدمت ہوتے اورعلم کی لازوال دولت سےمشرف ہوکر اپنے علاقوں کی طرف لوٹتے تھے۔ اس درس گاہ سے آج تک علم و عرفان کی نہریں جاری ہیں جن سے بے شمار تشنگان ِعلمِ ظاہری و باطنی اپنی پیاس بجھا رہے ہیں۔ بے شمار علما فارغ التحصیل ہوئے اور اس جامعہ کی سندھ ، بلوچستان اور پنجاب میں کئی شاخیں سرگرم ہیں۔ جب آپ نے فارسی کی تعلیم مکمّل کی تو آپ کے والدِ ماجد حاجی محمد عثمان مشوری اپنے صاحبزادے کو اپنے خاندانی مُرشِد، عارف باللہ، سراج العارفین حضرت خواجہ سیّد امام الدین شاہ راشدی کے حضور دعا کے واسطے لے آئے اور عرض کیا: ’’قبلۂ من! میں اپنے بچے کو عالم دین بنانا چاہتا ہوں آپ اجازت بھی عنایت فرمائیں اور دعا بھی فرمائیں۔‘‘ حضرت قبلہ نے آپ کی طرف نظر کرم فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا:’’بیٹا!علم دین پڑھ،لیکن خشک ملا نہ ہونا‘‘یعنی علم دین کے ساتھ ساتھ راہِ سلوک بھی طے کرنا۔ یہی وجہ ہےکہ آپ علم کےساتھ عرفان کی دولت سےبھی مالا مال تھے۔قدرت نےحُسنِ ظاہری کے ساتھ ساتھ جمال ِ باطنی سے بھی خوب نوازا تھا۔ آپ کے حسن و جمال میں ایسی کشش تھی جس سے دنیا کے صاحبِ حسن و جمال میں آپ ممتاز و منفرد نظر آتے تھے، گفتگو و تبسم میں چہرے پر ایسانور چمکتا تھا کہ دلوں کی تاریکیاں دھل جاتی تھیں۔ روحانی طور پر ایسا جلال و جمال ، آنکھوں میں حشمت وہیبت تھی کہ بڑے سے بڑے جاگیردار، وزیر، مشیر، بیورو کریٹ بھی سامنے بات کرنے سے پہلے بار بار سوچتے تھے کہ کوئی ناگوار بات منہ سے نہ نکل جائے ، اور بات کرنے کی ہمت نہ پاتے تھے اور بولنے میں ان کی زبان ان کا ساتھ نہ دیتی تھی، وہ لڑکھڑاتے اور ڈرتے ڈرتے بات کرتے تھے۔ آپ کا سینۂ اطہر تجلیاتِ الٰہیہ کامرکز تھا۔ آپ کا قلبِ مبارک معارفِ خدا وندی کا گنجینہ تھا۔ نگاہوں میں حُسنِ یار کے جلوے تھے، دل میں محبّتِ خدا وندی اور عشقِ نبوی کا دریا موجزن تھا۔ غرض یہ کہ آپ کا ہر عمل تسلیم ورضا کا گوہرِ نایاب تھا۔ آپ رحم و کرم اور عفوو درگذر کا پیکرِ جمیل تھے۔ وعظ و نصیحت ، درس و تدریس ، فتویٰ نویسی ، دعا و تعویذ، تلقین و ارشاد ، اوراد و وظائف اور شب بیداری وغیرہ مشاغل آپ کے ہاں نہایت وسیع وسعت رکھتے ہیں ۔ اتنے مشاغل کثیرہ کے باوجود آپ نے تیس سے زائد دینی،تحقیقی و ادبی تصانیف تحریر فرمائیں جو کہ اسلام کا عظیم سرمایہ ہیں۔آپ کی کتب ورسائل کوعام کرنے کی ضرورت ہے۔ دینی مدارس کی صورت میں جوآپ نے ایک مشن دیا تھا اس کو آباد کرنے کی ضرورت ہے۔
تاریخِ وصال: آپ کا وصال یکم رمضان المبارک 1410ھ، مطابق 28؍ مارچ1990ء بروز بدھ، صبح تقریباًچھ بجے روزے کی حالت میں اِس طرح ہوا کہ آپ اسم ذات’’اللہ اللہ‘‘ کا ورد کرتے ہوئے روح ربّ العالمین کی بارگاہ میں حاضر ہوگئی۔ درگاہِ عالیہ مشوری شریف میں تدفین ہوئی ،مزارشریف مرجعِ خلائق ہے۔
ماٰخذومراجع: اَنوارِ علمائے اہلِ سنّت سندھ۔
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
المرتب⬅ محــمد یـوسـف رضــا رضــوی امجــدی 📱919604397443
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں