-----------------------------------------------------------
*🕯شیخ الاسلام امام ابو الحسن دارقطنی رحمۃ اللّٰه علیہ🕯*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*نام و نسب:*
*اسم گرامی:* علی۔
*کنیت:* ابو الحسن۔
*لقب:* شیخ الاسلام، امام الحدیث، حافظ الحدیث۔
*سلسلۂ نسب یہ ہے:* علی بن عمر احمد بن مہدی بن مسعود بن نعمان بن دینار بن عبداللہ بغدادی دارقطنی۔ علیہم الرحمہ
آپ کا مولد و مسکن بغداد معلیٰ کا محلہ "دار قطن" ہے جس کی طرف نسب کرتے ہوئے دار قطنی کہلائے۔
*تاریخِ ولادت:* چوتھی صدی ہجری کا آغاز ہو چکا تھا۔ دنیائے اسلام کی عظیم علمی شخصیتیں رخصت ہو چکی تھیں۔ علمی محفلیں بے نور ہوگئی ایسے ماحول میں قدرت نے امام دارقطنی کو پیدا فرمایا۔ آپ کی ولادت 306ھ، بمطابق 918ء میں ہوئی۔
*تحصیلِ علم:* امام دراقطنی نے دنیائے اسلام کے عظیم علمی شہر بغداد معلیٰ میں نشونما پائی جو عباسیوں کا پایۂ تخت اور علم و علماء کا عظیم مرکز تھا جہاں کے ذروں سے علم و فن کی کرنیں پھوٹتی تھیں۔ آپ کا گھر بھی علم کی تجلیوں سے معمور تھا والد عمر بن احمد کا شمار محدثین میں ہوتا تھا۔ جن کی آغوش میں امام دار قطنی نے پرورش پائی اور صغر سنی ہی سے طلب علم کا شوق پروان چڑھنے لگا۔ جب آپ کی عمر نو سال کی تھی درس حدیث میں شرکت شروع کردی۔
*علم کا شوق:* یوسف قواس کہتے ہیں: کہ ‘‘جب ہم لوگ امام بغوی کی مجلس میں شرکت کرنے جاتے تھے اس وقت امام دار قطنی ہاتھ میں روٹی کا ٹکڑا لیے ہوئے ہمارا پیچھے پیچھے چلتے تھے۔
نیز فرماتے ہیں: کہ ‘‘ایک مرتبہ ہم لوگ ابن منیع کے یہاں جارہے تھے یہ بھی روٹی پر سالن ڈالے ہوئے پیچھے پیچھے آرہے تھے ہم نے ان کو اندر جانے نہیں دیا وہ وہیں دروازے پر بیٹھے روتے رہے۔’’
*(تاریخ دمشق، ج۲۲، ص۲۴۱)*
امام دارقطنی کا شہر بغداد علم و علماء کا مرکز تھا جہاں بڑے بڑے محدثین، فقہاء، مفسرین اور ادباء کے حلقے قائم تھے مگر آپ کا شوق علم اتنا بڑھا ہوا تھا کہ بغداد کے علماء سے سیری نہ ہوئی اور دوسرے بلاد و امصار کا رخ کیا۔ کوفہ، بصرہ، شام، واسط اور مصر کی خاک چھانی اور وہاں کے علماء و مشائخ سے حدیث، تفسیر، فقہ اور دوسرے مروجہ اسلامی علوم و فنون کا درس لیا اس طرح ان کے شیوخ و اساتذہ کی تعداد کافی ہے چند اہم شیوخ حدیث یہ ہیں۔
امام بغوی، ابن ابی داؤد، ابن ساعد، حضرمی، ابن درید، ابن فیروز، علی بن عبداللہ بن بشر محمد بن قاسم محاربی، ابو علی محمد بن سلیمان مالکی، ابو عمر قاضی ابو جعفر احمد بن بہلول، ابن زیاد نیشاپوری بدر بن ہشم قاضی، احمد بن قاسم فرائضی، حافظ ابو طالب۔ الیٰ آخرہ۔(علیہم الرحمہ)
*(تذکرۃ، الحفاظ، ج۳، ص۱۸۶)*
*فضل و کمال اور جامعیت:* یوں تو امام دار قطنی کا خاص میدان حدیث، رجال اور علوم حدیث کی معرفت تھا مگر وہ نحو، ادب تفسیر، قرأت اور فقہ میں بھی ید طولیٰ رکھتے تھے۔
*شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ عنہ لکھتے ہیں:*
علم نحو فن تجوید میں بھی کامل مہارت رکھتے تھے۔ فن معرفت علل حدیث و اسماء الرجال میں بے نظیراور اپنے وقت کے یگانہ تھے چناں چہ خطیب اور حاکم اور اس فن کے دوسرے اماموں نے ان کی فضیلت کی شہادت دی ہے۔ نیز مذاہب فقہاء سے بھی باخبر تھے علم ادب و شعر سے بھی خوب واقفیت رکھتے تھے۔
*(بستان المحدثین، ص۷۶)*
*حافظ ابو ذر کہتے ہیں:* میں نے امام حاکم سے پوچھا کیا آپ نے امام دارقطنی جیسا کوئی آدمی دیکھا ہے بولے ‘‘ھولم یر مثل نفسہ فکیف انا؟’’
انہوں نے خود اپنے جیسا کوئی آدمی نہیں دیکھا میں کیسے دیکھتا۔ (ایضاً)
*حافظ ذہبی لکھتے ہیں:* میں شہادت دیتا ہوں کہ انہوں نے اپنے پیچھے روئے زمین پر اپنے جیسا کوئی آدمی نہیں چھوڑا۔ (ایضاً، ص۱۸۷)
*فنِ حدیث:* یوں تو امام دارقطنی کی ذات علوم و فنون کا مجمع البحرین تھی مگر انہیں شہرت اور عظمت علم حدیث میں امتیاز کی بنا پر حاصل ہوئی۔ آپ کی کثرت حدیث، معرفت رجال و علل، تعدد طرق اور جرح و نقد حدیث کی صلاحیت کا اعتراف بڑے بڑے محدثین اور علماء فن نے کیا ہے۔
*خطیب بغدادی:* علم حدیث کی جانکاری، علل حدیث اور رجال کی معرفت احوال رواۃ کا علم، صداقت و امانت، فقہ اور عدالت کے ساتھ ساتھ آپ پر ختم ہے۔
*(تاریخ بغداد، ج۱۲، ص۳۴)*
*ابوطیب طبری:* امام دارقطنی حدیث میں مسلمانوں کے امام ہیں۔ (ایضاً، ص۱۸۸)
*عبدالغنی ازدی:* حدیث رسول پر اپنے اپنے دور میں گفتگو کرنے والے تین افراد سب سے بہتر ہیں۔ علی بن مدینی، موسیٰ بن ہارون اور امام دارقطنی۔
*حافظ ابن جوزی:* امام دارقطنی کی علم حدیث اسماء الرجال اور علل حدیث میں معرفت مسلم ہے۔
*سیرت و خصائص:* امام صاحب علم و فضل میں جس قدر بلند مقام رکھتے تھے سیرت و کردار میں بھی اتنے ہی عظیم تھے۔ زہد و تقویٰ، عبادت و ریاضت ان کا مشغلہ تھا۔ یوں تو وہ خاموش طبع، متواضع اور انتہائی خلیق انسان تھے لیکن دین کے معاملہ میں ذرا بھی مداہنت گوار نہ تھی۔ لوگوں کی دل آزاری نہ کرتے۔ طلبہ کی دلجوئی اور حوصلہ افزائی کرتےتھے ان کی مالی امداد کرتے تھے۔ ان کے ورع و تقویٰ کے بارے میں حاکم بیان ہے ‘‘وہ درع و تقویٰ میں بے مثال تھے’’۔
*سنن دارقطنی:* سنن کو شہرت دوام حاصل ہوئی یہ کتاب صحاح ستہ کے بعد صحت کے لحاظ سے اہم شمار کی جاتی ہے حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں کہ دارقطنی کی یہ مشہور کتاب اس فن کی بہترین کتابوں میں ہے۔ (ایضاً، ص۱۰۱)
*اس کتاب کی چند اہم خصوصیات یہ ہیں:*
امام دارقطنی کو کثرت و تعدد طرق میں بڑا کمال حاصل تھا اسلئے سنن دارقطنی نقد و جرح حدیث کے متعلق اقوال کا عمدہ ذخیرہ ہے انہوں نے اکثر طرق و اسانید بیان کرنے کے ساتھ ان پر مفصل کلام کرکے ان کی قوت و ضعف کا فیصلہ اور حدیث کے مرتبہ کی تعیین کی ہے۔ اس کتاب سے فقہی آراء اور اجتہادی اختلافات ائمہ کا علم بھی ہوتا ہے۔ رواۃ کے اسماء وکنی، بلاد و مساکن اور بعض مشکل و غریب الفاظ حدیث کی مختصر وضاحت بھی ہے۔ روایت کے حسن و قبح کے ضمن میں بعض واقعات اور تاریخی حالات بھی زیر بحث آگئے ہیں۔
*وصال:* صحیح قول کے مطابق اس پیکر علم و عمل کا وصال بروز جمعرات 8/ذیقعدہ 385ھ ،3/ دسمبر 995ءکو ہوا۔ ابو حامد اسفرائنی (مشہور فقیہ)نے نماز جنازہ پڑھائی، اور بغداد شریف میں شیخ معروف کرخی علیہ الرحمہ کے مزار کے متصل "قبرستان باب دیر" میں مدفون ہیں۔
*ماخذ و مراجع:* محدثین عظام حیات و خدمات۔ تذکرۃ الحفاظ۔
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*المرتب⬅ محــمد یـوسـف رضــا رضــوی امجــدی 📱919604397443*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں