عنوان
کوئی حیرت کی بات نہیں
کچھ اہل قلم اس بات کولے کر حیران ہیں کہ چاہے آسام کے 25 لاکھ مسلمانوں کی زندگی کامسئلہ ہو چاہے پورے ھندوستان کے مستقبل کو داوٗ پر لگانے والا قانون سیٹیزن شپ بل ؛تین طلاق بل ہو یا 370 کی دھارا سے مکت کشمیر کامسئلہ ہر معاملے میں ہمارے مشائخ اور خانقاہوں کے گدی نشیں یکدم سے چپ کیوں ہیں
ارے بھائی! آپ حیران کیوں ہیں ؛ خانقاہوں کے گدی نشین بلکل جاہل نہیں ہیں لیکن یہ لوگ اتنے بھی پڑھے لکھے نہیں ہوتے کہ قوم کے متعلق اتنی وسیع اورآفاقی سوچ کے مالک بن جائیں
آج کے گدی نشینوں کے مقام ومرتبے اور عہد ماضی کے مشائخ کی عظمتوں کے درمیان موازنہ کرکے فرق معلوم کرنا چاہتے ہیں تو ماضی کے مشائخ (مثلاً سلطان الھند غریب نواز؛ حضرت کاکی؛ نظام الدین اولیاء ؛مخدوم سمنانی ؛ مجددالف ثانی ؛امام احمدرضا وغیرہ) نے جن جن کوخلافتیں دی تھیں ان خلفاء اور آج کے خلفاء کی عظمتوں کے درمیان موازنہ کرکے دیکھ لیجئے
وہ پہلے سخت مجاھدات وریاضات کراکر لائق بنادیتے پھر ابتلاء وآزمائش کے مرحلے سے گزارتے ؛کامیابی کے بعد کفرستان کے کسی علاقے کی طرف داعی بناکر روانہ کردیتے ؛ بھیج کر ان کی طرف سے غافل نہ رہتے ؛ان کے کام کامسلسل جائزہ لیتے رہتے ؛کہیں کچھ کمی پاتے فورا اصلاح کرتے ؛مقصد سے ہٹتے ہوئے دیکھتے ؛ تنبیہ فرماتے ؛ ان کے مکتوبات کے مجموعے آج ان کی تاریخ دعوت وعزیمت ؛ مریدیں وخلفاء کے ساتھ نسبی بیٹوں سے زیادہ پیارومحبت اور انکے طریقہ تبلیغ وارشاد کی تاریخ بیان کرتےہیں ؛ان میں سے کسی کو کچھ تکلیف پہچتی توخود تڑپ اٹھتے؛
ایک مرتبہ دلی میں حضرت قطب الدین بختیارکاکی کو ایک مقامی باآثر عالم نے حسد سے تکلیف پہچائ ؛یہ خبرجب اجمیرشریف پہچی؛ غریب نواز تڑپ گئے اور اسی وقت خالی پیر پاپیادہ دلی کے لیئے نکل پڑے ؛ روتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے قطب! جہاں ایسی بے قدری ہو وہاں تم کوہرگز رہنے نہ دونگا
دلی جاکر ہاتھ پکڑا اورفرمایا قطب ! چل میرے ساتھ اجمیر ؛ اتنا فرمایا اور لے کے چل پڑے ؛بادشاہ وقت اور اہل دلی قدموں کے سامنے بچھ گئے؛ کہنے لگے جاناہوتوہماری لاشوں پر سے جاناہوگا ؛ غریب نواز نے جب دلی والوں کی ایسی محبت دیکھی آبدیدہ ہوگئے فرمایا ای قطب ! تمہارا جانا ان پر ستم ہوگا ؛اتنافرمایا اور قطب کو دلی والوں کے حوالے کرکے سیدھا اجمیر روانہ ہوگئے ؛ یہ ہوتی ہے بامقصد پیری مریدی ؛ اسکو کہتے ہیں سوز دل اور درد نہاں کا حقیقی مطلب؛
اور ہمارے دور میں کیاہوتاہے؛ جب چاہا جس کوچاہا خلافت دیدی ؛علم وعمل کا کوئی معیار نہیں دیکھاجاتا؛بلکہ بسااوقات فاسق فاجر بلکہ کبھی کبھی داڑھی کٹؔے پتلون کوٹ پہن کر جرائم کی دنیا سے وابستہ لوگوں بھی خلافت سونپ دی جاتی ہے
مطلب یہ ہے کہ آج کل استحقاق خلافت کے لیئے دو میں سے ایک امر کا پایاجانا ضروری سمجھاجاتاہے
1 )دولت
2) ایسا شخص ہو جو حلقہٗ اثر بناکر سال میں ایک آدھا بار مریدین کے گھر دورہ کراسکے
ایسا شخص اگر مولوی یاخطیب ہو تو ایساخلیفہ نہ صرف سونے کاانڈا دینے والی مرغی سے زیادہ قیمتی ہوتاہے بلکہ خانقاہ کو ایک مستقل پرچارک اور ایجنٹ بھی مل جاتاہے اور اس طرح کے خلفاء کو بدلے میں پروگرام یا نذرانے کی شکل میں کچھ تبرک -
بڑی بڑی جمعیت کی پیشوائی کامنصب یہ پیر صاحبان تو ورثے میں پاگئے ہیں لیکن امت کے جس غم میں ان کے آبا واجداد آہِ سحرگاہی ؛سوزِ دل اورسازِ الست سے تڑپ تڑپ اٹھتے تھے اس پاکیزہ تصور کی ہوابھی ان کے موجودہ اخلاف کونہیں لگی ہے -
جن غریب مسلمانوں کی پرخلوص شاہی دعوتیں کھا کھاکر اِن کے چہروں میں نورانیت آئ ہے؛جنکی گاڑھی کمائی سے اپنی اولاد اور چند ابلہے مریدین کے ساتھ ہمیشہ ہوائی جہازسے سفرکالطف اٹھاتے اور جن کی محنت اور پسینے کی کمائی سے اِنہوں نے عالی شان بنگلے اورحویلیاں بنائی ہیں یا اپنے بچوں کومہنگی ترین یونیورسیٹیوں میں پڑھانے کاانتظام کیاہے آج جبکہ وہی غریب مسلمان آسام اورکشمیر میں خصوصا اور پورے بھارت میں عموما طرح طرح کے حالات میں گِھرکر خوف وہراس سے لرزہ براندام ہیں ان کے سروں پرکوئ شفقت کاہاتھ رکھنے والانہیں اور نہ آج کوئی ان کا آنسو پوچھنے والا دِکھتاہے -
جب
ان پیرصاحبان کی بڑی بڑی خوبصورت آنکھیں
گورا چہرہ مہرہ
لمبی سفیدداڑھی
دراز قدوقامت
خوبصورت پلے دارٹوپی یا چہرے کی رنگت سے میچ کھاتا بھڑک دار عمامہ
عالمانہ قیمتی جبہ یا شِروانی
بہت ہی مہنگے کپڑے کی صدری
جس میں سونے چاندی کے بٹن
لاکھوں روپئے کی لاگت کی مہنگی گھڑی
ہزاروں روپئے کی جوتی
عجیب وغریب حرکات وسکنات
غیرمعمولی قسم کی اداکاری
پریشان کن ناز ونخرے
حیران کن بلندبانگ دعوے
بھولے بھالے مریدین دیکھتے سنتے ہیں
تو
دل میں گمان کرتے ہیں کہ
ہمارے دور کے یہی پیرزادے علم وعمل ؛تقوی پرہیزگاری اوربےنفسی میں اِس وقت کے
حسن بصری ؛شبلی ؛جنید بغدادی؛بایزیدبسطامی ؛سمنانی ؛ابن ادھم؛ابن مباک ؛بوحنیفہ ؛عسقلانی وقسطلانی ؛محلی وسیوطی؛ غزالی ورازی ہیں
لیکن سچی بات یہ ہے کہ ایسا سوچنا بھی گناہ ہے؛ موجودہ بہروپیوں کی عملی واخلاقی حیثیت ؛انسانیت سے ہمدردی ؛مخلوق خدا پر شفقت کا پہلو تو آج کٌھل کر سب کے سامنے آگیاہے
*📚ان کی علمی حیثیت کا کچھ اندازہ لگانا ہو تو 📚*
*(📚 فتاوی شامی ١٢ جلدیں )*
*( 📚 بدائع الصنائع ١٠ جلدیں )*
*( 📚ھدایہ ٤ جلدیں )*
*( 📚 فتح القدیر ١٠ جلدیں )*
*(📚 فتح الباری ١٦ جلدیں )*
*(📚 عمدۃالقاری ١٦ جلدیں )*
*(📚 تفسیرکبیر ٣٣ جلدیں )*
*(📚 مٌسنداحمد ١٢ جلدیں )*
*(📚 کشاف ٤ جلدیں )*
*(📚 المستدرک ٥ جلدیں )*
*(📚 روح المعانی ١٦ جلدیں )*
*(📚 فتاوی رضویہ ٢٢ جلدیں )*
اور ان جیسی کئی کئی جلدوں میں ہزاروں عربی فارسی اور اردو زبان کی کتابوں کوسامنے رکھ کر دل سے سوال کرنا کیا ان میں سے کسی ایک کتاب کی طرح کوئی کتاب یہ پیرزادے
لکھ سکتے ہیں
ترجمہ کرسکتے ہیں
شرح لکھ سکتے ہیں
حاشیہ لگا سکتے ہیں
مغلق مقامات کی توضیح کرسکتے ہیں
ہاں بغیر مطالہ کے یہ لوگ وعظ کہ سکتے ہیں
یہ آج کی تاریخ میں کیا مشکل بات ہے ؛ ہزاروں علماء کے خطابات ہرموضوع پر یوٹیوب میں موجود ہیں ؛رات کے کسی تنہا پل میں کان میں ایئرفون لگاکر دوچار خطاب سن لیتے ہیں پھر شاندار خطاب بھی ہوجاتاہے اور پیر صاحب کی کرامت بھی ثابت ہوجاتی ہے کہ دیکھو :کتاب کبھی دیکھتے نہیں اور علمی نکات سے پٌراتنا شاندار خطاب ؛واقعی حضرت کو تو علم لدنی حاصل ہے -
جہانتک واعظوں کی علمی استناد کی بات ہے اپنے وعظوں میں
ہررطب ویابس موضوع اور من گھڑٹ داستاں سرائ کی وجہ سے زمانہ قدیم میں اصحاب جرح و تعدیل محدثین اور فقہاء نے ان واعظوں کو غیرمعتبر ؛غیرمستندٹھرادیاتھا
آج عوام میں معیارِ انتخاب کی سطحیت؛مزاقِ علمی کی گراوٹ ؛ فکرومزاج اور پسند کی بدذوقی نے خالص علمی وتحقیقی کام کرنے والے علماءِ محققین کوچھوڑ کر ان واعظوں کو اہمیت دیدی ہے
کیایہ باتیں صحیح نہیں کہ
(1) یہ پیرزادے مریدین کی بستیوں کو اپنا مارکیٹ سمجھتے ہیں ؛سال میں ایک دوبار دورہ ضرور کرتے ہیں تاکہ محصولہ نذرانے کی رقم سے اپناگھربار چلے
( 2) جب پیر صاحب ضعف وناتوانی کی وجہ سے گھربیٹھ جانا چاہتے ہیں تو دو چار سال پہلے ہی سے اپنے جانشیں بیٹے کودورہ کراکر پورا مارکٹ دکھا ڈال تے ہیں کہ یہ لو بیٹے ! زیادہ پڑھ وڑھ کر کیا کروگے ؛جب تم بوڑھے ہوجانا اپنے بچے کو بھی یہ مارکیٹ دکھاجانا-
(3)اپنے باصلاحیت؛ذی علم ؛ذی استعداد؛لائق فائق خلفاء کو چھوڑکر اپنے بیٹے ہی کو ولیعہد منتخب کرتے ہیں ؛جبکہ اکثر پیرزادے تقوی پرہیزگاری تو دورکی بات ہے ضروری وابتدائ علم سے بھی عاری ہوتے ہیں ؛اس پر مزیدتبکر اور رعونت سے دماغ ہمیشہ عرش پر رہتاہے-
گدی کی وراثت کوولیعہد اور بیٹے کو شہزادہ کہلوانے پر مریدین سے اصرار کرنے والے یہی پیر صاحبان کبھی برملا اور کبھی نجی محفلوں میں حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کایزید پلید کو ولیعہد بنائے جانے پر اعتراض ہی نہیں بلکہ لعن وطعن بھی کرتے ہیں-جبکہ حضرت امیرمعاویہ کی حیات مبارکہ تک یزید کا فسق ظاہر اورعام نہیں تھا-
( 4)ہر پیر صاحب اپنی خانقاہ کے سائے میں ایک مدرسہ یا دارالعلوم صرف اس لیئے چلاتے ہیں تاکہ وہاں کے فارغین ان کے سچے پرچارک بنیں ؛اسکے لیئے بڑے منصوبہ بند اورمختلف طریقے سے طلبہ کی تدریجا ذھن سازی کی جاتی ہے ؛اپنے اور صرف اپنے اباء واجداد کے کارناموں اور کشف وکرامات کا مطالعہ کرایا جاتاہے اور دوسرے سلسلوں کے بزرگوں ؛علماءاوردوسرے اہل علم وتحقیق کے کارناموں سے طلبہ کو یکسر دور رکھاجا تاہے
اگر یہ بات غلط ہے تو ماضی قریب کے مشربی خانقاہی اختلافات میں ان خانقاہی مدارس کے فارغین نے صلح کرانے کی پالیسی اپنانے کے بجائے ایک دوسرے کے فریق بن کراختلافات کی آگ میں تیل ڈالنے کاکام کیوں کیا ؟ان فارغین کو اس نازک وقت میں ایک دوسرے کے بزرگوں کے اقدار وعظمتوں کا لحاظ کیوں نہ رہا؟
بہرحال
جب یہی طلبہ فارغ ہوکر دور دراز علاقوں میں پھیل جاتے ہیں ؛کہیں امامت وخطابت ؛ کہیں درس و تدریس ؛کہیں موذن بانگی ؛کہیں مسجد کی خدمت توکہیں کسی مزار میں جاروب کشی پہ مامور ہوجاتے ہیں اور تنخواہیں اتنی کہ بمشکل گھریلو بھی نہ چل سکے ؛ اب دیکھیئے ان فارغین کے ساتھ پیرصاحبان کی اخلاقی پسماندگی
(5)ہر گلی ؛کوچہ ؛بستی؛ڈگر؛شہرمیں؛
مسجدوں کے محراب وممبر میں؛
ہرعام وخاص امیروغریب مقتدیوں میں؛
مکاتب ومدارس کے اندر
ہردرجے؛ ہرقسم؛ ہرطرح کے طلبہ میں؛
نیاز فاتحہ میں؛
جلسہ؛ جلوس؛ کانفرسوں؛ سیمیناروں میں؛
نجی محفلوں میں؛
چائے پان کی دکانوں اورہوٹلوں میں؛
یہ مولوی ؛مدرس ؛امام ؛بانگی ؛خادم انہی پیر صاحبوں کے آباءواجداد( جو واقعی اس لائق تھے بھی) کے کارنامے ؛دینی وتبلیغی خدمات؛کشف وکرامات بیان کرکر کے اورانکے موجودہ وارثین کے سچے جھوٹھے فضائل ومناقب سنا سنا کر دلوں میں ان پیرزادوں کی عظمتیں بٹھاتے رہتے ہیں اورخودکوعوام کے نزدیک ان پیروں کے مقابلے میں بے حیثیت ثابت کرتے رہتے ہیں
جب ان پیرزادوں کے حق میں عقیدت کی فضا مکمل تیار ہوجاتی ہے
یہ بچارے علماء بڑی محنت سے ایک ایک پیسہ چندہ کرکے پِیرصاحبان کودعوت دیتے ہیں ؛انکے استقبال کے لیئے لاکھوں روپیہ داوٌ پہ لگا کر شاندار پروگرام اور شاہی دعوت کا انتظام کرتے ہیں ؛ جب وہ آتے ہیں تو یہ علماء ان کے قدموں میں بِچھ جاتے ہیں ؛ایسی حرکت علماء تو بے نفسی اور اپنی اعلی ظرفی سے کر بیٹھتے ہیں لیکن عام پبلک دلوں میں یہ تآثر لیتی ہے کہ حقیقی پیشوا اور مقتدا یہی پیر لوگ ہیں اور یہ مولوی مفتی لوگ بس انکے چِیلم بردار؛جھنڈابردار؛نعلین بردار ہیں
دوسری طرف اٌن عقیدت مندوں کی جٌھڑمَٹ میں جن کو بے حیثیت غلام بن کرمولوی صاحب نے پِیرصاحب کے گرد جمع کیاتھا اسی مولوی صاحب بلکہ بسا اوقات مفتی صاحب کے ساتھ یہ پیرصاحب بہت ہی گھٹیا برتاؤٌ اور ذلت آمیز لب ولہجہ استعمال کرکے مجمع میں اکثر ذلیل کرتے رہتے ہیں
اور وہ وقت بھی آتاہے کہ یہ پیرزادے اِدھر
مریدین کی تعداد بڑھائ ؛شاھی دعوت کے مزے اڑائے؛تحفے تحائف بوریوں میں سمیٹا؛نذرانہ کا لفافہ اورہوائ جہاز کا ٹکٹ وصولا اٌدھر ایک دو تین پھر غائب
اس پیرصاحب کو ایسے مخلص علماء سے کوئی ہمدردی نہیں ہوتی
نہ اس سے غرض ہوتی ہے کہ اتنی کم تنخواہوں سے ان علماء کا گھر کیسے چلتاہے؟
ان کے بچوں کی تعلیم کیسے ہوپاتی ہے؟
بلکہ یہ لوگ بھول کر بھی کبھی کمیٹی والوں کے سامنے نہ علماء کی فضیلت بیان کریں گے نہ ان کی خدمت اورمالی تعاون کی طرف توجہ دلائیں گے
اور نہ ہی اتنی قلیل تنخواہوں پر کمیٹی والوں کی سرزنش کریں گے
اسٹیج پربھی علم علماء کی فضیلت پر ان پِیرصاحبان کو کبھی تقریر کرتے نہیں پائیں گے ؛ان کے نزدیک یہ بات صاف ہے کہ پبلک میں علماء کی اہمیت بڑھانا خود کو فنا کرناہے
اے علماء!
اے دین کے سچے خدمت گزارو!
اے دین کے حقیقی رہبرو!
اے رسول اللہ کے نائبو!
اے رسول اللہ کے حقیقی جانشینو!
اے رسول اللہ کے وارثو!
اے وہ جو مسجدوں میں آذان بھی دیتے ہیں!
اےوہ جو پنج وقتہ نمازوں کی امامت بھی کرتے ہیں!
اےوہ جومسجدوں میں لوگوں کو ہرروز ترجمہ قرآن سناتے ہیں!
اےوہ جنہوں نے شاندار زبان وبیان اوربہترین دماغی صلاحیتوں کا استعمال کرکے اپنی تقاریراور خطابات سے نہ صرف اس ظلمت کدے کو نور سے بھردیاہے بلکہ یوٹوب اور انٹرنیٹ کے ذریعہ کم پڑھے لکھے پیر صاحبان کواپنی عزت بچانے کا سامان بھی کردیاہے!
اےوہ جو مسجدوں میں تفسیر قرآن کادرس دیتے ہیں!
اےوہ جو ہرجمعہ مسجدوں میں ہزاروں کو ایمانی حرارت کی دولت باٹتے ہیں!
اےوہ جو لادینی ماحول میں بھی گھرگھر پہچ کربچوں کو صحیح تلفظ کے ساتھ قرآن پڑھناسکھاتے ہیں!
اے وہ جو بہت ہی قلیل اجرت میں دارالعلوم اور جامعات کے اندر
حدیث
فقہ
تفسیر
اصول حدیث
اصول فقہ
اصول تفسیر
نحو
صرف
منطق
فلسفہ
ریاضی
بلاغت
فصاحت
علم الاشتقاق
علم البیان
علم المعانی
علم البدیع
علم العروض
علم القوافی
علم اسماء الرجال
علم جرح وتعدیل
علم فقہ الحدیث
علم المغازی
سیرت رسول
سیرت صحابہ
سیرت اہل بیت
سیرت فقہاء
سیرت محدثین
سیرت مفسرین
تذکرہ صالحین
پڑھتے پڑھاتے ہیں اور
حافظ
قاری
مولوی
عالم
فاضل
مفتی
مدرس
معلم
امام
موٌذن
خادم
قلمکار
مضمون نگار
مصنف
مفکر
محدث
فقیہ
مفسر
منطیقی
فلسفی
صحافی
ادیب
انشاپرداز
شاعر
نعت خواں
گھرگھرجاکرقرآن سکھانے والے منشی
پیدا کرتے ہیں
کیا آپ کو معلوم نہیں کہ قرآن وحدیث میں جہاں
اہل بیت
صوفی
زاھد
مجاھد
مبلغ
کی فضیلت پرآیات واحادیث آئی ہیں وہاں مستقل طور پر اہل علم
اہل قلم
کی شان میں بھی آیات واحادیث موجود ہیں
توپھریہ احساس کمتری کیسی؟
یہ گداگیری وکاسہ لیسی کیسی؟
آپ خود اپنی قیمت کیوں نہیں سمجھتے؟
دھیان سے سنئے
ان موجودہ پِیروں کے ظاہری رکھ رکھاؤٌ پر نہ جائیں
امت پرآئے موجودہ سنگین حالات نے قیادت کے میدان میں ان کی اہلیت پرسوال کھڑا کردیاہے
آپ لوگ آگے بڑھ کر بچاری بھنورمیں پھنسی امت کے لیئے خود قائدانہ کردار ادا کریں
نوٹ
میری اس تحریر میں وہ مشائخ کرام شامل نہیں ہیں جوامت کے غم میں برابر شامل ہیں اور واقعی درد امت میں تڑپ تڑپ کرخدمت دین میں لگے ہوئے ہیں
(🖊 منقول )
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں