لوڈو، کیرم بورڈ اور شطرنج کا شرعی حکم

لوڈو، کیرم بورڈ اور شطرنج کا شرعی حکم

کیافرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ زید، عمر اور بکر تینوں لوڈو کھیلتے ہیں اور امامت بھی کرتے ہیں، کیا یہ امامت کے لائق ہیں؟  

سائل ۔۔۔محمد شاہ فرید.

 *الجواب بعون الملک العزیز الوھاب* 

زید، عمر اور بکر کا حکم جاننے سے پہلے لوڈو سے متعلق حکم شرعی جاننا ضروری ہے۔
لوڈو اور کیرم بورڈ وغیرہ یہ سب نئے کھیل ہیں جن کا صراحتا ذکر کتب فقہ میں نہیں ملتا مگر ہاں اسی قبیل کا ایک کھیل "شطرنج" ہے جو زمانہ قدیم سے چلا آیاہے اس کے احکام کتب احادیث وفقہ میں موجود ہیں۔ 
شطرنج اور لوڈو وغیرہ سب کے سب لغویات سے ہیں لھذا ان سب کے احکام بھی یکساں ہیں۔ 
اگر یہ کھیل ہار جیت کے طور پرجوئے کی شکل میں کھیلے جائیں تو بنص قطعی حرام ہیں۔ 

نتائج الافکار میں ہے: 
ان قامر بہ فالمیسر حرام بالنص وھو اسم لکل قمار
(نتائج الافکار،کتاب الکراہیۃ) 

اور اگر ہارجیت نہ ہو بلکہ صرف تفریح طبع کے لیے کھیلے جائیں تو اس بابت فقہاء کے دو اقوال ہیں۔ 

 *اول*
 ہر وہ کھیل بلاکراہت جائز ہے جس میں ذہنی یا جسمانی ورزش ہو اور شطرنج جیسے کھیل بھی اسی قبیل سے ہیں یہ موقف امام شافعی رحمۃ اللہ تعالی علیہ کا ہے اور ساتھ ہی امام ابو یوسف رحمۃ اللہ تعالی علیہ کی جانب بھی منسوب ہے۔ 
درمختار میں ہے: 
واباحہ الشافعی وابویوسف فی روایۃ
(درالمختار،کتاب الحظر والاباحۃ )

شرح الوھبانیۃ کے حوالے سے اسی میں ہے: 
ولاباس بالشطرنج وھی روایۃ 
عن الحبر قاضی الشرق والغرب توثر

مگر صحیح یہ ہے کہ بلاکراہت جواز کا انتساب امام ابو یوسف کی جانب درست نہیں کیونکہ ایک دوسری روایت امام ابو یوسف علیہ الرحمہ سے ہے جس میں اس بات کی صراحت ہے کہ شطرنج کھیلنے والے کو سلام کرنا مکروہ ہے۔

نتائج الافکار میں ہے: 
وکرہ ابویوسف ومحمد التسلیم علیھم تحذیرا لھم 
(فتح القدیر، الجزء العاشر، کتاب الکراہیۃ) 

عالمگیری میں ہے:
 وکرہ ذلک ابویوسف ومحمد رحمھمااللہ تحقیرا لھم، کذا فی الجامع الصغیر۔ 
(الفتاوی الھندیہ، المجلد الخامس، کتاب الکراہیۃ) 

یہ دونوں عبارتیں صاف بتاتی ہیں کہ امام ابو یوسف رحمۃ اللہ تعالی علیہ شطرنج کی کراہت کے قائل تھے ۔ہاں! امام شافعی کا مذہب مشہور اس کی عدم کراہت کا ہے۔

 *دوئم* 
دوسرا قول ہے شطرنج کی کراہت کا(یہاں کراہت سے مراد مکروہ تحریمی ہے) یہ قول جمہور احناف کا ہے ان کے نزدیک شطرنج دوسرے لایعنی کھیل کود ہی کی طرح مکروہ ہے۔ 

ھدایۃ میں ہے: 
ویکرہ اللعب بالشطرنج والنزد والاربعۃ عشر وکل لھو لانہ ان قامر بھا فالمیسر حرام بالنص وھو اسم لکل قمار وان لم یقامر بھا فھو عبث ولھو وقال علیہ السلام لھو المؤمن باطل الا الثلاث تادیبہ لفرسہ ومناضلتہ عن قوسہ ملاعبتہ مع اھلہ (ھدایۃ ،جلد4 ،کتاب الکراہیۃ )

عالمگیری میں ہے: 
ویکرہ اللعب بالشطرنج والنزد وثلاثۃ عشر، واربعۃ عشر وکل لھو ماسوی الشطرنج حرام بالاجماع واما عندنا الشطرنج فاللعب بہ حرام عندنا 
(الفتاوی الھندیہ، المجلد الخامس، کتاب الکراہیۃ) 

نتائج الافکار میں ہے: 
ویکرہ اللعب بالشطرنج والنرد والاربعۃ عشر وکل لھو لانہ ان قامر بھا فالمیسر حرام بالنص وھو اسم لکل قمار، وان لم یقامر فھو عبث ولھو
(نتائج الافکار،الجزء العاشر، کتاب الکراہیۃ )

مذکورہ بالا عبارتوں سے یہ بات بالکل واضح ہوگئی کہ شطرنج کھیلنا مکروہ تحریمی ہے لھذا یہی حکم لوڈو کا بھی ہوگا کیونکہ دونوں لغویات سے ہیں بلکہ شطرنج میں تو یکگونہ ذہنی ورزش کی گنجائش بھی ہے جو کہ لوڈو بھی کہیں سے کہیں تک نہیں، تضیع اوقات کے علاوہ اس کا کچھ حاصل نہیں ۔ 

علامہ ابن عابدین شامی علیہ الرحمہ شطرنج کی کراہت کی تعلیل کرتے ہوئے فرماتے ہیں: 

وانما کرہ لان من اشتغل بہ ذھب عناؤہ الدنیوی وجاؤہ عناء الاخروی فھو حرام وکبیرۃ عندنا، وفی اباحتہ اعانۃ الشیطان علی الاسلام والمسلمین کمافی الکافی قہستانی ۔ (ردالمحتار، الجزء التاسع، کتاب الحظر والاباحۃ )
یہ تمام باتیں لوڈو میں بھی بدرجہ اتم موجود ہیں۔ 

 مذکورہ گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ لوڈو میں اگر جوا نہ ہو، اس کی وجہ سے کوئی فرض یا واجب نہ چھوٹے، نیز اس کی عادت بھی نہ ہو تو اس کا کھیلنا مکروہ ہے ورنہ حرام ۔

شامی میں ہے: 
ھذا اذا لم یقامر ولم یداوم ولم یخل بواجب والا فحرام بالاجماع
(ردالمحتار،الجزء التاسع،کتاب الحظر والاباحۃ)

 پس اگر اس میں جوا شامل نہ ہو تو اس کے کھیلنے والے کی عدالت پر کچھ فرق نہیں پڑےگا۔ 

فتاوی عالمگیری میں ہے: 
وان لم یقامر لم تسقط عدالتہ وتقبل شہادتہ
(الفتاوی الھندیہ، المجلد الخامس، کتاب الکراہیۃ ) 

نتائج الافکار میں ہے: 
  ثم ان قامربہ تسقط عدالتہ وان لم یقامر لا تسقط لانہ متاؤل فیہ
(نتائج الافکار،کتاب الکراہیۃ) 

بایں وجہ امام اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے غیر عادی طور پر شطرنج کھیلنے والے کے لیے ابتدا بالسلام سے منع نہیں فرمایا۔ 

عالمگیری میں ہے: 
ولم یری ابوحنیفۃ رحمۃ اللہ علیہ بالسلام علیھم باسا۔ 
(الفتاوی الھندیہ، کتاب الکراہیۃ)

 پس اگر کوئی امام کبھی کبھاڑ شطرنج یا لوڈو یا کیرم بورڈ کھیلے اور ان میں دوسرے شنائع نہ ہوں اور نہ اس کا عادی ہوتو ایسے کی عدالت و امامت پر کوئی فرق نہیں پڑے گا مگر ائمہ کی یہ شان نہیں کہ وہ خود کو اس طرح کے لغویات میں ملوث کریں۔ 
 
اگر کوئی عام یا خاص ان لغویات کی عادت بنائے تو ایسا شخص مجرم قرار پائے گا لانہ نوع لعب یصد عن ذکراللہ وعن الجمع والجماعات فیکون حراما 

اسی طرح اگر ان کھیلوں میں دوسرے ممنوعات شامل ہوجائیں تو وہ خود بخود گناہ کبیرہ ہوجائیں گے۔
امام اہل سنت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: 
ہاں! اگر اتنا ہے کہ اگر بدکر نہ ہو تو ایک آدھ بار کھیل لینا گناہ صغیرہ ہے اور بدکر ہو یا عادت کی جائے یا اس کے سبب نماز کھوئیں یا جماعتیں فوت کریں تو آپ ہی گناہ کبیرہ ہوجائے گی ۔
(فتاوہ رضویہ قدیم، جلد نہم، کتاب الحظر والاباحۃ)

حاصل یہ کہ اگر کسی نے ایک آدھ بار لوڈو کھیلا اور اس میں دوسری قباحتین نہ تھیں تو وہ مجرم نہیں لیکن اگر کوئی نئے سرے سے کھیلنا چاہے تو اسے اس کی اجازت بھی نہیں۔ 
امام اہل سنت علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:
اور شطرنج کو اگرچہ بعض علماء نے بعض روایات میں چند شرطوں کے ساتھ جائز بتایا ہے 1 بدکر نہ ہو 2 نادرا کبھی کبھی ہو عادت نہ ڈالے 3 اس کے سبب نماز یا جماعت خواہ کسی واجب شرعی میں خلل نہ آئے 4 اس پر قسمیں نہ کھایا کرے 5 فحش نہ بکے مگر تحقیق یہ کہ مطلقا منع ہے اور حق یہ کہ ان شرطوں کا نباہ ہرگز نہیں ہوتا خصوصا شرط دوم وسوم کہ جب اس کا چسکا پڑجاتا ہے ضرور مداومت کرتے ہیں اور لااقل وقت نماز میں تنگی یا جماعت میں بےشک ہوتی ہے جیسا کہ تجربہ اس پر شاہد اور بالفرض ہزار میں ایک آدھ آدمی ایسا نکلے کہ ان شرائط کا پورا لحاظ رکھے تو نادر پر حکم نہیں ہوتا وانما تبتنی الاحکام الفقہیہ علی الغالب فلا ینظر الی النادر۔
(فتاوی رضویہ قدیم، جلد نہم، کتاب الحظر الاباحۃ)

واللہ تعالی اعلم بالصواب 

کتبہ: *فداءالمصطفی قادری مصباحی* 
خادم الافتاء شرعی عدالت سنکیشور کرناٹک

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے