Header Ads

کرونا وائرس سے فوت ہونے والے کے تجہیز و تکفین کا شرعی حکم اور ڈاکٹر شمیم منعمی اور مفتی نعمت اللہ کے غیر شرعی حکم کا محاسبہ

🌲اسے ضرور پڑھیں اس کی ضرورت ہے اور شئیر بھی کریں🌲
مولانا احتشام الحق مصباحی صاحب کی اجازت سے

کرونا وائرس سے فوت ہونے والے کے تجہیز و تکفین کا شرعی حکم اور ڈاکٹر شمیم منعمی اور مفتی نعمت اللہ کے غیر شرعی حکم کا محاسبہ

شہید کی دو قسمیں ہیں(١) شہید حقیقی (٢)شہید حکمی 

شہید حقیقی : اسے کہتے ہیں کہ عاقل ،بالغ ،مسلمان جس پر غسل فرض نہ ہو وہ تلوار و بندوق وغیرہ آلہ جارحہ سے ظلما قتل کیا جاۓ ،اور نفس قتل سے مال واجب نہ ہوا ہو اور نہ زخمی ہونے کے بعد دنیا سےکوئی فائدہ حاصل کیا ہو ،اور نہ زندوں کے احکام میں سے کوئی حکم اس پر ثابت ہوا ہو ۔
*شہید حقیقی کا حکم* : شہید فقہی کا حکم یہ ہے کہ نماز جنازہ پڑھی جاۓ گی ،غسل نہیں دیا جاۓ گا بلکہ ویسے ہی خون سمیت دفن کردیا جاۓ گا ،اور جو چیزیں کہ ازقسم کفن نہیں ہوں گی انہیں اتار لیا جاۓ گا جیسے زرہ ،ٹوپی اور ہتھیار وغیرہ، (درمختار مع رد المحتار) 
*شہید حکمی* : وہ ہے کہ جو ظلما قتل نہ کیا گیا ہو مگر وہ قیامت کے دن شہیدوں کے گروہ میں اٹھایا جاے گا ،
*حدیث شریف* میں ہے : سرکار اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خداۓ تعالیٰ کی راہ میں شہید کیے جانے کے سات شہادتیں اور ہیں (١)جو طاعون میں مرے وہ شہید ہے (٢) جو ڈوب کر مرجاۓ وہ شہید ہے (٣)جو ذات الجنب (نمونیہ)میں مرے وہ شہید ہے (٤)جو پیٹ کی بیماری میں مرجاۓ وہ شہید ہے (٥)جو آگ میں جل جاۓ وہ شہید ہے (٦) جو عمارت کے نیچے دب کر مرجاۓ وہ شہید ہے (٧) جو عورت بچے کی پیدائش میں مرجاۓ وہ بھی شہید ہے (مشکوۃشریف ) 
ان کے علاوہ اور بھی صورتیں ہیں جن میں شہادت کا‌ثواب ملتا ہے ،مختصر یہ کہ شہید حقیقی ،فقہی کے علاوہ حدیث کی کتابوں میں جن کو شہید کہا گیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کو شہادت کا ثواب ملے گا ،شہید حکمی کہلائیں گے حقیقی نہیں ۔
*شہید حکمی کا حکم* اس کا حکم یہ ہے کہ اس کو غسل ،کفن اور نماز جنازہ سب کچھ ہوگا 
(ماخوذ از در مختار و رد المحتار والاصل ) 
*موجودہ حالات* میں ایک وبائی مرض بنام *کورونا وائرس* پھیلا ہوا ہے جس کی وجہ سے ملک بھر میں کئی اموات سامنے آئیں ہیں ،اللہ رب العزت تمام مسلمانوں کو اس‌‌ وبائی مرض سے محفوظ و مامون فرماۓ ۔آمین 
دیکھنا‌ یہ ہے کہ اس وائرس سے اگر کسی مسلم کی جان جاتی ہے تو کیا وہ شہادت کے مرتبہ پر فائز ہوگا ؟ 
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا *الطاعون شہادۃ لکل مسلم* 
طاعون ہر مسلمان کے لیے شہادت ہے 
*طاعون* کے علماء نے دو معنی بیان کیا ہے (١) جلد میں پھوڑے کی طرح ورم ہونا جس سے انسان مرجاۓ ، یہ معنی خاص ہے (٢) وبائی مرض یعنی جولوگوں میں کثرت کے ساتھ پھیل جاۓ، یہ عام معنی ہے اسی کو ملا علی قاری اور امام طیبی رحمۃاللہ علیہما جیسے محقق نے ظاہر کہا ہے ۔ 
فرماتے میں " والطاعون قروح تخرج مع لھیب فی الآباط ، والاصابع ، وسائر البدن ،یسود‌ما حولہا او یخضر او یحمر واما الوباء فقیل ھو الطاعون ،والصحیح انہ مرض یکثر فی الناس ،وقال الطیبی : الطاعون ھو المرض العام والوباء الذی یفسد بہ الھواء فتفسد بہ الامزجۃ والابدان ۔
(مرقات المفاتیح ج ٤ ص ٢١)
اس تفصیل سے واضح ہوگیا کہ وبائی امراض سے فوت ہونے والے مسلمان کو شہادت کا ثواب ملے گا ،اور یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ *کورونا وائرس* بھی ایک وبائی مرض ہے جو لوگوں میں کثرت کے ساتھ پھیلتا جارہا ہے ،اور اس کی وجہ بہت سے افراد لقمہ اجل بھی بنے ہیں ،لہذا *کورونا وائرس* اگر کوئی مسلمان لقمہ اجل بنتا ہے وہ شہادت کے مرتبہ پر فائز ہوگا اور شہید کہلاۓ گا لیکن واضح رہے کہ وہ شہید حکمی ہوگا ،حقیقی نہیں جیسا کہ بعض زعم فاسد رکھنے والوں نے سمجھا ہے ،لہذا اس کو غسل بھی دیا جاے گا اور کفن دفن بھی ہوگا ۔
کیوں کہ مسلمان میت کو غسل دینا فرض کفایہ ہے ،اگر قدرت کے باوجود اس کو غسل نہ دیا گیا تو یہ گناہ ہے ،لہذا جہاں جہاں مسلمانوں کے لیے ممکن ہے ممانعت نہیں ہے وہاں غسل دینا لازمی ہے ،لیکن کورونا وائرس سے فوت ہونے والے کو نہ پانی سے غسل دینے کی اجازت ہے اور نہ تیمم کرانے کی تو حکم شرع یہ ہے دفنانے کے بعد اس کی قبر پر فوری طور نماز جنازہ ادا کرلی جاۓ اور اگر اتنی تاخیر کردی گئی جس سے ظن غالب ہوگیا کہ اس کی لاش سلامت ن رہی ہوگی تو اب اس کی قبر پر بھی نماز جنازہ نہیں پڑھ سکتے ۔
*کورونا وائرس* سے فوت ہونے کو جب غسل دینا مسلمانوں کے لیے بظاہر ممکن نہیں تو بقایا فرائض کو نہیں چھوڑا جاۓ گا ، 
 *کفن ضرورت* امید ہے کہ اسے ہسپتال ہی کی طرف سے دے دیا جاتا ہوگا اور وہ ایک کپڑا ہے جس سے جسم چھپ جاۓ ،تدفین کا فریضہ بھی اس کا ادا‌کیا جاۓگا اور نماز جنازہ اس کی قبر پر پڑھ اس فرض کو بھی پورا کیا جاۓ گا ۔
نماز جنازہ صحیح ہونے کے لیے ایک شرط یہ بھی ہے کہ میت کو غسل دیا جا چکا ہو ،البتہ جب غسل متعذر ہوجاۓ ،تو غسل ساقط ہوجاتا ہے ،فقہاء کرام نے اس کی مثال یہ بیان فرمائی ہے : کہ میت کو دفنا دیا گیا ہو اور اس پر مٹی ڈال دی‌گئی ہو ،چونکہ اب نعش قبر جائز نہیں، تو میت اس حال کو پہونچ گئی کہ اس کو غسل دینا متعذر ہوگیا اب اس کی قبر پر ہی اس‌کی نماز جنازہ ادا کی جاۓ گی۔
تبیین الحقائق میں ہے *وشرطہا اسلام‌المیت وطہارتہ مادام الغسل ممکنا وان لم یمکن بان دفن قبل الغسل ولم یمکن اخراجہ الا بالنبش تجوز الصلاۃ علی قبرہ للضرورۃ ، ولو صلی علیہ قبل الغسل ثم‌دفن تعاد الصلاۃ لفساد الأولی*
(تبیین الحقائق ج ١ ص ٢٣٩)
اسی طرح 
فتاوی والوالجیہ میں ہے 
*اذا دفن قبل ان یغسل یصلی علی قبرہ لانہ صار بحال تعذر غسلہ*
 (فتاوی والوالجیہ ج١ ص ١٥٥)
درر الاحکام شرح غرر الاحکام میں ہے :
*وان دفن بلا صلاۃ صلی علی قبرہ مالم یظن تفسخہ والمعتبر فیہ اکبر الرای علی الصحیح لانہ یختلف باختلاف الزمان والمکان والاشخاص*
اسی پر حاشیہ شرنبلالی میں ہے :
*أی بان اھیل علیہ التراب سواء غسل أو لا لانہ مسلما لمالکہ تعالی ، وخرج عن ایدینا فلا یتعرض لہ بعد ذالک لزوال امکان غسلہ أی شرعا ، فتجوز الصلاۃ علیہ بلا غسل نظرا لکونہا دعاء من وجہ ھنا للعجز بخلاف ما اذا لم یھل فانہ یخرج و یغسل ویصلی علیہ کما فی الفتح*
(غنیۃ ذوی الاحکام ج ١ ص ١٦٥)
تنویر الابصار مع در مختار میں ہے : 
*(وشرطہا) ستۃ (اسلام المیت وطہارتہ) مالم یھل علیہ التراب فیصلی علی قبرہ بلا غسل وان صلی علیہ او استحسانا*
علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : 
*(قولہ مالم یھل علیہ تراب)اما لو دفن بلا غسل ولم یھل علیہ التراب فانہ یخرج ویغسل ویصلی علیہ*
مزید فرماتے ہیں : 
*(قولہ فیصلی علی قبرہ بلا غسل)ای قبل ان یتفسخ کما سیاتی عند قول المصنف وان دفن بلا صلاۃ .ھذا وذکر فی البحر ھناک ان الصلاۃ علیہ اذا دفن بلاغسل روایۃ ابن سماعۃ عن محمد ، وأنہ صحح فی غایۃ البیان معزیا الی القدوری وصاحب التحفۃ انہ لا یصلی علی قبرہ لانہا بلاغسل غیر مشروعۃ رملی ویاتی تمام الکلام علیہ*
  *قولہ (وان صلی علیہ اولا ) ای تذکروا انہ دفن بلا غسل (استحسانا)لان تلک الصلاۃ لم یعتد بہا لترک الطہارۃ مع الامکان والآن زال الامکان وسقطت فریضۃ الغسل*
(الدر المختار مع ردالمحتار ج ٢ ص ٢٠٧,٢٠٨)
روز روشن سے بہی زیادہ وضاح دلائل ہونے کے باوجود ڈاکٹر شمیم منعمی اور مفتی نعمت اللہ کا یہ کہنا کہ کورونا وائرس سے انتقال کرنے والے کو بغیر غسل و کفن کے دفن کردیا جاۓ حق سے بہت دور اور شہید حقیقی اور حکمی کے احکام سے نا واقفیت ہے ۔
جب کہ کسی بھی محدث ،محقق، عالم ،فقیہ اور مفتی نے یہ قول نہیں کیا ہے کہ شہید حکمی کو بھی بغیر غسل و کفن دفن کردیا جاۓ ۔
ڈاکٹر شمیم منعمی اور مفتی نعمت اللہ سے گزارش ہے کہ اگر انہوں نے متذکرہ بالا حکم اگر کسی فقیہ کے قول یا فقہ کی کسی معتبر کتاب سے دیا ہے تو اس کا حوالہ پیش کریں ،لیکن میں کہہ دیتاہوں کہ وہ کسی بھی معتبر کتاب کا حوالہ پیش نہیں کرسکتے ،لہذا انہیں توبہ کرنا چاہیے اور متون و شروح مثلا مرقاۃ المفاتیح ، درمختار ،بحر الرائق اور الاصل وغیرہ کتب معتبرہ و مستندہ کا مطالعہ کرنا چاہیے۔
*نوٹ* : *کسی بھی مسلمان میت کو شریعت اسلامیہ کی رو سے جلانا قطعا جائز نہیں ہے*

احتشام الحق رضوی مصباحی ردولی شریف

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے