حضور صلی اللّٰه علیہ وسلم کی زندگی ہر ایک کے لئے کامل نمونہ ہے

*📚 « امجــــدی مضــــامین » 📚*
-----------------------------------------------------------
*🕯حضور صلی اللّٰه علیہ وسلم کی زندگی ہر ایک کے لئے کامل نمونہ ہے🕯*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

📬 یاد رہے کہ عبادات، معاملات، اَخلاقیات، سختیوں اور مشقتوں پر صبر کرنے میں اور نعمتوں پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے میں، الغرض زندگی کے ہر شعبہ میں اور ہر پہلو کے اعتبار سے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مبارک زندگی اور سیرت میں ایک کامل نمونہ موجود ہے۔
لہٰذا ہر ایک کو اور بطورِ خاص مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اَقوال میں ،اَفعال میں، اَخلاق میں اور اپنے دیگر احوال میں سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مبارک سیرت پر عمل پیرا ہوں اور اپنی زندگی کے تمام معمولات میں سیّد العالَمین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پیروی کریں۔

مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اپنی کتاب ’’شانِ حبیب الرحمٰن ‘‘ میں بہت پیارا کلام فرمایا، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ سرکارِ اَبد قرار صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مبارک ذات ہر درجے اور ہر مرتبے کے انسان کے لئے نمونہ ہے، جیسے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے توکُّل کا حال یہ تھا کہ دو دو ماہ تک گھر میں آگ نہیں جلتی، صرف کھجوروں اور پانی پر گزارہ ہوتا، تو امت کے مَساکین کو چاہئے کہ ان مبارک حالات کو دیکھیں اور صبر سے کام لیں۔
جو سلطنت اور بادشاہت کی زندگی گزار رہا ہے، تو وہ ان حالات کا ملاحظہ کرے کہ مکہ مکرمہ فتح ہو گیا، تمام وہ کفار سامنے حاضر ہیں جنہوں نے بے انتہا تکلیفیں پہنچائی تھیں، آج موقع تھا کہ ان تمام گستاخوں سے بدلہ لیا جائے مگر ہوا یہ کہ فتح فرماتے ہی عام معافی کا اعلان فرما دیا کہ جو ابو سفیان کے گھر میں داخل ہو جائے اس کو امن ہے، جو اپنا دروازہ بند کرلے اس کو امن ہے، جو ہتھیار ڈال دے اس کو امن ہے، الغرض، حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر دس بھائیوں نے چند گھنٹے ظلم و ستم کیا جس کے نتیجے میں ایک مختصر عرصے تک آپ آزمائشوں میں مبتلا رہے اور جب وہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سلطنت میں غلہ لینے حاضر ہوئے تو آپ نے ان سے فرمایا: 
’’لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْكُمُ الْیَوْمَؕ-یَغْفِرُ اللّٰهُ لَكُمْ‘‘ 
آج تم پر کوئی سختی نہ ہو گی، اللہ تمہاری مغفرت فرما دے۔ 

مگر حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے 13 سال تک اپنے اوپر اہلِ مکہ کی سختیاں برداشت کیں، صحابہ ٔکرام، اہلِ بیت ِعظام، ان کے گھر والے اور ان حضرات کی جان و مال، عزت و آبرو سب ہی خطرے میں رہے اور آخر کار دیس کو چھوڑ کر پردیسی ہونا پڑا، مگر جب اپنا موقع آیا تو سب کو معاف فرما دیا، لہٰذا قیامت تک کے سَلاطین اس کو اپنے لئے مشعلِ راہ بنائیں۔
اگر کوئی مالداری اور خوشحالی کی زندگی گزارنا چاہتا ہے تو ان حالات کو ملاحظہ کرے کہ ایک شخص کے کھیت میں لمبی ککڑی پیدا ہوئی، تحفہ کے طور پر بارگاہ میں حاضر کی، تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس کے عِوَض میں ایک لپ بھر سونا عنایت فرمایا۔ ایک بار بکریوں سے بھرا ہوا جنگل حضور پُرنور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ملکیت میں آیا، کسی نے عرض کی: 
یاحَبِیبَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اب اللہ تعالیٰ نے حضور کو بہت ہی مالدار بنا دیا۔ ارشادفرمایا: 
’’ تو نے میری مالداری کیا دیکھی ؟ عرض کی: اس قدر بکریاں ملکیت میں ہیں۔ 
ارشاد فرمایا: جا سب تجھ کو عطا فرما دیں۔ وہ اپنی قوم میں یہ مال لے کر پہنچے اور قوم والوں سے کہا:
 اے لوگو! ایمان لے آؤ، رب کی قسم! محمدٌ رَّسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اتنا دیتے ہیں کہ فقر کا خوف نہیں فرماتے۔ 
حضرت عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو ایک بار اتنا دیا کہ وہ اٹھا نہ سکے، لہٰذا مالدار یہ واقعات اپنے خیال میں رکھیں اور زندگی گزاریں۔
اگر کسی کی زندگی اہل و عیال کی زندگی ہے تو وہ یہ خیال کرے کہ میری تو ایک یا دو یا زیادہ سے زیادہ چار بیویاں ہیں اور کچھ اولاد مگر محبوب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی 9 بیویاں ہیں، اولاد اور اولاد کی اولاد، غلام، لونڈیاں، مُتَوَسِّلین اور مہمانوں کا ہجوم ہے، پھر کس طرح ان سے برتاؤ فرمایا اور اسی کے ساتھ ساتھ کس طرح رب عَزَّوَجَلَّ کی یاد فرمائی۔
اگر کوئی تارک الدنیا اپنی زندگی گزارنا چاہتا ہے تو غارِ حرا کی عبادت، وہاں کی ریاضت، دنیا کی بے رغبتی کو دیکھے۔

سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی قوت و طاقت کا یہ حال ہے کہ جنگ ِحُنَین میں آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ خچر پر تنہا رہ گئے، مسلمانوں کے پاؤں اکھڑ گئے، کفار نے خچر کو گھیر لیا، حضرت عباس اور ابو سفیان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا باگ پکڑے ہوئے تھے، جب ملاحظہ فرمایا کہ کفار نے یلغار کی ہے تو خچر سے اترے اور فرمایا: ہم جھوٹے نبی نہیں ہیں، ہم عبد المطلب کے پوتے ہیں، اس پر کسی کی ہمت اور جرأت نہ ہوئی کہ سامنے ٹھہر جاتا۔ 
ابو رکانہ عرب کا مشہور پہلوان تھا، جو کبھی بھی کسی سے مغلوب نہ ہوتا تھا، حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے تین بار اسے زمین پر دے مارا، وہ اسی پر حضور انور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا مداح بن گیا۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے رحم و کرم کا یہ حال کہ نہ کبھی کسی کو برا فرمایا نہ خادم یا اہلِ خانہ کو ہاتھ سے مارا (لہٰذا طاقت اور قوت رکھنے والے ان حالات پر غور کریں ) غرض کہ ساری قومیں (اور ہر مرتبے کے انسان سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ذات مبارک کو) اپنے لئے نمونہ بنا کر دنیا میں آرام اور ہدایت سے رہ سکتے ہیں۔
*(شان حبیب الرحمٰن، ص ۱۵۸-۱۶۰، ملخصاً)*

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*المرتب⬅ قاضـی شعیب رضـا تحسینی امجــدی 📱917798520672+*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے