بدشگونی کی مذمت


 بدشگونی کی مذمت 
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

 مشرک قوموں میں مختلف چیزوں سے برا شگون لینے کی رسم بہت پرانی ہے اوران کے تَوَہُّم پرست مزاج ہر چیز سے اثر قبول کرلیتے ، جیسے کوئی شخص کسی کام کو نکلتا اور راستے میں کوئی جانور سامنے سے گزر گیا یاکسی مخصوص پرندے کی آواز کان میں پڑجاتی تو فوراً گھر واپس لوٹ آتا، اسی طرح کسی کے آنے کو، بعض دنوں اور مہینوں کو منحوس سمجھنا ان کے ہاں عام تھا۔ اسی طرح کے تَصَوُّرات اور خیالات ہمارے معاشرے میں بھی بہت پھیلے ہوئے ہیں۔ اسلام اس طرح کی توہم پرستی کی ہر گز اجازت نہیں دیتا اور اسلام نے جہاں دیگر مشرکانہ رسموں کی جڑیں ختم کیں وہیں اس نے بد فالی کا بھی خاتمہ کر دیا۔ چنانچہ۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت عبداللہ بن مسعودرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ دوجہاں صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:
’’شگون شرک ہے، شگون شرک ہے، شگون شرک ہے، ہم میں سے ہر ایک کو ایسا خیال آجاتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ اسے ہٹا کر توکل پر قائم فرما دیتا ہے۔ 
(ابو داؤد، کتاب الطب، باب فی الطیرۃ، ۴ / ۲۳، الحدیث: ۳۹۱۰) 

 حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:
’’جسے کسی چیز کی بد فالی نے اس کے مقصد سے لوٹا دیا اُس نے شرک کیا۔ عرض کی گئی :یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ایسا شخص کیا کفارہ دے ؟ ارشاد فرمایا: ’’یہ کہے ’’ اَللّٰہُمَّ لَا طَیْرَ اِلاَّ طَیْرُکَ وَلَا خَیْرَ اِلاَّ خَیْرُکَ وَلَا اِلٰہَ غَیْرُکَ ‘‘اے اللہ تیری فال کے علاوہ اور کوئی فال نہیں ، تیری بھلائی کے سوا اور کوئی بھلائی نہیں اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔ (یہ الفاظ کہہ کر اپنے کام کو چلا جائے۔) 
(مسند امام احمد، مسند عبد اللہ بن عمرو بن العاصرضی اللہ تعالی عنہما، ۱ / ۶۸۳، الحدیث: ۷۰۶۶)
 
 احادیث میں بدشگونی کو شرک قرار دینے کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی شخص بدشگونی کے افعال کو مؤثِّرِ حقیقی جانے تو شرک ہے اور یا مشرکوں کا فعل ہونے کی وجہ سے زجر اور سختی سے سمجھانے کے طور پر شرک قرار دیا گیاہے۔

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
المرتب⬅ محــمد یـوسـف رضــا رضــوی امجــدی 📱919604397443
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے