ایک مسجد میں جمعہ کی دو جماعتیں

ایک مسجد میں جمعہ کی دو جماعتیں

باسمہ تعالیٰ وبحمدہ والصلوٰۃوالسلام علیٰ رسولہ الاعلی وآلہ
*سوال:* جس مسجدمیں جمعہ کی نماز کی اجازت ہے،اور وہاں نماز جمعہ اداکی جاتی ہے۔ اس مسجد کے امام متعین نے چند لوگوں کے ساتھ نماز جمعہ کسی حاجت کے سبب جلد ی ادا کرلی،پھر اصل وقت پر مقامی نمازی حضرات حاضرہوئے۔ ان حضرات نے کسی کو امام مقرر کرلیا،پھر اس امام کی اقتدا میں نماز جمعہ ادا کی تو نماز جمعہ ادا ہوگی یا نہیں؟کیا اس امام دوم کومقررکرنے اور نماز جمعہ کی دوسری جماعت قائم کرنے کے لیے خصوصی طورپر کسی قاضی کی اجازت ضروری ہے؟

*جواب:* جب اس مسجد میں نماز جمعہ ہوتی ہے اور کسی حاجت کے سبب امام مقررنے وقت مقررہ سے پہلے چندلوگوں کے ساتھ نماز جمعہ اداکرلی،پھر وقت مقررہ پر مقامی مسلمانوں کی جماعت حاضر ہوئی،ان لوگوں نے کسی کوامام مقررکرلیا اور نماز جمعہ ادا کرلی تو نماز جمعہ ادا ہوگئی۔ خاص کر اس دوسری جماعت کے لیے کسی قاضی کی اجازت کی ضرورت نہیں،کیوں کہ اس مسجد میں نماز جمعہ پہلے سے قائم ہے۔ 
قیام جمعہ کے لیے سلطان اسلام یا اس کے نائب کی اجازت ضروری ہے۔ اسی طرح سطان ونائب سلطان نہ ہوتو شہر کے سب سے بڑے فقیہ سنی صحیح العقیدہ عالم دین کی اجازت کی ضرورت ہے۔ بصورت مجبوری جماعت مسلمین کی اجازت بھی اذن سلطانی کے قائم مقام ہے۔مذکورہ صورت میں جماعت مسلمین کا کسی کوامام مقررکرکے نماز جمعہ ادا کر نا جائز ہے۔
اعلیٰ حضرت اما م احمد رضا قادری علیہ الرحمۃوالرضوان نے رقم فرمایا:”جہاں ماذون سلطان نہ باقی ہو، وہاں بضرورت اقامت شرائع،اجتماع مسلمین کوقائم مقام اذن سلطان قرار دیا ہے،یعنی مسلمان متفق ہوکر جسے امام جمعہ مقررکرلیں،وہ مثل امام ماذون من السلطان ہوجائے گا۔در مختار میں ہے۔ (نصب العامۃ الخطیب غیرمعتبر مع وجود من ذکر -اما مع عدمہم فیجوز للضرورۃ)اورشک نہیں کہ جو امر ضرورۃً جائز رکھا گیا،وہ حدضرورت سے تجاوز نہیں کرسکتا۔لما عرف من القاعدۃ المطردۃ الفقہیۃ-بل والعقلیۃ ان ما کان بضرورۃ فقدر فقدرہا۔
اور مسجد واحد کے لیے وقت واحد میں دو امام کی ہرگز ضرورت نہیں تو جب پہلا امام معین جمعہ ہے،دوسرا ضرور اس کی لیاقت سے دورو مہجور تواس کے پیچھے نماز جمعہ باطل ومحذور۔البتہ اگر امام معین نے براہ شرارت،خواہ اپنی کسی خاص حاجت کے سبب جلدی کی،اوروقت معہود سے پہلے معدودے چند کے ساتھ نماز پڑھ لی،عامہ جماعت مسلمین وقت معین پر حاضر ہوئی تو اب ظاہراً مقتضائے نظر فقہی یہ ہے کہ انہیں جائز ہو کہ دوسرے شخص کو باتفاق عام مسلمین امام مقر رکریں اور نماز جمعہ پڑھیں -لحصول الضرورۃ بالضرورۃ -ولم تندفع بما فعل الامام -بل لم یحصل من فعلہ ما کان نصبہ لہ -فما نصب الا للعامۃ -لا لعدۃ نفر کما لا یخفی ولیحرر:واللہ تعالیٰ اعلم“۔
(فتاویٰ رضویہ جلد سوم ص 708-رضا اکیڈمی ممبئ)
جب امام نے اپنی کسی خاص حاجت کے سبب وقت مقررہ سے قبل نماز جمعہ ادا کرلی تو بعد والی جماعت مسلمین کی نماز جمعہ ہوجائے گی۔اسی طرح اگر مسلمانوں کی کسی ضرورت کے سبب امام متعین نے وقت مقررہ سے قبل جمعہ اداکرلی تو بدرجہ اولیٰ دوسری جماعت صحیح ہے۔
صدرالشریعہ علیہ الرحمۃوالرضوان نے تحریر فرمایا:”کسی شہر میں بادشاہ اسلام وغیرہ جس کے حکم سے جمعہ قائم ہوتا ہے۔نہ ہوتو عام لوگ جسے چاہیں،امام بنادیں۔یوہیں اگر بادشاہ سے اجازت نہ لے سکتے ہوں،جب بھی کسی کو مقررکرسکتے ہیں۔(عالمگیری،در مختار)
(بہارشریعت حصہ چہارم ص 765-مجلس المدینۃ العلمیہ)
”جمعہ قائم کرنا بادشاہ اسلام یا اس کے نائب کا کام ہے۔اس کا بیان آگے آتا ہے،اور جہاں اسلامی سلطنت نہ ہو، وہاں جو سب سے بڑا فقیہ سنی صحیح العقیدہ ہو، احکام شرعیہ کے جاری کرنے میں سلطان اسلام کے قائم مقام ہے،لہٰذا وہی جمعہ قائم کرے۔بغیر اس کی اجازت کے نہیں ہوسکتا اوریہ بھی نہ ہوتو عام لوگ جس کوامام بنائیں۔عالم کے ہوتے ہوئے عوام بطور خود کسی کو امام نہیں بنا سکتے۔نہ یہ ہوسکتا ہے کہ دوچار شخص کسی کو امام مقررکرلیں۔ایسا جمعہ کہیں سے ثابت نہیں“۔(بہارشریعت حصہ چہارم ص 764-مجلس المدینۃ العلمیہ)
سوال: امام اور چند مقتدی مسجد کی نچلی منزل میں نماز ادا کریں اورچند نمازی مسجدکی اوپر والی منزل میں اسی امام کی اقتدامیں نماز اداکریں،جب کہ مسجد کی نچلی منزل میں جگہ باقی ہے تویہ تو یہ امر مکروہ تحریمی ہے یا مکروہ تنزیہی؟
جواب: امام اور چند مقتدی نچلی منزل میں ہیں اورمسجد کی نچلی منزل میں جگہ باقی رہتے ہوئے چند لوگ اوپر کی منزل میں اسی امام کی اقتدا میں نماز ادا کریں تو اوپر کی منزل کے مقتدیوں کی نماز مکروہ تنزیہی ہوگی۔
”صحن مسجد میں جگہ ہوتے ہوئے بالا خانہ پر اقتدا کرنا مکروہ ہے۔یوہیں صف میں جگہ ہوتے ہوئے صف کے پیچھے کھڑاہونا ممنوع ہے۔(درمختار)“۔(بہارشریعت حصہ سوم:جماعت کابیان ص633-مجلس المدینۃ العلمیہ)
امام حصفکی نے فرمایا:}ولو صلی علٰی رفوف المسجد،ان وجد فی صحنہ مکانًا،کرہ،کقیامہ فی صف خلف صف فیہ فرجۃ{(الدر المختار ج1ص614-دارالفکر بیروت) حاشیہ میں علامہ طحطاوی نے رقم فرمایا:}قولہ:کرہ:ای تنزیہًا لاستعلاۂ{(حاشیۃ الطحطاو ی علی الدرالمختار ج1ص 246:بولاق،مصر) 
علامہ طحطاوی نے صراحت فرمائی کہ اوپرکی منزل والوں کی نماز مکروہ تنزیہی ہوگی۔ نیچے جگہ رہتے ہوئے مسجد کی چھت پر نماز پڑھنا بھی مکر وہ تنزیہی ہے اور صف میں جگہ رہتے ہوئے صف کے پیچھے نماز پڑھنا بھی مکروہ تنزیہی ہے۔دونوں کا حکم ایک ہے۔
 صدرالشریعہ علیہ الرحمۃ والرضوان نے مکروہات نماز کے باب میں صف والے مسئلہ کو ان مسائل میں ذکر فرمایا جومکر وہ تنزیہی ہیں،یا جن میں راجح قول مکروہ تنزیہی ہے۔ (بہارشریعت حصہ سوم ص630-/633-مجلس المدینۃ العلمیہ)
بہارشریعت:حصہ سوم (مطبوعہ:مجلس المدینۃ العلمیہ)میں مکروہات نماز کے باب میں مسئلہ 35 سے مسئلہ 80تک مکروہات تنزیہیہ اور جن کا مکروہ تنزیہی ہونا راجح ہے،ان کا بیان ہے۔مسئلہ 51میں صف والے مسئلہ کا بیان ہے۔  
اعلیٰ حضرت امام احمدرضا قادری قدس سرہ العزیز نے بہارشریعت کے متعددحصوں کو ملاحظہ فرمایا ہے اور حصہ دوم،حصہ سوم وحصہ چہارم کے اخیرمیں اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃوالرضوان کی تقریظ بھی موجود ہے۔صدر الشریعہ علیہ الرحمہ نے حصہ ششم بھی اعلیٰ حضرت قدس سرہ القوی کو سنا دیا تھا۔
الحاصل مسجد کی نچلی منزل میں جگہ رہتے ہوئے مسجد کی چھت پر اقتدا کرنا،اسی طرح صف میں جگہ رہتے ہوئے صف کے پیچھے اقتدا کرنا مکروہ تنزیہی ہے:ہذا ماظہرلی -واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب

*طارق انور مصباحی* (کیرلا)   
*رکن: روشن مستقبل دہلی*
21:رمضان المبارک 1441مطابق15:مئی 2020=بروزجمعہ

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے