نزولِ قرآن کی مقدس وادی میں یادگار ساعتیں

نزولِ قرآن کی مقدس وادی میں یادگار ساعتیں
(تاباں ماضی کا درخشاں وَرق) 
بقلم:
غلام مصطفٰی رضوی 
[نوری مشن مالیگاؤں]

  قرآن مقدس کے نزول نے قوموں کی زندگیوں میں انقلاب برپا کر دیا- آخری پیغمبر رسول رحمت صلی الله تعالٰی علیہ وسلم کو رب کریم نے بے پناە اختیارات دے کر بھیجا- آپ کی ذات اقدس پر نازل ھونے والی کتاب ایسی عظیم و بے مثل ھے جس کے آگے فصیحانِ عرب عاجز ھیں... اور اس کی نظیر لانے سے قاصر- اللہ تعالٰی نے آخری کتاب قرآن مجید نازل کر کے اہلِ زباں کے غرّا کو خاک میں ملا دیا- بے زباں کر دیا..... 

ترے آگے یوں ھیں دبے لچے، فُصَحا عرب کے بڑے بڑے 
کوئی جانے منھ میں زباں نھیں، نھیں بلکہ جسم میں جاں نھیں 
(اعلٰی حضرت)

   قرآنِ مقدس نے شعورِ بندگی کے ساتھ شعورِ زندگی بھی عطا کیا- بے پناە علوم کا سرچشمہ اور معارف کا بحر نا پیدا کنار ھے قرآن مقدس- اس کی لازوال تعلیمات نے صالح انقلاب برپا کیا- بزمِ دل میں نورِ قرآں کا اُجالا پھیل گیا-

   جس کی قوت و شوکت کا بار قلبِ مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے علاوە کوئی نھیں اُٹھا سکتا- ایسے عظیم کلام کی جائے نزول کا سفر محترم 13 رمضان المبارک 1437ھ کی صبح درپیش ھوا- 

   وادیِ حرم میں جبلِ نور عظمت و شوکتِ اسلام کے اَن گنت پہلو سمیٹے ھوئے ھے- تاريخِ انسانی کے اس کوہِ محکم نے قدمِ نازِ مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو بارہا چوما ھے- انھیں نشانِ قدمِ ناز کی تلاش میں کتنے صاحبِ دل و اہلِ نظر سرگرداں ھیں- علم کا ھر شناور جبلِ نور کا ممدوح و احسان مند ھے- جس کی فلک آسا چوٹی کے پاکیزە قلب "غارِ حرا" میں قرآنِ مقدس نازل ھونا شروع ھوا-

   اپنی تاریخ کے اس کوہِ محکم کی زیارت دل و نگاە کو نور اور فکر کو پاکیزگی عطا کرتی ھے- جلوؤں کی اس وادی میں لگتا ھے که کونین کے تاج دار کی سواری ابھی گئی ھے- جبلِ نور تو وفادارِ مصطفٰی ھے- جبھی یہ انعام ملا که امام الانبیاء صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اس کے غار میں بارہا جلوە بار ھوئے- بلبلِ سدرە سردارِ ملائکہ جبریل امین نے خدائی امانتیں لے کر حرا میں نزولِ اجلال فرمایا- چڑھائی قدرے سخت ھے- چوٹی کے عقبی پہلو پر موجود غار میں جلالت کا ہر آن پہرہ ہے- ھے- اِقْراء کی تابشیں مشاہدہ ہو رہی ہیں-

   ھم نے سخت گرمی کی تمازت کے باوصف زیارت کی- تاریخِ انسانی کے زریں لمحات کو یاد کیا- ماضی کے بہت سے اَوراق عالمِ تصور میں کھنگالے- حرا کی عظمتوں کو سلام- حرا کے خاموش غار کی قوت و ادراک کو سلام... جہاں سب سے عظیم پیغمبر نے خدائی پیغامات کو لے کر دنیا کو علم و انقلاب سے آشنا فرمایا-

   مکه مکرمہ پتھروں کی وادیوں سے گھرا ھے- چٹانوں کی اس منزل میں دلوں کو پگھلا دینا خاتم النبیین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ھی کا خاصہ ھے- ھر طرف پتھر ھی پتھر- خیالات بھی پتھریلے تھے- عقیدت کے رشتے بھی پتھروں سے تھے- اصنامِ باطلہ بھی پتھر کے تھے- کفار کے ھاتھوں میں بھی پتھر تھے- ایسے پتھریلے ماحول میں خاتم النبیین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے انقلاب تازە برپا فرمایا کہ راہزن راہبر اور پتھر دل موم بن گئے... 

وە عہدِ ظلم و جھالت کے دل نما پتھر
نبی سے ملتے رہے، آئینوں میں ڈھلتے رہے 

   جلوؤں کی اس وادی میں اپنی تاریخ کے زرّیں اَوراق تازہ ھوتے ھیں- ھر ذرہ نور میں نہایا ھوا محسوس ھوتا ھے- منزلِ مراد ھے یہ وادیِ نور- ھم اپنے نقوش کی تلاش میں ھیں- تاریخ کھنڈرات کھود رہی ھے- فطرت سے منحرف آثار پر تاریخ گری کی جا رہی ھے- ھماری تاریخ کے تابندہ نقوش جبلِ نور میں یوں نمایاں ھیں کہ عظمتوں کا ھر لمحہ محفوظ ھے، اور یہاں کا ھر ذرہ تاباں و درخشاں- جس پیغام نے یہاں کی فضا کو مشک بار کیا اس کی خوشبو کائنات میں پھیلی ھے اور شش جہت نور بار ہے- ابھی بھی لگتا ھے که رسول کونین صلی الله تعالٰی علیہ وسلم کے پاکیزە انفاس کی خوشبو فضائے حرا میں پھیلی ھوئی ھے- یہاں ھم بارگاہِ الٰہی میں سجدۂ شکر بجا لائے- تلاوت قرآن کی اور اپنے تاریخی ورثے کو عقیدت کیش نگاہوں سے الوداع کہا اور دوپہر شہر تقدس مآب مکہ مکرمہ پہنچ گئے-

  اس سفرِ تلاش آثار میں ھمارے رفیق تھے جناب رضوان عبدالمطلب سر (چئیرمین خاتون کالج) اور شہباز اختر رضوی، جنھوں نے سخت دھوپ میں روزے کی حالت میں وادیِ جبلِ نور کی خاک روبی میں ساتھ دیا اور نورِ حرا کی تابشوں کو چشمِ احساس سے ملاحظہ کیا- روشن ماضی کے خدائی اکرام کی یاد سے سفرِ حرمین کی تابشوں میں اضافہ کیا گیا-
***
محررہ: ٢١ رمضان المبارک ١٤٣٧ھ
مدینہ منورہ کی نور بار فضا میں یہ مضمون قلم بند ہوا-

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے