Header Ads

نقلی بالوں پر مسح کا حکم

*🕯 « احــکامِ شــریعت » 🕯*
-----------------------------------------------------------
*📚نقلی بالوں پر مسح کا حکم📚*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 
میرا سوال یہ ہے کہ کچھ لڑکے اس دور حاضر میں نقلی بال لگاتے ہیں اگر ان بالوں پر مسح کرے تو کیا مسح ہو جائے گا؟ دلیل کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں۔
*سائل: مجسم رضا رامپور یو پی*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

*وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ*

*الجواب* صورت مسئولہ میں اگر سر پر لگوائے جانے والے بال اگر اسی کے ہوں یا خنزیر کے علاوہ کسی اور جانورکے ہوں یا کیمیکل وغیرہ سے بنے ہوئے مصنوعی بال ہوں تو اس کو سر پر کھال میں بذریعہ آپریشن پیوست کر دینے کی اگرچہ گنجائش ہے ( لیکن مردوں کے لئے محض اپنی خوبصورتی کو بر قرار رکھنے کی خاطر مصنوعی بالوں کا استعمال خواہ انسان کے ہوں یا کسی جانور کے شرعاً پسندیدہ نہیں ہے ،
لہٰذا اس سے اجتناب بہرحال بہتر ہے ) یا اس طرح کھال پر چسپاں کر دینا کہ اس کا آسانی سے الگ کرنا ممکن نہ ہو ۔ اور اس صورت میں چونکہ یہ بال بدن کا حصہ بن جاتے ہیں تو ان پرمسح کرنا اور غسل کرنا بھی جائز ہے ۔ البتہ اگر وگ ایسا ہو جسے باآسانی لگایا اور اتارا جاسکتا ہو، وہ ٹوپی کے حکم میں ہے ، وضو میں اس کو اتار کر سر کا مسح کرنا ضروری ہے ۔ ملحوظ رہے کہ کسی دوسرے انسان کے بال لگوانا شرعاً ناجائز اور حرام ہے ، خواہ وگ ایسا ہو، جسے بآسانی اتارا جاسکتا ہو یا آپریشن کے ذریعے سر میں فٹ کر دیا گیا ہو۔

📃بدائع الصنائع میں ہے کہ *" ان استعمال جزء منفصل عن غیرہ من بنی آدم اہانة بذلك الغیر و الآدمی بجمیع اجزائه مکرم ولا اہانة فی استعمال جزء نفسه فی الاعادۃ الی مکانه " اھ*
*(📔 بدائع الصنائع ج 4 ص 316 )*

📄اور اسی میں ہے کہ *" ولا بأس بذالك من شعر البهیمة وصوفها لانه انتفاع بطریق التزین بما یحتمل ذالك " اھ*
*(📘 بدائع الصنائع ج 4 ص 302 )*

📜 اور در مختار مع رد المحتار میں ہے کہ *" العضو المنفصل من الحی کمیتته کالاذن المقطوعة والسن الساقطة الا فی حق صاحبه فطاهر وان کثر . قال الشامی السن الساقطة تقدم فی الطهارۃ ان المذهب طهارۃ السن وان کثر ای زاد علی وزن الدرھم فلوصلی به و هو معه تصح صلاته " اھ*
*( 📕در مختار مع رد المحتار ج 5 ص 218 )* 

📑اور فتاوی شامی میں ہے کہ *" أنّ الغسل فى الاصطلاح غسل البدن و اسم البدن یقع علی الظاهر و الباطن إلا ما یتعذر إیصال الماء إلیه أو یتعسر کما في البحر " اھ*
*(📚فتاوی شامی ج 1 ص 284 : مطبوعہ زکریا دیوبند )*

*واللہ اعلم بالصواب*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

*✍🏻کتبــــــــــــــــــــہ:*
*حضرت مولانا کریم اللہ رضوی صاحب قبلہ مدظلہ العالی والنورانی خادم التدریس دارالعلوم مخدومیہ اوشیورہ برج جوگیشوری ممبئی۔*
*+917666456313*

*✅الجوابــــــ صحیح والمجیبـــــ نجیح: فقط محمد امجد علی نعیمی، رائےگنج اتر دیناج پور مغربی بنگال، خطیب وامام مسجدنیم والی مرادآباد اترپردیش الھند۔*
*✅الجواب صحیح والمجیب نجیح: حضرت مولانا محمد امجد رضا امجدی صاحب قبلہ سیتامڑھی بہار۔*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے