عالم اور عام سید میں افضل کون؟
سرکار اعلی حضرات شیخین کریمین پر حضرات حسنین کریمین کو فضیلت دینے والے شخص کے متعلق جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں *اگر وہ یہ کہتا کہ حضرات حسنین کریمین رضی اللہ تعالئ عنہما بوجہ جزئیت(نسبی رشتے) کریمہ ایک فضل جزئی حضرات عالیہ خلفائے اربعہ رضی اللہ تعالی عنہم پر رکھتے ہیں اور مرتبہ حضرات خلفاء کا اعظم واعلی ہے تو حق تھا مگر اس نے اپنی جہالت سے فضل کلی سبطین کو دیا اور افضل البشر بعد الانبیاء ابو بکر صدیق کو عام مخصوص منہ البعض ٹھہرایا اور انہیں امیرالمومنین مولی علی سے افضل کہا یہ سب باطل اور خلاف اہل سنت ہے اس عقیدہ باطلہ سے توبہ فرض ہے ورنہ وہ سنی نہیں* اور اس کی دلیل محض مردود و ذلیل،اگر جزئیت موجب افضلیت مرتبہ عنداللہ ہو تو لازم کہ آج کل کے بھی سارے میر صاحب (سادات) اگرچہ کیسے ہی فسق و فجور میں مبتلا ہوں اللہ عزوجل کے نزدیک امیرالمومنین مولیٰ علی سے افضل واعلی ہوں اور یہ نہ کہے گا مگر جاہل اجہل مجنون يا ضال مضل مفتون.
پھر قرآن سے دلیل رقم کرتے ہیں "قل ھل یستوی الذین یعلمون والذین لايعلمون" ترجمہ:تم فرمادو کیا برابر ہو جائیں گے عالم اور بے علم اور فرماتا ہے"یرفع اللہ الذین آمنوا منکم والذین اوتوا العلم درجات" ترجمہ :اللہ بلند فرمائے گا تم میں سے مومنوں اور بالخصوص عالموں کے درجے- *تو اللہ کے نزدیک فضلِ علم فضلِ نسب سے اشرف و اعظم ہے (یعنی نسبی فضیلت کم ہے علمی فضیلت سے) یہ میر صاحب(سادات) کے عالم نہ ہوں اگرچہ صالح ہوں آجکل کے عالم سنی صحیح العقیدہ کے مرتبہ کو شرعاً نہیں پہنچتے نہ کہ ائمہ نہ کہ صحابہ نہ کہ مولی علی نہ کہ صدیق و فاروق*( رضی اللہ تعالی عنہ اجمعین)
تنویرالابصار اور درمختار میں ہے*نوجوان عالم کو بوڑھے جاھل پر تقدم کا حق حاصل ہے اگرچہ وہ (جاھل) قرشی ہو. اللہ تعالی نے فرمایا: اللہ تعالی ان کے درجات بلند فرمائے گا چونکہ بلندی عطا فرمانے والا اللہ تعالی ہے لہذا جو اس کو (عالم) گھٹایے گا اللہ تعالی اس کو جہنم میں ڈالے گا*
امام فخر الدین رملی فتاویٰ خیریہ میں فرماتے ہیں *جاھل کا قرشی(قریشی) ہونا عالم پر اس کے تقدم کو مباح نہیں کرتا یعنی عالم پر فضیلت نہیں رکھتا، کیونکہ علم کی کتابیں عالم کے قرشی پر تقدم (فضیلت) کے حق سے بھری پڑی ہیں اور اللہ سبحانہ نے قرشی و غیر قرشی کے درمیان اپنے اس ارشاد میں کوئی فرق نہیں فرمایا کہ" کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر ہو سکتے ہیں*
قرشی غیر عالم پر عالم کو فضیلت حاصل ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ *نبی کریم صلی اللہ وسلم کے سسر آپ کے دامادوں پر مقدم ہیں حالانکہ نسب کے اعتبار سے داماد بنسبت سسر کے اقرب ہوتا ہے*
اور اسی لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سردارئ حضرات سبطین کریمین کو حفظ تعمیم کے لیے جوانان اہل جنت سے خاص فرمایا کہ *حسن حسین رضی اللہ تعالی عنہما جنتی جوانوں کے سردار ہیں یعنی خلفاے اربعہ رضی اللہ تعالی عنہم اس میں شامل نہیں*اور متعدد صحیح حدیثوں میں اسی کے تتمہ میں فرمادیا کہ* ابوھما خیر منھما*حسن حسین جوانان اہل جنت کے سردار ہیں اور *ان کا باپ ان سے افضل ہے* اسی کو ابن ماجہ اور حاکم نے ابن عمر سے اور طبرانی نے معجم کبیر میں قرة بن إياس سے سند حسن کے ساتھ مالک بن حویرث وحاکم سے روایت کیا ہے اور ابن مسعود نے اس کی تصحیح کی ہے (رضی اللہ تعالی عنہم)
اور ارشاد ہوا *ابوبکر و عمر خیر الاولین والآخرين وخير اھل السموات وخیر اھل الارضین الا النبیببن والمرسلين. ابو بکر و عمر سب اگلوں پچھلوں سے افضل ہیں سب آسمان والوں اور سب زمین والوں سے افضل ہیں سوا انبیائے مرسلین کے* (فتاویٰ رضویہ ج ٢٩ ص ٢٧٤ تا ٢٧٦)
(علیہ الصلوۃ والتسلیم یم)
حضرات! آج کل بعض سادات علما کو اپنا خادم سمجھتے ہیں بلکہ ان کے ساتھ عامی سے بھی زیادہ برا سلوک کرتے ہیں سادات واجب التعظیم ہیں مگر علما بھی وارثین انبیا ہیں اس لیے ان کو حقیر سمجھنا، برا سلوک کرنا یہ بھی گناہ عظیم ہے بلکہ اگر بوجہ عالم توہین کی جاتی ہے تو ایمان بھی ہاتھ سے جائے گا.
محمد زاہد علی مرکزی (کالپی شریف) رکن :روشن مستقبل دہلی.
مورخہ ٣٠/ستمبر ٢٠١٩ ء
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں