السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ سے متعلق کہ ایک ایسا شخص ہے جس پر قربانی واجب ہونے کے سارے شرائط پائے جاتے ہیں لیکن قربانی کبھی سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کرتا ہے تو کسی سال غوث پاک کے نام سے کرتا ہے،
اپنے نام کی نہیں کرتا۔
اس شخص کا ایسا کرنا کہاں تک درست ہے؟
کیا اس کے ذمے کا وجوب اس طرح سے قربانی کرنے سے ساقط ہو جائے گا ؟ یا مذکورہ شخص گناہ گار ہوگا۔
بینوا و توجروا
السائل: ساجد خان بھوانی پٹنہ اڈیشہ ھند
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب:
جس شخص کے اوپر قربانی واجب ہے اسے اپنی طرف سے قربانی کرنا واجب ہے۔
پھر بھی اگر وہ فوت شدہ بزرگوں کی طرف سے اپنے ہی مال سے قربانی کرتا ہے تو بھی اس کی قربانی درست ہے، اس کے ذریعے بھی اس کا وجوب ساقط ہو جائے گا۔
کیونکہ کہ اصل جانور اور گوشت کا یہی مالک ہے، یہ ان بزرگوں کو ایصال ثواب کہلائے گا۔
رد المحتار میں ہے:
"(قَوْلُهُ وَعَنْ مَيِّتٍ) أَيْ لَوْ ضَحَّى عَنْ مَيِّتٍ وَارِثُهُ بِأَمْرِهِ أَلْزَمَهُ بِالتَّصَدُّقِ بِهَا وَعَدَمِ الْأَكْلِ مِنْهَا، وَإِنْ تَبَرَّعَ بِهَا عَنْهُ لَهُ الْأَكْلُ لِأَنَّهُ يَقَعُ عَلَى مِلْكِ الذَّابِحِ وَالثَّوَابُ لِلْمَيِّتِ، *وَلِهَذَا لَوْ كَانَ عَلَى الذَّابِحِ وَاحِدَةٌ سَقَطَتْ عَنْهُ أُضْحِيَّتُهُ كَمَا فِي الْأَجْنَاسِ* . قَالَ الشُّرُنْبُلَالِيُّ: لَكِنْ فِي سُقُوطِ الْأُضْحِيَّةَ عَنْهُ تَأَمُّلٌ اهـ. أَقُولُ: صَرَّحَ فِي فَتْحِ الْقَدِيرِ فِي الْحَجِّ عَنْ الْغَيْرِ بِلَا أَمْرٍ أَنَّهُ يَقَعُ عَنْ الْفَاعِلِ فَيَسْقُطُ بِهِ الْفَرْضُ عَنْهُ وَلِلْآخَرِ الثَّوَابُ فَرَاجِعْهُ".
[ابن عابدين، الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)، ٣٣٥/٦]
نیز فتاویٰ قاضی خان میں ہے:
رجل اشترى أضحية ثم مات، إن كان الميت أوجبها على نفسه بلسانه يجبر
الورثة على أن يضحوا عنه، ولو ضحى عن ميت من مال نفسه بغير أمر المیت،
جاز. وله أن يتناول منه ولا يلزمه أن يتصدق به؛ لأنها لم تصر ملكا للميت بل الذبح حصل على ملکه. *ولهذا لو كان على الذابح أضحية سقطت عنه*
وإن ضحى عن ميت من مال الميت بأمر الميت يلزمه التصدّق بلحمه، ولا يتناول منه؛ لأن الأضحية تقع عن الميت.
( *فتاوى قاضي خان* فصل: فيما يجوز في الضحاياو مالا يجوز، من كتاب الاضحية ج:3،ص:239)
كتبه: محمد وسيم اكرم الرضوي
مدرس جامعة المدينه نيبال
٣،ذو الحجة الحرام،١٤٤١
25،جوالائی، 2020
یہ فتویٰ لکھنے کے بعد میں نے اپنے *استاد محترم محقق مسائل جدیدہ سراج الفقہا حضرت مفتی نظام الدین صاحب قبلہ دامت برکاتہم العالیہ صدر شعبۂ افتا الجامعۃ الاشرفیہ* مبارک ہند کی خدمت میں پیش کیا اور عرض کی کہ اس کی تصدیق یا تصحیح فرما دیں۔
اللہ تعالیٰ حضرت پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے، آپ نے اپنی کثیر مصروفیات اور علالت کے باوجود توجہ فرمائی اور جواب سے نوازا۔
جواب آپ بھی ملاحظہ فرمائیں👇
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب
ہاں مختار یہ ہے کہ قربانی اس لڑکے کی طرف سے ہوگی اور وہ قربانی کے وجوب سے سبک دوش ہو جائے گا ۔والد کو صرف قربانی کا ثواب ملے گا ۔فتاوی قاضی خان میں ہے
*ولو ضحى عن ميت من مال نفسه بغير أمر الميت جاز، وله أن يتناول منه ولا يلزمه أن يتصدق به، لأنها لم تصر ملكا للميت، بل الذبح حصل على ملكه، ولهذا لو كان على الذابح أضحية سقطت عنه -وان ضحی عن میت من مال المیت بامر المیت، یلزمہ التصدق بلحمہ ولا یتناول منہ ،لان الاضحیۃ تقع عن المیت ۔۔۔اذا ضحی رجل عن ابویہ بغیر امرھما وتصدق بہ، جاز لان اللحم ملکہ وانما للمیت ثواب الذبح والصدقۃ ۔*
فتاوی شامی اخیر کتاب الاضحیۃ میں ہے
*وإن تبرع بها عنه له الأكل، لأنه يقع على ملك الذابح والثواب للميت، ولهذا لو كان على الذابح واحدة سقطت عنه أضحية كما فى الأجناس، قال الشرنبلالى: لكن فى سقوط الأضحية عنه تأمل، أقول صرح فى فتح القدير فى الحج عن الغير بلا أمر أنه يقع عن الفاعل فيسقط به الفرض عنه وللآخر الثواب فراجعه (رد المحتار، كتاب الأضحية)*
فتاوی تاتار خانیہ میں ہے
*سئل عمن يضحى عن الميت، قال: يصنع به كما يصنع بأضحيته يريد به أنه يتناول من لحمه كما يتناول من لحم أضحيته، فقيل له أتصير عن الميت؟ قال: الأجر للميت، والملك للمضحى، وبه قال سلمة وابن مقاتل وأبو مطيع، وقال عصام، يتصدق بالكل، وفى الكبرى، المختار أنه لا يلزمه (الفتاوى التاتارخانية، كتاب الأضحية، الفصل السابع فى التضحية عن الغير وفى التضحية بشاة الغير عن نفسه-)*
بزازیہ میں ہے
*وأجاز نصير بن يحيى ومحمد بن سلمى ومحمد بن مقاتل فيمن يضحى عن الميت أنه يصنع به مثل ما يصنع بأضحية نفسه من التصدق والأكل والأجر للميت والملك للذابح (بزازية على هامش الهندية-6\295)*
فتح المعین میں ہے
*تبرع بالأضحية عن ميت، جاز له الأكل منها والهدية والصدقة، لأن الأجر للميت والملك للمضحى، وهو المختار، بخلاف ما لو كان بأمر الميت، حيث لا يأكل فى المختار (فتح المعين، كتاب الأضحية)*
علامہ طحطاوی رحمۃ اللہ علیہ کو اس بارے میں تامل ہے کہ یہ قربانی ذابح کی طرف سے ہوگی ۔یعنی اس کا واجب ادا ہوجائے گا ،تامل کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ قربانی ہورہی ہے میت کی طرف سے یعنی میت کی نیت سے تو وہ ذابح کی طرف سے کیوں ادا ہوگی ۔مگر یہ بے مایہ یہ سمجھتا ہے کہ کسی کی طرف سے قربانی صحیح ہونے کے لیے دو باتیں ضروری ہیں ۔ایک یہ کہ وہ جانور کا مالک ہو دوسرے یہ کہ اس کی طرف سے قربانی کی نیت ہو اور یہاں یہ تو بہت ہی واضح ہے کہ میت جانور کا مالک نہیں، نہ پہلے سے مالک تھا نہ اب ہے ۔اور اس کی طرف سے قربانی کی نیت بھی نہیں کیوں کہ مرحوم ہونے کے بعد وہ نیت کر نہیں سکتا اور زندگی میں اس نے قربانی کے لیے وصیت نہیں کی ۔جب میت کی طرف سے نہ قربانی کی نیت پائی گئی نہ ہی وہ جانور کا مالک ہے تو یہ
واضح ہوگیا کہ قربانی اس کی طرف سے نہیں ہوگی البتہ وارث نے قربانی میت کی طرف سے کی ہے تواس کا مطلب یہ ہے کہ میت کو قربانی کا ثواب پہنچے
*انما للمیت ثواب الذبح والصدقۃ (خانیہ )*
میت کو صرف قربانی اور گوشت وغیرہ صدقہ کرنے کا ثواب ملے گا ۔اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ قربانی ذابح کی طرف سے ہو کیوں کہ وہ جانور کا مالک ہے ساتھ ہی اس نے قربانی کی نیت سے ذبح کیا ہے ۔اور "تقبل عن فلاں" کا مطلب "تقبل ثواب الاضحیۃ عن فلاں" ہے ۔
اس کے برخلاف اگر میت نے کوئی جانور چھوڑا جس کا وہ مالک تھا اور اس نے اپنے وارث کو اپنی طرف سے قربانی کا حکم بھی دیا تھا تو یہ قربانی میت کی طرف سے ہوگی ۔کیوں کہ اس نے قربانی کے لیے جانور خاص کر دیا تھا یا مال چھوڑا تھا جس سے جانور خریدا جا سکتا تھا تو قربانی کی صحت کی حد تک اس کی ملک حکما باقی رہے گی۔ ساتھ ہی اس کی طرف سے وصیت کے ضمن میں قربانی کی نیت بھی پائی گئی۔اس لیے یہاں قربانی میت کی طرف سے ہوگی نہ کہ وارث کی طرف سے فتاوی قاضی خان کا یہ جزئیہ بھی اسی کی تائید کرتا ہے ۔
رجل اشتری اضحیۃ ثم مات، ان کان المیت اوجبھا علی نفسہ بلسانہ یجبرالورثۃ علی ان یضحوا عنہ
ان سب کے باوجود علامہ طحطاوی رحمۃ اللہ علیہ کا تامل قابل لحاظ ہے ۔اس بے مایہ کے ذہن میں جو توجیہ آئی اس کے پیش نظر میں نے یہی فتوی دینا پسند کیا۔والعلم بالحق عنداللہ وھو تعالے اعلم ۔
محمد نظام الدین رضوی
5 ذو الحجہ 1441ھ
27 جولائی 2020ء
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں