شیخ جمالی دہلوی سہروردی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

*📚 « مختصــر ســوانح حیــات » 📚*
-----------------------------------------------------------
*🕯شیخ جمالی دہلوی سہروردی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ🕯*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

*نام و نسب:* 
*اسمِ گرامی:* حامد بن فضل اللہ، بعض مؤرخین کے نزدیک آپ کا نام جلال خان عرف جمالی ہے۔
*لقب:* شیخ جمالی، درویش جمالی، جمال الدین فضل اللہ ۔ "کمبوہ" قبیلہ سے تعلق کی وجہ سے "جمالی کمبوہ" بھی کہا جاتا ہے۔
*تخلص:* جمالی۔
*والد کا اسمِ گرامی:* فضل اللہ تھا۔
*(آثار شیخ جمالی:150)*

*تاریخِ ولادت:* آپ /862ھ، بمطابق 1458ء کو پیدا ہوئے۔ (ایضاً)

*تحصیلِ علم:* صغر سنی میں آپ کےسر سے والد کا سایہ اٹھ گیا تھا۔ اپنی خدا داد استعداد اور قابلیتِ فطری کے سبب عمدہ تعلیم و تربیت سے بہرہ مند ہوئے، اور علوم رسمی میں فضیلت حاصل کی۔ آپ کے مروجہ علوم کے اساتذہ کے نام دستیاب نہیں ہیں، آپ اپنے شیخ کی خانقاہ میں کافی عرصہ رہے ہیں، اور اس وقت کی خانقاہیں ایک یونیورسٹی کادرجہ رکھتی تھیں۔ ہوسکتا ہے آپ نے تمام علوم اپنے شیخ سے حاصل کیے ہوں، کیونکہ شیخ سماء الدین سہروردی شیخِ طریقت کے ساتھ شریعت کے "بحرالعلوم" بھی تھے۔

*بیعت و خلافت:* علوم ظاہری کی تکمیل کے بعد آپ حضرت علامہ شیخ سماءالدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ کے حلقہ ارادت میں داخل ہوئے اور خلافت سے سرفراز ہوئے۔ پیر روشن ضمیر کی خدمت میں رہ کر عبادات، ریاضات اور مجاہدات کئے اور آخرکار درجہ کمال کو پہنچے۔ آپ کے پیر و مرشد آپ سے بہت محبت فرماتے تھے۔

*سیرت و خصائص:* برہانِ ملت، شیخِ عزیمت، شاعرِ حقیقتِ، بحرِ علم و معرفت شیخ حامد بن فضل اللہ المعروف شیخ جمالی سہروردی دہلوی رحمۃ اللہ علیہ۔ آپ قطبِ وقت، بڑے عابد و زاہد تھے۔ ذکر و فکر میں ہمہ تن مشغول رہتے تھے۔ بہت متقی اور پرہیزگار تھے۔ نہایت منکسرالمزاج ،ایک باوقار بزرگ تھے۔ اپنے پیر و مرشد سے انتہائی محبت اور عقیدت تھی، اپنے پیر و مرشد کی خدمت کو اپنے لئے باعث فخر اور سعادت سمجھتے تھے۔جمال صوری اور کمال معنوی سے آراستہ تھے، آپ کے متعلق یہ کہا گیا ہے کہ "شیخ جمال دہلوی، جمال باکمال اور زبان خوش مقال رکھتےتھے"۔
صوفیوں کی بزم میں آپ عارف ہوتے تھے، اور علماء کی مجلس میں جید عالم ہوتےتھے۔

*سیر و سیاحت:* آپ نے بحکم سیروفی الارض دنیا کی خوب سیر کی اور خداوند تعالیٰ کی قدرت کے مناظر، اور اس کی صفات کو دیدہ حق میں سے خوب دیکھا۔ حرمین شریف کی زیارت سے مشرف ہوئے، مدینہ منورہ پہنچ کر فیضان نبوی سے مستفید ہوئے۔ ملتان، یمن، مصر، بغداد، بیت المقدس، روم، شام، عراق، عرب و عجم، آذربائی جان، گیلان، خراسان بہت سے ممالک کی سیر کی اور بہت سے اولیائے کرام و پیران عظام و شعراء نامدار سے ملاقات کی۔ جن میں شیخ صدرالدین ملتانی، مولانا عبدالرحمن جامی، اور شیخ جلال الدین دوانی جیسی عظیم شخصیات شامل ہیں۔

*شعر و شاعری:* بچپن ہی میں والد کا سایہ سر سے اُٹھ گیا تھا لیکن اپنی قابلیت اور محنت کی بدولت اپنے وقت کے عظیم شاعر بن گئے۔ شاعری کی من جملہ اقسام پر مہارتِ تامہ رکھتے۔ آپ کے اشعار سے اہل سخن واقف ہیں۔

آپ نے ایک فارسی کا دیوان چھوڑا ہے، جو نو ہزار اشعار پر مشتمل۔ مثنوی "مہر و ماہ" بھی آپ کی یادگار ہے۔ آپ کی نعت کا یہ شعر بارگاہِ مصطفیٰﷺ میں مقبول ہے۔

؏ موسیٰ زہوش رفت بیک جلوہ ٔصفات
تو عین ذات می نگری در تبسمی

یعنی اللہ کے کلیم حضرت موسیٰ علیہ السلام تو (کوہِ طور پر) صفات کے ایک جلوے سے بے ہوش ہوگئے، اور سیاحِ لامکاں حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ عین ِذات کو دیکھتے اور مسکراتے رہے۔

حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی فرماتےہیں:
کہ حضور سرورکائنات ﷺ نے بعض صلحاء کو اس شعر کے مقبول ہونے کی بشارت دی، اور خوشی خوشی فرمایا:
"ہذاالمدحی"۔ 
"یہ میری نعت ہے"۔

*وصال:* بروز جمعۃ المبارک،10/ذیقعد 942ھ، بمطابق 30/اپریل 1536ء کو آپ کا وصال ہوا۔ آپ کا مزار پر انوار "مہر ولی، دہلی" انڈیا میں ہے۔

*ماخذ و مراجع:* تذکرہ اولیائے پاک و ہند۔ آثار شیخ جمالی۔ اخبارالاخیار۔

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*المرتب⬅ محــمد یـوسـف رضــا رضــوی امجــدی 📱919604397443*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے