رفیع الشان ہے شان رفاعی

رفیع الشان ہے شان رفاعی

 
از قلم : حضرت سید رضی الدین الرشید عرف لالہ میاں رفاعی رحمت اللہ علیہ، سجادہ نشین مسند رفاعیہ، کراچی، پاکستان
  
حضرت سید رضی الدین الرشید عرف لالہ میاں رفاعی علیہ الرحمہ سجادہ نشین مسند عالیہ رفاعیہ کراچی پاکستان پر جلوہ افروز تھے ،آپ حضرت سید مجزوب کامل السید ابوالعباس محمد فیض اللہ المعروف سید بدرالدین الحسنی الحسینی الموسوی الرفاعی رحمتہ اللہ علیہ کے تیسرے صاحبزادے ہیں۔ آپ کی ولادت بروز بدھ ١٢/ رجب المرجب ١٣٢٨ھ بمطابق ٢٠ جولائی ١٩١٠ءمیں ہندوستان کے شہر بڑودہ، گجرات میں ہوئی ۔ آپ کا شجرہ نسب پدری ٢٢ واسطوں سے شمش العراق حضور سیدنا احمد کبیر رفاعی رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے ۔ آپ نے ابتدائی دینی تعلیم اپنی والدہ ماجدہ سے حاصل کی اور دیگر دینی اور دنیوی علوم بڑودہ ہندوستان کی اعلیٰ درسگاہ سے حاصل کی۔ روحانیت وطریقت آپ نے اپنے والد سید بدرالدین رفاعی علیہ الرحمہ سے حاصل کی حالانکہ روحانی تربیت تو بفضلہ تعلیٰ اس خاندان کا خصوصی حصہ ہے ، آپ کو اپنے جد امجد امام الاولیا، سلطان العارفین حضرت الشیخ السید احمد کبیر الرفاعی رضی اللہ عنہ سے بے انتہا محبت تھی جس کے باعث ہمہ وقت حضرت غوث الرفاعی کے حالات زندگی، اخلاق حسنہ اور تعلیمات پر مبنی مستند کتب کا مطالعہ فرماتے اور حضرت والا کی تعلیمات کے مطابق سادہ زندگی اختیار فرماتے۔ تقسیم ھند کے بعد آپ دین کی تبلیغ اور سلسلہ رفاعیہ کے فروغ کے لیےپاکستان تشریف لے آے اور پھر یہیں مقیم ہو گئے۔آپ شروع ہی سے کاروبار کی طرف مائل تھے۔ اس لیے پاکستان آنے کے بعد آپ نے تبلیغ دین کے ساتھ ساتھ اپنا کاروباری سلسلہ بھی جاری رکھا اور پاکستان میں سلسلہ رفاعیہ کے فروغ و اشاعت میں مگن ہو گئے۔ آپ نے اپنی کاروباری مصروفیات کو بالاے طاق رکھتے ہوے دین اسلام اور سلسلہ رفاعیہ کی اشاعت و فروغ کے لیے کئی بیرونی ممالک کے دورے بھی کیے، آپ کی مسلسل کاوشوں کے نتیجے میں آج پاکستان اور دیگر ممالک میں ہزاروں مریدین، خلفا، معتقدین، فقرا آپ کی خداداد صلاحیتوں روحانیت و طریقت کا بین ثبوت ہے،آپ نے اپنے جدامجد سید احمد کبیر رفاعی رضی اللہ عنہ سے بے انتہا محبت اور عقیدت کے باعث پانچ مرتبہ غوث الرفاعی کے روزہ اقدس ام عبیدہ عراق میں حاضری دی۔ آپ کے صاحبزادگان میں حضرت السید جلال الدین المعروف بادشاہ میاں رفاعی(ولادت ٢٢ جنوری ١٩٨٦ء بمطابق ١٠ جمادی الاول ١۴٠٦ھ) حضرت السید علی المعروف سید وزیر علی عرفان اللہ الغالب الرشید الرفاعی مدظلہ العالی حال سجادہ نشین مسند رفاعیہ کراچی، پاکستان، حضرت السید بدرالدین محبت اسراراللہ عرف بابا رفاعی مدظلہ العالی ہیں جو اشاعت دین اسلام و سلسلہ رفاعیہ میں دن رات مشغول ہے۔
آپ بروز منگل مورخہ ٢۴ ربیع الاول ١۴١٦ھ بمطابق ٢٢ اگست ١٩٩۵ء کو تمام متعلقین اور خلفہ و مریدین، معتقدین و فقرا کو غمگین و رنجیدہ چھوڑ کر خالق حقیقی کی طرف لوٹ گئے۔ آپ کا مزار اقدس "المرکز الرفاعیہ" پاپوش نگر قبرستان،کراچی، پاکستان میں واقع ہے جہاں سے ہزاروں عقیدتمند ظاہری اور باطنی فیوض و برکات پاتے ہیں۔ یہ مقالہ آپ ہی کا تحریر کردہ ہے جو اس سے پہلے مختلف رساہل میں شائح ہو چکا ہے، افادہ قارئین کے لئے ایک بار پھر سے اس کی اشاعت کی جارہی ہے۔ 
____________________________
قرآن کریم میں ارشادباری تعالیٰ ہے :
*الا ان اولیاء اللہ لا خوف علیھم ولا ھم یحزنون* 
ترجمہ: بے شک اولیا اللہ کو نہ کوئی خوف ہے نہ وہ غمگین ہوں گے۔ (سورة یونس۔ ١١) 
گویا جو اللہ والے اپنے قول و فعل اور حال سے اس کے ہو گئے،خدا کی پناہ میں آگئے، جن کو دیکھ کر اللہ یاد آنے لگے، وہ اللہ کے ولی خوف و حزن سے نکل جاتے ہیں جس میں دنیا گرفتار ہے ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان علامات اور خصوصیات کا ذکر بھی فرمایا ہے جن سے ان محبوبان محبوبان خدا کو پہچانا جا سکتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا *من اولیاءاللہ*اولیاءاللہ کون ہیں؟ فرمایا *الذین اذاراْوذکر اللہ عزوجل* وہ لوگ جن کے دیدار سے خدا یاد آئے ۔
حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: *قال رسول اللہ ان* *من *عباداللہ لٙاُ نا ساماھم بانبیاء ولا *شھداء بغبطھم الانبیاء والشھداء *یوم القیامة بمکانھم من اللہ قالو *ایارسول اللہ اخبرنا من ھم۔ وما *اعمالھم فلعنا نحبھم قال ھم قوم *تحابوافی اللہ علی غیرارخام بینھم *ولا اموال یتعاطون بھافواللہ ان و *جو ھھم لنوروانھم علی منابر نور لا *یخافون اذا خاف الناس ولا یحزن *الناس ثم قرا الا ان اولیاء اللہ لا *خوف علیھم ولا ھم یحزنون۔ (قرطبی)* 
*ترجمہ:* رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کے بندوں میں سے ایسے لوگ بھی ہیں جو نہ نبی ہیں اور نہ شہیدلیکن قیامت کے دن قرب الہٰی کی وجہ سے انبیا اور شہدا ان پر رشک کریں گے۔ صحابہ نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہمیں بتایا بتائیے وہ کون ہیں؟ ان کے اعمال کیا ہیں تاکہ ہم ان لوگوں سے محبت کریں۔ فرمایا وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے لیے آپس میں محبت کرتے ہیں نہ ان میں کوئی رشتہ ہے اور نہ مالی منفعت۔ بخدا ان کے چہرے سراپا نور ہوں گے اور نور کے ممبروں پر انھیں بٹھایا جاےگا۔ دوسرے لوگ خوفزدہ ہوں گے لیکن انھیں کوئی حزن و ملال نہ ہوں گا۔ پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی *الا انّ اولیاء اللہ لا خوف علیھم ولا ھم یحزنون* 
اس فانی دنیا میں ہر ایک کو مرنا ہے ۔ لیکن اللہ کے برگزیدہ بندے ایسے بھی ہے جو اس جہان سے رخصت ہوے تو ختم نہیں ہوے بلکہ زندہ جاوید نظر آئے یہ لوگ فنافی اللہ تھے ۔اس لیے باقی باللہ ہیں۔ یہ لوگ سراپا محبت سراپا خلوص اور سراپا عشق تھے ۔ ان کے تذکرے اور یادیں ہماری روحوں کو رحمت ربانی سے وابستہ رکھتی ہیں ہمارے دلوں میں عشق حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی لگن پیدا کرتی ہیں اور اس در پر پہنچاتی ہیں جو بقاکا دروازہ ہے۔ انہی بزرگان دین اور برگزیدہ شخصیتوں میں چھٹی صدی ہجری کی عظیم المرتبت شخصیت حضرت سیدنا احمد کبیر رفاعی رضی اللہ عنہ ہیں، جن کے فیوض روحانی سے براعظم افریقہ، یورپ، ایشیا منور ہیں اور انشاءاللہ تا قیامت یہ روشنی پھیلتی رہے گی ۔ 
آپ کی ولادت با سعادت مقام حسن بطائح شط العرب عراق میں واقع ہے ۔ یکم رجب ۵١٢ ھ (١١١٨ء) بروز جمعرات ہوئی۔ اس وقت عباسی خلفاء میں سے خلیفہ مسترشد باللہ کی حکومت کا زمانہ تھا جبکہ قصبہ ام عبیدہ کے قریب "واسط" اور "بصرہ" کے درمیان واقع تھی۔ 
آپ کی ولادت شریف کے چالیس ۴٠ دن پہلے حضور پر نور رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سید احمد کبیر رفاعی کے مامو باز اشہب شیخ منصور رحمتہ اللہ علیہ کو بشارت عطا فرمائی۔ شیخ منصور رحمتہ اللہ علیہ نے عالم رویا میں دیکھا کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرما رہے ہیں کہ "اے منصور ! تیرے لیے خوش خبری ہے حق تعالی تیری بہن کو آج سے چالیس روز بعد ایک فرزند عطا فرماےگا اس کا نام احمد رکھنا۔ *جس طرح میں سردار انبیا ہوں وہ سردار اولیا ہوگا۔* اس کی تعلیم و تربیت سے غفلت نہ برتنا۔ شیخ منصور نے عرض کیا! 
*الامر امر کم یا رسول اللہ علیک الصلوةوالسلام* 
پورے چالیس روز بعد سید احمد کبیر رفاعی نے مقام حسن میں ولادت پائی۔ 
حضرت سید احمد کبیر رفاعی رضی اللہ عنہ نے سات سال کی عمر میں قرآن پاک حفظ فرمالیا تھا،بیس سال کے سن میں علوم ظاہری و باطنی اور عقلیہ و نقلیہ میں مہارت و کمال حاصل کر لیا، ساتھ ہی ساتھ حقائق و معارف لدنیہ برتری کے ساتھ حاصل ہو گئے۔ 
*بالاے سرش زہوش مندی* 
*می تافت ستارہ سر بلندی* 
اٹھایئس سال کی عمر میں حضرت شیخ منصور نے خرقہ مشیخت دے کر خانقاہ ام عبیدہ آپ کے سپرد فرمادی اسی سال شیخ منصور رحمتہ اللہ علیہ نے وصال فرمایا۔ 
حضرت سید احمد کبیر رفاعی کو خرقہ مشیخت عطا فرمانے سے کچھ زمانہ پہلے حضرت شیخ منصور بطائحی نے عالم رویا میں دیکھا کہ حضرت الشیخ سید احمد کبیر رفاعی کے والد ابوالحسن علی کے مکان پر عٙلمِ بلندی نصب ہے۔ سر اس عٙلم کا آسمان پر پہنچا ہوا ہے اور پرچم اس علم کا تمام دنیا میں پھیلا ہوا ہے۔ اس عٙلم کے پاکیزہ کپڑے پر بخت نور ،لکھا ہوا ہے: 
*لا الہ الا اللہ الملک الحق المبین*
*محمد رسول اللہ الصادق الوعد* *الامین*
*السید احمد ابو الحسن علی الرفاعی*
*سلطان الاولیاء والعارفین* 
*من الیوم الی یوم الدین* 
حضرت منصور رحمتہ اللہ علیہ اس خواب سے بیدار ہونے پر شرم سار ہوے کہ غیبی آواز نے آپ کو چونکا دیا۔ 
ادب کر اے منصور ادب کر،حکم میرا تمام مخلوق پر قائم ہے، تیری بہن کا فرزند احمد کبیر رفاعی تیرا شیخ اور روے زمیں کے ہر صاحب سجادہ کا شیخ ہے، تو ظاہر میں اس کا شیخ ہوگا معنیٰ میں وہ تیرا شیخ ہے تسلیم کر لے سلامت رہے گا۔ 
ہاتف کے یہ کلمات سن کر حضرت منصور کا جسم لرز گیا، زبان سے بے سختہ نکل گیا تسلیم ہے۔ تسلیم ہے۔ اس واقعہ کے بعد آپ ہمیشہ اپنے بھانجے سید احمد کبیر رفاعی کا ادب کرتے اور فرماتے *"میں سید احمد کے خرقہ کا شیخ ہوں لیکن وہ میرا ازلی شیخ ہے، ظاہر میں، میں اس کا شیخ ہوں اور حقیقت میں وہ میرا شیخ ہے"۔*
الشیخ سیدنا احمد کبیر الرفاعی رضی اللہ عنہ ایک روز لب دریا واسط تشریف فرماتھے کہ یکا یک آپ نے نعرہ لگایا آپ کی حالت غیر ہوگئ، جب ہوش آیا تو ساتھیوں نے دریافت کیا تو آپ نے ارشاد فرمایا "مجھے یوں الہام ہوا ہے کہ اے احمد تیرے جد امجد صلی اللہ علیہ وسم کی زیارت کو جا وہاں تیرے لیے ایک نعمت پر سعادت امانت ہے جو سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم تجھے عطا فرمائیں گے" ۔
آپ رضی اللہ عنہ جم الغفیر کے ساتھ حج بیت اللہ کو روانہ ہوے،وہ سال ۵۵۵ھ (١١٦٠ء) کا تھا،حج بیت اللہ سے فارغ ہو کر مدینہ منورہ کا رخ کیا۔ جب مدینہ منورہ قریب آیا تو سواری سے اتر گئے،نعلین اتاردیے، پاپیادہ، پا برہنہ وقار و عظمت کے ساتھ چلنے لگے۔ ایک عجیب کیفیت آپ پر طاری تھی،عصر کے وقت مدینہ منورہ میں پہنچے، نماز عصر سے فارغ ہو کر حرم نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں داخل ہوے۔ آپ کا چہرہ نور سے چمک رہا تھا، حالت وجد و کیف،ذوق و شوق طاری تھی، مزار مقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب گئے تو بلند آواز سے آپ نے کہا *"السلام علیکم یا جدی"* آواز میں نہایت ہی عجز و انکساری تھی، بے حد ادب و احترام تھا۔ یہ آواز اس محفل مبارکہ کے حاضرین نے سنی،سب پر ایک سکوت کا عالم طاری ہو گیا، حرم نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں کون داخل ہوا؟ کس کا بلایا ہو مہمان آپہنچا؟ آج کی اس مجلس کا مہمان خصوصی آپہنچا۔ کیا نوازش تھی حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی کہ فوراً ہی مزار مبارک صلی اللہ علیہ وسلم سے جواب آیا *"وعلیکم السلام یا ولدی"* سلام و جواب میں کتنی الفت و محبت تھی اور شفقت ورافت سے کس قدر بھرپور تھا؟کس نے سلام کیا تھا؟ اس نے سلام کیا تھا جس کی پیدائش سے چالیس دن پہلے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے اس کی ولادت کی بشارت دی تھی اور ارشاد فرمایا تھا یہ پیدا ہونے والا فرزند اولیا میں ایسا ممتاز و فرد واحد ہوگا جیسا میں انبیا اور رسولوں میں ممتاز کیا گیا ہوں۔ اللہ اللہ اس شان کا ولی نہ پیدا ہوا نہ پیدا ہوگا۔ جواب سلام سب زائرین حرم نے سنا جن کی تعداد نوے ہزار (٩٠٠٠٠) سے بھی زیادہ تھی۔ دور والوں نے بھی اسی طرح سنا جس طرح مزار اطہر کے قریب والوں نے سنا۔ 
سید احمد کبیر رفاعی رضی اللہ تعالی عنہ کی حالت غیر ہو گئ، ذوق و شوق و وجدانی کیفیت حد سے زیادہ تجاوز کر گئ، عالم مدہوشی میں آپ نے فرمایا، آقا۔ دست اطہر دیجیے تاکہ چوم لوں۔ ابھی یہ الفاظ ادا ہوے ہی تھے کہ مزار رحمتہ للعالمین سے دست پُر ضیا نے ظہور کیا (صلی اللہ علیہ وسلم) صرف حرم نبوی صلی اللہ علیہ وسم میں ہی نور کی بارش نہیں ہوئی بلکہ سارا مدینہ اور اطراف مدینہ بقعہ نور بن گیا۔ خوشبوکی لہریں ہر جانب گشت کرنے لگیں۔ زائرین کی زبانوں پر درود شریف جاری ہو گیا۔ کوئی عشق حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں تڑپ گیا کوئی زار و قطار رونے لگا، کوئی بے خود ہو گیا، ایک ایسا عالم طاری ہو گیا جس کے بیان کے لیے الفاظ ہی نہیں ملتے اُف وہ عالم کیا ہوگا۔ کسی کے دست روشن نے ساڑھے پانچ سو سال کے بعد اس دنیا میں ظہور فرمایا۔ 
وہ کس عظمت والے کا دست اطہر تھا وہ کس مقرب بندے کا دست معجزانما تھا۔ یہ اُس کا دست معطر تھا جس کی شان و عظمت کی کوئی حد ہی نہیں۔ 
*بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر*
سید احمد کبیر رفاعی رضی اللہ عنہ نے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر نہایت ادب و احترام سے دست مبارک نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے دونوں ہاتھوں میں لیا اور بہت ہی عجز و انکساری سے جھک کر بوسہ لیا۔تمام زائرین بھی رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست منور کے دیدار سے مشرف ہوے۔ ظاہری طور سے کچھ ظہور میں آیا، وہ نوے ہزار (٩٠٠٠٠٠) زائرین و عاشقان محمدی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مادّی آنکھوں سے دیکھا لیکن باطنی طور پر کیا نعمت پُر سعادت، کیا انعام عطا ہوا وہ نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا۔ وہ دینے والا جانے، لینے والا جانے اور اللہ جانے۔ اس دست بوسی کی ضو ضیا سے جو حضرت سید احمد کبیر رفاعی کو ہوئی بڑے بڑے آفتاب ولایت ماند پڑ گئے بلکہ اس دست بوسی کی کرامت پُر سعادت پر فرشتے اور ملائکہ اعلی کو رشک ہوا۔ 
آج صدیوں کے بعد بھی سیدنا احمد کبیر رفاعی کے عقیدت مندوں کے کانوں میں اب تک اس سلام کی اور جواب سلام کی آواز گونجتی ہے اور یہ کوئی ناقابل تسلیم بات نہیں کیونکہ سائنس سے یہ بات ثابت ہے کہ آواز کو فنا نہیں۔ 
اثر موثر کی شخصیت سے اور عطا کی ہوئی خدا داد قوت سے ہوتا ہے۔ آپ کے مواعظ اور نصائح کے اثر سے بے شمار یہودی و نصاریٰ اور مجوسی ایمان کی دولت سے مالا مال ہوے اور مشرف بہ اسلام ہوے۔ 
اگر چہ حضرت سیدنا احمد کبیر رفاعی رضی اللہ عنہ کے متعلق آج تک بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور لکھا جا تا رہےگا لیکن طوالت کے خوف سے میں آپ کے چند نصائح پیش کرنے پر اکتفا کرتے ہوے اس مضمون کو ختم کرتا ہوں۔ 
(١) فقیر اپنے نفس کے ساتھ دوستی کرتا ہے تو نہایت تھک جاتا ہے لیکن اگر اپنا کام خدا کے سپرد کرتا ہے تو خدا وند تعالی اُس کی دستگیری فرماتا ہے جہاں ہمارا گمان بھی نہیں ہوتا۔ 
(٢) عقل فائدوں کا خزانہ خوش نصیبی کی کیمیا ہے۔
(٣)عمل دین و دنیا میں شرافت اور آخرت میں عزت بخشتا ہے۔ 
(۴) دو چیزیں (دین) میں ترقی دلاتی ہیں۔ ایک تنہائی میں ذکر کرنا اور دوسرا نعمت الٰہی کا حد سے زیادہ تذکرہ کرنا۔  
(۵) انسان کامل خدا کے سوا ہر چیز کو ترک کرتا ہے۔ 
(٦) خدا کے سواکسی اور چیز پر بھروسہ کر لینا ہی خوف ہے،خدا کا خوف دوسروں کی طرف سے بے خوف کر دیتا ہے۔ 
(٧) صوفی وہ ہے جس کے نفس کا آئینہ ایسا صاف ہو گیا ہو کہ اسے دوسروں پر اپنی فضیلت نظر نہ آئے۔ 
(٨) کام کیے جاؤ اس لیے کہ ہر شخص کو اُسی چیز کی توفیق دی گئ ہے جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے۔ 
(٩) ہر چیز سے خوبی اخز کرے۔ 
(١٠) علم وہ ہے جو تجھے جہالت کی حالت سے نکال دے غرور کے مقام سے دور کردے اور اولوالعزم لوگوں کی راہ پر لگاے۔ 
(١١) قران مجید تمام حکمتوں کا عظیم الشان سمندر ہے مگر ایسا کان کہاں جو سنے۔ 
(١٢) تو اگر رضاے الہی کے دروازے پر دستک دےگا تو فلاحیت کی صدا سنے گا۔ 
(١٣) تین چیزیں یعنی غرور، بیوقوفی اور کنجوسی ایسی ہیں کہ اگر کسی میں ہوں تو جب تک اُس میں سے دور نہ ہوجاہئں ولی بن نہیں سکتا۔  
(١۴) جو شخص کامل ہے وہ اپنی خدمت سے باز نہیں آتا۔ 
اللہ تعالی رب العالمین و غفورّحیم سے دعا گوہوں کہ وہ ہمیں دین اسلام اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے اور سید احمد کبیر رفاعی رضی اللہ عنہ کے فیوض روحانی سے مسلمانان عالم کے دلوں کو شگفتگی اور روحوں کو تازگی بخشتا رہے۔ (آمین)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے