قیامت کے دن ہونے والی پوچھ گچھ اور اللّٰه کے نیک بندوں کی شفاعت

*📚 « امجــــدی مضــــامین » 📚*
-----------------------------------------------------------
*🕯قیامت کے دن ہونے والی پوچھ گچھ اور اللّٰه کے نیک بندوں کی شفاعت🕯*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

📬 قیامت کے دن جہنم کے خازن بھی مشرکین سے سوال کریں گے، جیسا کہ سورہ ِزُمر میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: 
’’وَ سِیْقَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِلٰى جَهَنَّمَ زُمَرًاؕ-حَتّٰۤى اِذَا جَآءُوْهَا فُتِحَتْ اَبْوَابُهَا وَ قَالَ لَهُمْ خَزَنَتُهَاۤ اَلَمْ یَاْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ یَتْلُوْنَ عَلَیْكُمْ اٰیٰتِ رَبِّكُمْ وَ یُنْذِرُوْنَكُمْ لِقَآءَ یَوْمِكُمْ هٰذَاؕ-قَالُوْا بَلٰى وَ لٰكِنْ حَقَّتْ كَلِمَةُ الْعَذَابِ عَلَى الْكٰفِرِیْنَ‘‘ (زمر:۷۱)
ترجمہ: اور کافروں کو گروہ در گروہ جہنم کی طرف ہانکا جائے گا یہاں تک کہ جب وہ وہاں پہنچیں گے توجہنم کے دروازے کھولے جائیں گے اور اس کے داروغہ ان سے کہیں گے: کیا تمہارے پاس تمہیں میں سے وہ رسول نہ آئے تھے جو تم پر تمہارے رب کی آیتیں پڑھتے تھے اور تمہیں تمہارے اِس دن کی ملاقات سے ڈراتے تھے؟ وہ کہیں گے: کیوں نہیں مگر عذاب کا قول کافروں پر ثابت ہوگیا۔

اور کفار کے علاوہ بھی ہر ایک سے اس کے اَقوال اور اَفعال کے بارے میں پوچھ گچھ ہو گی۔ 

حضرت ابو بَرزہ اسلمی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’قیامت کے دن بندہ اپنی جگہ سے اس وقت تک ہل نہ سکے گا جب تک اس سے چار باتیں نہ پوچھ لی جائیں۔
(1) اس کی عمر کہ کس کام میں گزری۔ 
(2) اس کا علم کہ اس پر کیا عمل کیا۔
(3) اُس کا مال کہ کہاں سے کمایا کہاں خرچ کیا۔
(4) اس کا جسم کہ اس کو کس کام میں لایا۔
*( ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع، باب فی القیامۃ، ۴ / ۱۸۸، الحدیث: ۲۴۲۵)*

حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: 
’’جس بلانے والے نے کسی چیز (یعنی شرک اور گناہ) کی طرف بلایا ہو گا تو قیامت کے دن وہ ٹھہرا رہے گا اور اس چیز سے چمٹا ہوگا اور اس سے جدا نہ ہو گا اگرچہ ایک ہی آدمی کو بلایا ہو۔ 
پھر آپ نے یہ آیات تلاوت فرمائیں: 
’’وَ قِفُوْهُمْ اِنَّهُمْ مَّسْـُٔوْلُوْنَۙ(۲۴) مَا لَكُمْ لَا تَنَاصَرُوْنَ‘‘۔
*(ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ الصافات، ۵ / ۱۵۶، الحدیث: ۳۲۳۹)*

 لہٰذا ان روایات کو سامنے رکھتے ہوئے مسلمانوں کو بھی اپنے اَقوال اور اَعمال کے بارے میں ہونے والی پوچھ گچھ کے بارے میں فکر کرنی چاہئے اور کسی صورت بھی اس حوالے سے غفلت کا شکار نہیں ہونا چاہئے۔ 

*قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے مقبول بندے شفاعت فرمائیں گے:*
قیامت کے دن مشرکین ایک دوسرے کی مدد نہ کر سکیں گے جبکہ اَنبیاء و اَولیاء و صُلحاء اللہ تعالیٰ کے اِذن سے اہلِ ایمان کی شفاعت فرما کر ان کی مدد فرمائیں گے۔
جیسا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’اَلْاَخِلَّآءُ یَوْمَىٕذٍۭ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِیْنَؕ۠(۶۷) یٰعِبَادِ لَا خَوْفٌ عَلَیْكُمُ الْیَوْمَ وَ لَاۤ اَنْتُمْ تَحْزَنُوْنَ‘‘(زخرف:۶۷،۶۸)
ترجمہ: اس دن گہرے دوست ایک دوسرے کے دشمن ہو جائیں گے سوائے پرہیز گاروں کے۔ (ان سے فرمایا جائے گا) اے میرے بندو! آج نہ تم پر خوف ہے اور نہ تم غمگین ہوگے۔
 اور ارشاد فرماتا ہے:
’’وَ لَا تَنْفَعُ الشَّفَاعَةُ عِنْدَهٗۤ اِلَّا لِمَنْ اَذِنَ لَهٗؕ-حَتّٰۤى اِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوْبِهِمْ قَالُوْا مَا ذَاۙ-قَالَ رَبُّكُمْؕ-قَالُوا الْحَقَّۚ-وَ هُوَ الْعَلِیُّ الْكَبِیْرُ‘‘ (سبا:۲۳)
ترجمہ: اور اللہ کے پاس شفاعت کام نہیں دیتی مگر (اس کی) جس کے لیے وہ اجازت دیدے یہاں تک کہ جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ دور فرمادی جاتی ہے تو وہ ایک دوسرے سے کہتے ہیں : تمہارے رب نے کیا فرمایا ہے؟ تو وہ کہتے ہیں : حق فرمایا ہے اور وہی بلندی والا، بڑائی والا ہے۔

 البتہ یاد رہے کہ بزرگانِ دین کی شفاعت کی امید پر اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری چھوڑ دینا، اس کے عذاب سے بے خوف ہوجانا اور گناہوں میں مبتلا رہنا کسی صورت درست نہیں ہے۔

امام محمد غزالی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:
شفاعت کی امید پر گناہوں میں مبتلا ہونا اور تقویٰ کو چھوڑ دینا ایسے ہے جیسے کوئی مریض کسی ایسے ماہر ڈاکٹر پر اعتماد کر کے بد پرہیزی میں مبتلا ہو جائے جو اس کا قریبی عزیز اور اس پر شفقت کرنے والا ہو جیسے باپ یا بھائی وغیرہ، اور یہ اعتماد جہالت ہے کیونکہ ڈاکٹر کی کوشش، اس کی ہمت اور مہارت بعض بیماریوں کے ازالے میں نفع دیتی ہے تمام بیماریوں کے ازالے کے لئے نہیں، لہٰذا محض ڈاکٹر پر اعتماد کرکے مُطْلَقاً پر ہیز کو ترک کردینا جائز نہیں۔ 
طبیب کا اثر ہوتا ہے لیکن معمولی اَمراض اور مُعتدل مزاج کے غلبہ کے وقت ہوتا ہے، اس لئے انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور صلحاءِ عظام رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کی عنایت ِشفاعت اپنوں اور غیروں کے لئے اسی انداز میں ہوتی ہے اور اس کی وجہ سے خوف اور پرہیز کو ترک نہیں کرنا چاہئے اور اسے کیسے ترک کر سکتے ہیں جبکہ سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بعد سب سے بہتر صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ تھے، لیکن وہ آخرت کے خوف سے تمنّا کرتے تھے کہ کاش وہ چوپائے ہوتے، حالانکہ ان کا تقویٰ کا مل، اعمال عمدہ اور دل صاف تھے اور نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے جنت کا خصوصی وعدہ بھی سن چکے تھے اور وہ تمام مسلمانوں کے لئے عمومی طور پر شفاعت کے بارے میں بھی جانتے تھے، لیکن انہوں نے اس پر بھروسہ نہیں کیا اور ان کے دلوں سے خوف اور خشوع جدا نہیں ہوا اور جو لوگ صحابیّت کے درجے پر بھی فائز نہیں اور انہیں اسلام لانے میں سبقت بھی حاصل نہیں وہ کس طرح خود پسندی میں مبتلا ہو سکتے ہیں اور وہ کیسے شفاعت پر بھروسہ کر کے بیٹھ سکتے ہیں۔
*(احیاء علوم الدین، کتاب ذمّ الکبر والعجب، الشطر الثانی، بیان اقسام ما بہ العجب وتفصیل علاجہ، ۳ / ۴۶۰-۴۶۱)*

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*المرتب⬅ قاضـی شعیب رضـا تحسینی امجــدی 📱917798520672+*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے