-----------------------------------------------------------
*🕯دشمنوں پر رحم کرنا اور ان کی خیر خواہی کرنا🕯*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
📬 دشمنوں پر رحم اور ان کی خیر خواہی کرنے سے متعلق تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سیرت سے کچھ واقعات اور خود کو تکلیف پہنچانے والوں کی خیر خواہی کرنے سے متعلق دیگر بزرگانِ دین کے واقعات ملاحظہ ہوں۔
*(1)* ایک مرتبہ امُّ المومنین حضرت عائشہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا نے حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے دریافت کیا :
یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیا جنگ ِاُحد کے دن سے بھی زیادہ سخت کوئی دن آپ پر گزرا ہے؟ ارشاد فرمایا’’ ہاں ، اے عائشہ! رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا، وہ دن میرے لئے جنگ ِاُحد کے دن سے بھی زیادہ سخت تھا جب میں نے طائف میں وہاں کے ایک سردار ’’ابنِ عبد یالیل بن عبد کلال‘‘ کو اسلام کی دعوت دی۔ اس نے دعوتِ اسلام کو حقارت کے ساتھ ٹھکرا دیا (اور اہلِ طائف نے مجھ پر پتھراؤ کیا) میں اس رنج و غم میں سر جھکائے چلتا رہا یہاں تک کہ مقام ’’قَرنُ الثّعالب‘‘ میں پہنچ کر میرے ہوش و حواس بجا ہوئے۔ وہاں پہنچ کر جب میں نے سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک بدلی مجھ پر سایہ کئے ہوئے ہے، اس بادل میں سے حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام نے مجھے آواز دی اور کہا: اللہ تعالیٰ نے آپ کی قوم کا قول اور ان کا جواب سن لیا اور اب آپ کی خدمت میں پہاڑوں کا فرشتہ حاضر ہے۔ تاکہ وہ آپ کے حکم کی تعمیل کرے۔
حضورِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا بیان ہے کہ پہاڑوں کا فرشتہ مجھے سلام کرکے عرض کرنے لگا :
یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اللہ تعالیٰ نے آپ کی قوم کا قول اور انہوں نے آپ کو جو جواب دیا ہے وہ سب کچھ سن لیا ہے اور مجھ کو آپ کی خدمت میں بھیجا ہے تا کہ آپ مجھے جو چاہیں حکم دیں اور میں آپ کا حکم بجا لاؤں۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ میں’’اَخْشَبَیْن‘‘ (ابو قُبَیس اور قُعَیْقِعان نام کے) دونوں پہاڑوں کو ان کفار پر اُلٹ دوں تو میں اُلٹ دیتا ہوں۔ یہ سن کر حضور رحمت ِعالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جواب دیا: (نہیں ) بلکہ میں امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی نسلوں سے اپنے ایسے بندوں کو پیدا فرمائے گا جو صرف اللہ تعالیٰ کی ہی عبادت کریں گے اور شرک نہیں کریں گے۔
*( بخاری، کتاب بدء الخلق، باب اذا قال احدکم: آمین والملائکۃ فی السمائ۔۔۔ الخ، ۲ / ۳۸۶، الحدیث: ۳۲۳۱)*
*(2)* حضرت سہل بن سعد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں:
جس وقت نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مُقَدّس دانت شہید ہوئے ،آپ کا چہرہ مبارک زخمی ہوا اور خود آپ کے سر مبارک پر ٹوٹ گیا اس وقت میں وہاں حاضر تھا اور میں انہیں بھی جانتا ہوں جنہوں نے آپ کے چہرے سے خون دھویا اور جنہوں نے چہرے پر پانی ڈالا اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ آپ کے زخم پر کیا چیز ڈالی گئی جس سے خون رک گیا۔ اللہ تعالیٰ کے رسول محمد مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شہزادی حضرت فاطمہ زہرا رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا چہرے سے خون دھو رہی تھیں اور حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم ان کے پاس اپنی ڈھال میں پانی بھر بھر کر لا رہے تھے، جب حضرت فاطمہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا نے اپنے والد گرامی کے چہرے سے خون دھو لیا تو کھجور کی چٹائی کا ایک ٹکڑا جلایا اور اس کی راکھ زخم پر رکھ دی یہاں تک کہ خون بہنا رک گیا، پھر اس وقت سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:
’’اس قوم پر اللہ تعالیٰ کا غضب شدید ہوا جس نے رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے چہرے کو زخمی کیا ،پھر کچھ دیر ٹھہرنے کے بعد دعا فرمائی:
اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، میری قوم کو بخش دے کیونکہ وہ مجھے نہیں جانتے۔
*( معجم الکبیر، زہرۃ بن عمرو بن معبد التیمی عن ابی حزام، ۶ / ۱۶۲، الحدیث: ۵۸۶۲)*
*(3)* حضرت جابر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں:
(غزوہِ طائف کے دوران کچھ) لوگوں نے عرض کی:
یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ثقیف کے تیروں نے ہمیں جلا ڈالا ہے، آپ ان کے خلاف دعا فرما دیں تو رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے (ان کے خلاف دعا کرنے کی بجائے ان کے حق میں یہ) دعا فرمائی:
اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، ثقیف کو ہدایت دیدے۔
*(ترمذی، کتاب المناقب، باب مناقب فی ثقیف وبنی حنیفۃ، ۵ / ۴۹۲، الحدیث: ۳۹۶۸)*
*(4)* حضرت ابراہیم بن ادھم رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ ایک دن کسی صحرا کی طرف تشریف لے گئے تو وہاں آپ کو ایک سپاہی ملا، اس نے کہا :
تم غلام ہو؟ آپ نے فرمایا :ہاں۔ اس نے کہا: بستی کدھر ہے؟ آپ نے قبرستان کی طرف اشارہ فرما دیا۔ سپاہی نے کہا میں آبادی کے بارے میں پوچھ رہا ہوں۔
آپ نے فرمایا: وہ تو قبرستان ہے، یہ سن کر اسے غصہ آیا اور اس نے ایک ڈنڈا آپ کے سر میں دے مارا اور آپ کو زخمی کرکے شہر کی طرف لے آیا، آپ کے ساتھی راستے میں ملے تو پوچھا:
یہ کیا ہوا؟ سپاہی نے سب کچھ بیان کر دیا کہ انہوں نے یہ بات کہی ہے۔ لوگوں نے کہا: یہ تو حضرت ابراہیم بن ادھم رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ ہیں۔
یہ سن کر سپاہی فوراً گھوڑے سے اترا اور آپ کے ہاتھوں اور پاؤں کو چومنے لگا، پھر آپ سے پوچھا گیا: آپ نے یہ کیوں کہا کہ میں غلام ہوں؟
فرمایا: اس نے مجھ سے یہ نہیں پوچھا کہ تو کس کا بندہ ہے بلکہ صرف یہ کہا کہ تو بندہ ہے؟ تو میں نے کہا: ہاں، کیو نکہ میں اللہ تعالیٰ کا بندہ ہوں اور جب اس نے میرے سر میں مارا تو میں نے اللہ تعالیٰ سے اس کے لئے جنت کا سوال کیا۔ عرض کی گئی: جب اس نے آپ پر ظلم کیا تو آپ نے اس کے لئے دعا کیوں مانگی؟ فر مایا: مجھے معلوم تھا کہ اس مصیبت پر مجھے (صبر کرنے کا) ثواب ملے گا تو میں نے مناسب نہ سمجھا کہ مجھے تو اچھا اجر ملے اور اُسے عذاب ہو جو میرے لئے ثواب پانے کا ذریعہ بنا ہے۔
*(احیاء علوم الدین، کتاب ریاضۃ النفس۔۔۔ الخ، بیان علامات حسن الخلق، ۳ / ۸۷)*
*(5)* ایک شخص نے حضرت احنف بن قیس رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کو گالی دی تو آپ نے اسے کوئی جواب نہ دیا، وہ گالیاں دیتے ہوئے آپ کے پیچھے چلتا رہا، جب آپ اپنے محلے کے قریب پہنچے تو رک گئے اور فرمایا:
اگر تمہارے دل میں کوئی اور بات ہے تو وہ بھی یہیں کہہ دو تاکہ محلے کے ناسمجھ لوگ تمہاری بات سن کر تمہیں اَذِیَّت نہ پہنچائیں۔
*( احیاء علوم الدین، کتاب ریاضۃ النفس۔۔۔ الخ، بیان علامات حسن الخلق، ۳ / ۸۸)*
اللہ تعالیٰ ان بزرگانِ دین کی پاکیزہ سیرت کا صدقہ ہمیں بھی اپنی مخالفت کرنے اور تکلیف پہنچانے والوں کی خیر خواہی کرنے اور ان کے حق میں دعائے خیر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللّٰه علیہ وسلم
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*المرتب⬅ قاضـی شعیب رضـا تحسینی امجــدی 📱917798520672+*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں