کیا جمعہ و عیدین کی جو شرطیں احناف بیان کرتے ہیں وہ کہیں سے ثابت نہیں؟

کیا جمعہ و عیدین کی جو شرطیں احناف بیان کرتے ہیں وہ کہیں سے ثابت نہیں؟

(( دوسری قسط ))

تحریر : نثار مصباحی 
رکن : روشن مستقبل 

مذہبِ حنفی میں جمعہ و عیدین کی ساری شرطیں ایک جیسی ہیں سواے خطبے کے. کہ خطبہ جمعہ میں شرط ہے مگر عیدین میں سنت ہے.(بہارِ شریعت ودیگر کتب). اسی لیے جمعہ میں خطبہ نمازِ جمعہ سے پہلے پڑھا جاتا ہے کیوں کہ شرط کا پہلے پایا جانا ضروری ہے.

حنفی مذہب میں جمعہ و عیدین کی اِنہی شرطوں میں سے ایک شرط *"عام اجازت"* بھی ہے, جسے "اذنِ عام" سے تعبیر کیا جاتا ہے. مذہبِ حنفی کے متون جو نقلِ مذہب کے لیے وضع کیے گئے ہیں اُن میں یہ شرط مذکور ہے.
"اِذنِ عام" کا مطلب ہے کہ جمعہ و عیدین قائم کرنے والوں کی طرف سے اِن نمازوں کی اہلیت رکھنے والے تمام افراد کے لیے نماز میں شامل ہونے کی عام اجازت ہو.
المحیط البرہانی میں ہے:
"الشرط السادس: الإذن العام، وهو أن يفتح أبواب الجامع/المساجد ويؤذن للناس كافة، حتي إن جماعة لواجتمعوا في الجامع و أغلقوا أبواب المسجد على أنفسهم وجمعوا، لم يجزهم."
"چھٹی شرط اذنِ عام ہے. اس کا مطلب ہے کہ مسجدوں کے دروازے کھول دیے جائیں اور سارے لوگوں کو اجازت رہے.
لہذا اگر کوئی جماعت جامع مسجد میں اکٹھا ہوئی اور مسجد کے دروازے اپنی طرف بند کرلیے اور جمعہ پڑھا تو ان کا جمعہ نہیں ہوگا." (کیوں کہ یہ جمعہ اذنِ عام کی شرط کے بغیر ہوا, اور شرط کے بغیر شے کا وجود نہیں ہو سکتا.)
اس شرط کو کچھ فقہاے احناف نے "اشتہار" اور "عموم" جیسے الفاظ سے بھی تعبیر کیا ہے. (کیوں کہ اذنِ عام اور اشتہار میں تلازم ہے.) اس سے اُن کی مراد یہی "اذنِ عام" ہے. یعنی نماز اعلانیہ ہو اور اس میں شرکت سے کسی اہلیت رکھنے والے مسلمان کو روکا نہ جائے. (رد المحتار)

واضح رہے کہ ہم اس تحریر میں اذنِ عام کے شرط ہونے کے دلائل پیش کریں گے, اس سے متعلق دوسرے فقہی مسائل پر گفتگو ہمارا مطمحِ نظر نہیں. اگر اس شرط کے تمام جزئیات اور مسائل کی تفصیل جاننا ہو تو عزیز گرامی مولانا فیضان سرور مصباحی -سلمہ ربہ- کی تازہ کتاب "اذن عام__چند اصولی مباحث" ملاحظہ فرمائیں.

اس شرط کو سمجھنے سے پہلے دو متفق علیہ باتیں ذہن میں رکھنا ضروری ہیں :
- "جمعہ و عیدین" اسلام کے اہم ترین شعار اور ہمارے دین کے خصائص وامتیازات میں سے ہیں. جن سے شوکتِ اسلام کا اعلان و اِظہار ہوتا ہے.
- شعارِ اسلام اور خصائصِ دین کا قیام "علی سبیل الاشتہار" یعنی اعلانیہ اور بےروک ٹوک ہوتا ہے, خفیہ اور روک کر نہیں.

اب اس شرط کی دلیلوں کی طرف بڑھتے ہیں:
1- *جمعہ و عیدین عظیم الشان شعائرِ دین ہیں اور ان کے قیام کا مقصد شعائرِ دین کا اظہار و اعلان ہے, اس لیے ان کا قیام اعلانیہ اور بےروک ٹوک ہی کرنا لازم ہے. ورنہ اِن کا مقصد ہی فوت ہو جائے گا.*. 
حافظ ابن رجب حنبلی (متوفی 795ھ) فتح الباری شرح بخاری میں بعض ائمۂ شافعیہ کے حوالے سے لکھتے ہیں:
*"الجمعۃ انما یقصد باقامتہا إظهار شعار الإسلام،.....ولهذا لا يقام في السجن،....ولايعلم في ذلك خلاف بين العلماء"*
یعنی جمعہ قائم کرنے کا مقصد شعارِ اسلام کا اظہار واعلان ہی ہے....اسی لیے قیدخانوں کے اندر (بند دروازوں میں) اسے قائم نہیں کیا جاسکتا....اور اس مسئلے میں علماے دین کا کوئی اختلاف بھی معلوم نہیں.(یعنی سب متفق ہیں).
اب اگر جمعہ و عیدین اس طرح قائم کیے جائیں کہ شعارِ اسلام کا اظہار و اعلان ہی نہ ہو تو مقصد کے منافی ہونے کی وجہ سے یہ قائم کرنا ہی صحیح نہیں ہوگا. یہی وجہ ہے کہ قیدخانوں کے اندر باتفاقِ علما جمعہ و عیدین کا قیام درست نہیں.
اسی لیے ائمۂ احناف نے "اذنِ عام" کو اقامتِ جمعہ و عیدین کے لیے شرط قرار دیا ہے.
فتح باب العنایہ میں ملا علی قاری فرماتے ہیں :
و شُرط لأدائها الإذنُ العام، لأنها من شعائر الإسلام فيجب إقامتها على وجه الاشتهار بين الأنام.
"اداے جمعہ کے لیے اذنِ عام شرط ہے, کیوں کہ یہ اسلام کے شعائر میں سے ہے لہذا لوگوں کے درمیان علی الاعلان اسے قائم کرنا لازم ہے."
تبیین الحقائق میں ہے:
"والإذن العام من شرط أدائها....... لأنها من شعائر الاسلام و خصائص الدین فتجب اقامتہا علی سبیل الاشتہار."
اس قسم کی درجنوں عبارات ہیں. 
حاصل یہ کہ جمعہ و عیدین اسلام کے عظیم ترین شعار میں سے ہیں, جن سے شوکتِ اسلامی کا اظہار ہوتا ہے. اور شعار کا انعقاد اعلانیہ (کھلم کھلا) اور بےروک ٹوک ہوتا ہے, بند کمروں میں نہیں. اس لیے ان میں شرکت سے کسی مسلمان کو روکا نہیں جا سکتا اور انھیں خفیہ طور پر یا گھروں اور بند کمروں کے اندر ادا نہیں کیا جا سکتا. یہی وجہ ہے کہ اگر سلطانِ اسلام جس کے پاس شرعاً جمعہ و عیدین قائم کرنے کا اصل اختیار ہوتا ہے اگر وہ بھی اپنے محل کا دروازہ بند کرکے جمعہ قائم کرے تو اس کا بھی جمعہ نہیں ہوگا. (بدائع, وغیرہ متعدد کتبِ فقہ)
ائمۂ کرام سلطان والے اس مسئلے کی ایک حکمت بھی بیان فرماتے ہیں کہ یہ مسئلہ عوام و حُکام کے درمیان دینی امور میں اعتدال اور ایک دوسرے کی طرف محتاجی کو بتاتا ہے. جس طرح عوام کے جمعہ و عیدین سلطان (یا اس کے قائم مقام) کے بغیر منعقد نہیں ہو سکتے اسی طرح سلطان کا جمعہ بھی عوام کے بغیر قائم نہیں ہوسکتا. !!

2- قرآن کریم کا ہر کلمہ اپنے اندر معانی کا ایک جہان رکھتا ہے. اس کے کلمات و حروف میں تدبر سے معانیِ قرآن کے نئے دروازے کھلتے ہیں.
سبھی جانتے ہیں کہ جمعہ کوئی عام نماز نہیں, بلکہ اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک یہ نہایت مہتم بالشان نماز ہے. یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں "أقیموا الجمعۃ" کہنے کے بجاے نہایت منفرد انداز میں نمازِ جمعہ کا حکم دیا گیا ہے.
اللہ عزوجل فرماتا ہے:
یَـٰۤأَیُّهَا ٱلَّذِینَ ءَامَنُوۤا۟ إِذَا نُودِیَ لِلصَّلَوٰةِ مِن یَوۡمِ ٱلۡجُمُعَةِ فَٱسۡعَوۡا۟ إِلَىٰ ذِكۡرِ ٱللَّهِ وَذَرُوا۟ ٱلۡبَیۡعَۚ ذَ ٰ⁠لِكُمۡ خَیۡرࣱ لَّكُمۡ إِن كُنتُمۡ تَعۡلَمُونَ
[سورة الجمعة : 9]
اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن نماز کے لیے اذان دی جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو۔ اگر تم جانو تو یہ تمہارے لیے بہتر ہے.
پہلے تمام اہلِ ایمان کو مخاطب کیا گیا. پھر کہا گیا کہ *جب جمعہ کے دن نماز کے لیے بلایا جائے*. یعنی اعلان و اشتہار ہو. *تو ذکرِ الہی کے لیے دوڑو*. ((مفسرین کے نزدیک اس آیت میں ذکر اللہ سے مراد خطبہ ہے یا نماز و خطبہ دونوں.))
اس آیت ((إِذَا نُودِیَ لِلصَّلَوٰةِ مِن یَوۡمِ ٱلۡجُمُعَةِ فَٱسۡعَوۡا۟ إِلَىٰ ذِكۡرِ ٱللَّهِ)) میں اللہ عزوجل نے تمام مومنوں سے خطاب فرماتے ہوئے نمازِ جمعہ کے لیے ندا (اذان) کو مشروع فرمایا اور ندا سننے کے بعد اُن پر "سعی الی ذکراللہ" لازم فرما دی ہے. یہ نمازِ جمعہ کی اہلیت رکھنے والے تمام لوگوں کے لیے من جانب اللہ 'اذنِ عام' کی مشروعیت ہے. کیوں کہ ندا اشتہار(اذنِ عام) ہی کے لیے ہے. اب اگر کچھ لوگوں کو اجازت ہو اور کچھ کو نہ ہو تو اس اذنِ عام اور اشتہار کو لغو کرنا لازم آئے گا. اور آیت کے مشروع کردہ "اذنِ عام" کو لغو کرنے کا حق کسی کو نہیں. اسی لیے فقہاے احناف نے اس آیتِ کریمہ کے ذریعے "اذنِ عام" (عام اجازت) کو نمازِ جمعہ کی ادائگی کے لیے شرط قرار دیا ہے.
(بدائع الصنائع, رد المحتار)

3- تحقیق سے ثابت ہے کہ جمعہ کی فرضیت مکہ ہی میں ہجرت سے قبل آ گئی تھی. متعدد فقہا و محدثین نے اس کی صراحت کی ہے. 
- حافظ ابن رجب حنبلی فتح الباری میں لکھتے ہیں:
*"وکان قد فرضت علیہ الجمعۃ بمکۃ"*
- فقہِ حنبلی کی مستند کتاب "کشاف القناع علی متن الاقناع" میں ہے:
*"صلاة الجمعة ( أفضل من الظهر ) بلا نزاع -قاله في الإنصاف- *(وفرضت بمكة قبل الهجرة.)*
(كشاف القناع عن متن الإقناع، كتاب الصلاة، باب الجمعة)
"نمازِ جمعہ, ظہر سے افضل ہے. اس میں کسی کا اختلاف نہیں. اور یہ ہجرت سے پہلے مکہ میں فرض ہوئی."
- فقہِ شافعی کی معروف و مستند کتاب *"تحفۃ المحتاج بشرح المنہاج" میں امام ابن حجر مکی فرماتے ہیں:
*وفرضت بمكة ولم تقم بها لفقد العدد، أو لأن شعارها الإظهار.*
جمعہ کی نماز مکے میں فرض ہوئی. لیکن وہاں قائم نہ ہو سکی, تعداد نہ ہونے کی وجہ سے, یا اس لیے کہ اس کا شعار اعلان و اظہار ہے (اور وہاں مشرکین کی ایذا رسانیوں کی وجہ سے اعلان و اشتہار کے ساتھ قیام ممکن نہیں تھا.)
نوٹ : شافعیہ کے نزدیک جمعہ کے لیے 40 افراد کی تعداد شرط ہے, اس لیے انھوں نے یہ احتمال ذکر کیا کہ شاید تعداد پوری نہ ہونے کی وجہ سے مکے میں جمعہ قائم نہیں ہوا, مگر یہ احتمال قوی نہیں کیوں کہ ہجرت سے پہلے مکے میں مسلمانوں کی تعداد اس سے بہر حال زیادہ تھی. اس لیے یہ طے ہے کہ وہاں جمعہ قائم نہ کرپانے کی وجہ یہ تھی کہ مشرکین جان جاتے تو ایذا رسانی کرتے, اس لیے اعلانِ عام کے ساتھ اسے قائم نہیں کیا جا سکتا تھا. 
اس سے پتہ چلا کہ جمعہ کے لیے اذنِ عام اور اشتہار شرط ہے. کیوں کہ اس وقت جمعہ کی باقی سبھی شرطیں پائی جاتی تھیں, صرف اذنِ عام اور اعلان و اشتہار ہی کی شرط نہیں تھی. اسی لیے جمعہ وہاں قائم نہیں ہوا. اگر یہ اعلان و اشتہار شرط نہ ہوتا تو دیگر نمازوں کی طرح اسے بھی گھروں کے اندر مکے میں قائم کرلیا جاتا, مگر فرض ہونے کے بعد اور باقی تمام شرائط کے باوجود مکے میں قائم نہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اعلانیہ اور بے روک ٹوک اسے قائم کرنا شرط ہے. 
محیطِ برہانی اور فتح باب العنایہ میں سلطانِ اسلام کے محل میں جمعہ کا حکم بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے:
"ان لم یفتح باب الدار و أغلق الأبواب وأجلس البوابين عليها ليمنعوا عن الدخول، لم تجزهم الجمعة، لأن اشتراط السلطان للتحرز عن تفويتها على الناس و لايحصل ذلك إلا بالإذن العام."
"اگر محل کا دروازہ کھلا نہ ہو, بند ہو, اور داخل ہونے سے روکنے کے لیے اس پر دربان بیٹھا دیے گئے ہوں تو بادشاہ اور اس کے ساتھیوں کا جمعہ صحیح نہیں. کیوں کہ جمعہ کے لیے سلطانِ اسلام کی شرط لوگوں کا جمعہ فوت ہونے سے بچانے کے لیے ہے, اور یہ تبھی ہوسکتا ہے جب کہ لوگوں کو اذنِ عام حاصل ہو."
((نوٹ : سلطان کی شرط پر گفتگو ان شاء اللہ اگلی قسط میں آئے گی.))

4- جمعہ کی ایک وجہِ تسمیہ یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کی متعدد جماعات کے جمع اور اکٹھا ہونے کی وجہ سے جمعہ کو "جمعہ" کہا جاتا ہے. اس لیے جمعہ کے جمعہ ہونے کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ جماعتِ مسلمین کے تمام افراد کو اس میں شرکت کا عام اِذن حاصل رہے. تاکہ اس اجتماع کے لیے "جمعہ" کا نام باقی رہے, اس لیے بھی جمعہ کے لیے اذنِ عام ضروری ہے. (اور عیدین جمعہ ہی کے حکم میں ہیں.) 
ورنہ ایک ہی قسم (مثلا ایک ہی گھر) کے چند لوگوں کا رہنا اور باقی کا نہ رہنا یہ جمع نہیں, تفریق ہے. اور یہ "جمعہ" کی حقیقت کے ہی خلاف ہے. 
(بدائع, رد المحتار وغیرہ کتبِ فقہ)

*حاصلِ کلام یہ کہ ائمۂ احناف نے قرآن کی آیت, اور جمعہ و عیدین کی شعارِ دین والی حیثیت وغیرہ کئی دلیلوں کے پیشِ نظر جمعہ کے لیے اذنِ عام کو شرط قرار دیا ہے.*

گزارش : جو لوگ مذہبِ حنفی کو مانتے ہیں اور یہ جانتے ہیں کہ جمعہ وعیدین اسلام کے عظیم ترین شعار اور دین کے خصائص و امتیازات میں سے ہیں, اور اس کے باوجود وہ گھروں, کمروں اور کوٹھریوں کے اندر چار چھ لوگوں کے ساتھ اسے قائم کرنا چاہتے ہیں اُن سے گزارش ہے کہ خدا را اسلام کے اِن عظیم شعاروں کی صورت مسخ نہ کریں. یہ جیسے ہیں انھیں ویسا ہی رہنے دیں. دین کے اِن عظیم ستونوں کو ڈھانے کی کوشش نہ کریں. 
علاوہ ازیں ملک کے حالات پر بھی نظر رکھیں. کل کو آپ کا یہی عمل مخالفینِ اسلام کی دلیل بن سکتا ہے کہ عیدین و جمعہ کا اعلانیہ قیام اسلام کا لازمی جز نہیں ہے, ورنہ گھروں اور کمروں میں کیسے پڑھتے؟....آگے آپ لوگ خود سمجھ دار ہیں. 

نوٹ : غیرمقلدین جو حضرتِ انس رضی اللہ عنہ کے ایک عمل سے گھروں میں عید کی نماز پر استدلال کر رہے ہیں, ان کے اس استدلال اور اس جیسے دوسرے کمزور دلائل کی حقیقت جاننے کے لیے "روشن مستقبل" پیج پر ہمارے عزیز شاگرد مولانا فیضان سرور مصباحی Faizan Sarwar Misbahi کی تحریر ملاحظہ کریں.
اور گھروں میں جمعہ وعیدین کیوں نہیں ہوسکتے اس کے لیے مفتی خالد ایوب مصباحی (جے پور) کا یہ ویڈیو ملاحظہ فرمائیں :
مفتی خالد ایوب مصباحی کے ویڈیو کا لنک :
https://youtu.be/30sRSMllTA4

((جاری)) 

#نثارمصباحی
30رمضان1441ھ

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے