تاریخ میں کب کب وباء کی بنا پر مساجد بند کرنا پڑھی

تاریخ میں کب کب وباء کی بنا پر مساجد بند کرنا پڑھی ۔۔

موجودہ حالات میں بعض لوگوں کے مختلف دعاوی میں سے ایک یہ بھی کہ اسلام کی تاریخ میں کبھی مساجد کو بند نہیں کیا گیا۔ ان کی خدمت میں عرض ہے کہ:

۱۔ ابن الجوزی ٤٤٩ھجری کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں: " جمادی الآخر میں ان شہروں (اندلس، آذربائیجان، کوفۃ وغیرہ) میں ایسی خطرناک وباء پھیلی کہ ایک صوبہ سے ایک ہی دن میں اٹھارہ ہزار جنازے اٹھائے گئے۔ لوگ شہروں میں جاتے تھے تو مارکیٹیں بند ہوتی تھیں، راستے خالی ہوتے تھے، دروازے بند ہوتے تھے اور اکثر مساجد جماعتوں سے خالی ہو گئی تھیں"{المنتظم: ١٧/١٦-١٨}

۲۔ ذہبی نے ٤٤٨ھجری کا ذکر کرتے ہوئے کہا:"مصر اور اندلس میں شدید قحط پڑ گیا۔ ایسا قحط اور وباء قرطبہ میں پہلے کبھی نہیں ہوا تھا، حتی کہ مساجد کو تالے لگ گئے کہ کوئی نماز پڑھنے والا نہ تھا اور اس سال کا نام جوع الکبیر کا سال پڑ گیا"{سير اعلام النبلاء: ٣١١/١٨}

۳۔ مقریزی نے ٧٤٩ھجری میں مصر میں طاعون کی وباء کا ذکر کیا اور کہا: " کئی جگہوں سے اذان بھی معطل ہو گئی، صرف ایک مشہور جگہ اذان دی جانے لگی، اور اکثر مساجد اور عبادت گاہیں بند کر دی گئیں"{السلوك لمعرفة دول الملوك: ٨٨/٤}

۴۔ ابن حجر عسقلانی نے کہا:" ٨٢٧ ھجری کے اوائل میں مکہ میں ایک بڑی وباء پھیلی جس سے ایک ایک دن میں چالیس چالیس اموات ہونے لگیں، حتی کے ربیع الاول تک سات لاکھ لوگ لقمہ اجل بن گئے، یہ کہا جاتا ہے کہ ان ایام میں مکہ کے امام کے ساتھ صرف دو آدمی نماز پڑھنے والے ہوتے تھے۔ باقی ائمہ نے نمازی نہ ہونے کے باعث اپنی جماعت ختم کر دی تھی"{انباء الغمر٣٢٦/٣}

سید حسنی الحلبی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے