لاک ڈاؤن کرفیو کی وجہ سے تراویح میں مسجد کے پڑوسیوں کا اپنے اپنے گھروں سے امام مسجد کی اقتدا کرنا کیسا؟

*✍️لاک ڈاؤن کرفیو کی وجہ سے تراویح میں مسجد کے پڑوسیوں کا اپنے اپنے گھروں سے امام مسجد کی اقتدا کرنا کیسا؟✍️*

☀☀☀☀☀☀☀☀☀☀☀

کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل میں کہ اگر نماز تراویح لاؤڈ اسپیکر سے ادا کی جائے تو لاک ڈاؤن کے مد نظر مسجد کے بغلگیر افراد اپنے گھروں میں امام مسجد کی اقتداء میں نماز تراویح ادا کر سکتے ہیں یا نہیں؟بینوا توجروا.
المستفتی .سید فیض امام سکریٹری جامع مسجد منیر شریف.پٹنہ.بہار

☀☀☀☀☀☀☀☀☀☀☀

➖➖➖➖ *الجواب* ➖➖➖➖
صحت اقتدا کی شرطوں  میں سے ایک شرط امام و مقتدی دونوں کا ایک مکان میں ہونا بھی ہے( خواہ یہ اتحاد مکان حقیقی ہو یا حکمی ، حقیقی کی مثال یہ ہے امام و مقتدی دونوں ایک ہی مسجد یا گھر میں ہوں اور حکمی کی مثال یہ ہے کہ امام و مقتدی دونوں الگ الگ مقام پر ہوں لیکن ان کی صفیں متصل ہوں درمیان میں دو صف کی مقدار جگہ خالی نہ ہو) ۔ اگر ان میں سے ایک شرط بھی مفقود ہو تو اقتدا درست نہیں۔
علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تحریر فرماتے ہیں!
*الصغریٰ ربط صلوٰۃ المؤتم بالامام بشروط عشرة نية المؤتم الاقتداء ، واتحاد مكانهما و صلوٰتھما ۔ ( قوله اتحاد مكانهما) فلو اقتدی راجل براکب او بالعکس او راکب براکب دابة اخرى لم يصح لاختلاف المكان فلو كانا على دابة واحدة صح لاتحاده كما فى الشامية*-
*ترجمہ*- صغری میں ہے کہ مقتدی کی نماز کا امام کے ساتھ ربط کی دس شرطیں ہیں ، اقتدا کی نیت کرنا ، امام اور مقتدی دونوں کے مکان اور نماز کا ایک ہونا۔۔۔۔۔(ماتن کا قول ان دونوں یعنی امام و مقتدی کے مکان کا متحد ہونا) اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر سوار نے پیدل کی یا پیدل نے سوار کی اقتدا کی یا امام و مقتدی دونوں دو الگ الگ سواریوں پر ہیں تو اقتدا صحیح نہیں اس لئے کہ دونوں کے مکان مختلف ہیں۔ اور اگر دونوں ایک ہی سواری پر ہیں تو پیچھے والے کا آگے والے کی اقتدا کرنا صحیح ہے اس لئے کہ دونوں کے مکان متحد ہیں۔
((📒فتاویٰ شامی ج ١ ص ٥٤٩/٥٥٠)) 
ہاں اگر کسی کا گھر مسجد کی چھت سے بالکل متصل ہو بیچ میں راستہ نہ ہو اور امام کا حال اس سے مشتبہ بھی نہ ہو تو اقتدا کر سکتا ہے جب کہ اور دیگر شراںٔط اقتدا بھی پاۓ جاںٔیں ورنہ اقتدا درست نہیں-
فتاویٰ عالمگیری میں ہے!
*و یجوز اقتداء جار المسجد بامام المسجد و ھو فی بیته اذا لم يكن بينه و بين المسجد طريق عام و ان كان طريق عام و لكن سدته الصفوف جاز الاقتداء لمن فى بيته بامام المسجد*- 
*ترجمہ*- مسجد کے پڑوسی کا اپنے گھر  سے امام مسجد  کی اقتداء کرنا جائز ہے جب کہ اس کے اور مسجد کے درمیان عام راستہ نہ ہو اور اگر عام راستہ ہو مگر اس کو صفوں سے بند کر دیا گیا ہے تو بھی اقتدا جاںٔز و درست ہے۔
((📒فتاویٰ عالمگیری ج ١ ص ٨٨))
صورت مسئولہ میں اگر مسجد کے پڑوسیوں کے گھر مسجد سے بالکل متصل ہیں درمیان میں ایک بیل گاڑی گزرنے کے برابر یا دو صف لگنے کی مقدار (آٹھ فٹ۔ت) جگہ بھی خالی نہیں ہے تو ان لوگوں کا اپنے گھر سے امام مسجد کی اقتدا کرنا جائز و درست ہے ورنہ نہیں۔ اور تجربہ شاہد ہے بہت کم ایسے مکانات ہوتے ہیں جس میں اتحاد مکانی حقیقتاً یا حکما پاۓ جاںٔیں۔ اکثر مکانات ایسے بنے ہوتے ہیں جس  میں کسی بھی اعتبار سے اتحاد مکانی نہیں پاۓ جاتے فلہذا ان گھروں سے امام مسجد کی اقتدا کرنا ہرگز ہرگز جاںٔز نہیں۔
واضح رہے کہ لاؤڈ اسپیکر پر نماز کا مسںٔلہ علماء حقہ کے مابین مختلف فیہ ہے اس لئے اختلاف و انتشار سے بچنے کے لئے لاؤڈ اسپیکر کے ساتھ مکبر کا بھی انتظام ہو ۔ محض لاؤڈ اسپیکر کے استعمال سے کںٔی مفاسد در پیش ہونے کے امکانات ہیں۔ اس لئے صرف لاؤڈ اسپیکر کے استعمال سے بچنا چاہئے۔ والله تعالیٰ اعلم بالصواب۔

☀☀☀☀☀☀☀☀☀☀☀

*کتبہ ۔ رضوان احمد مصباحی رامگڑھ۔*
📱9576545941=
*منجانب ـ رضوی دارالافتاء۔*

☀☀☀
Follow this link to join my WhatsApp group: https://chat.whatsapp.com/LRQpmH2EDhLDzssROlpPaK
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
ہندوستان سے باہر کے افراد اس گروپ میں شامل نہ ہوں۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے