-----------------------------------------------------------
*🕯حضرت شاہ بہاءالدین باجن برہان پوری رحمۃ اللہ علیہ🕯*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*نام و نسب:*
*اسم گرامی:* شاہ بہاء الدین۔
*تخلص:* باجن۔
*لقب:* ادیبِ اول اردو، صاحبِ علم و عرفاں۔
*سلسلۂ نسب اس طرح ہے:* حضرت شیخ بہاء الدین شاہ باجن بن حاجی معزالدین بن علاء الدین بن شہاب الدین بن شیخ ملک بن مولانا احمد خطابی مدنی علیہم الرحمۃ والرضوان۔
آپ امیرالمؤمنین حضرت عمر بن خطاب رضی ﷲ عنہ کے بھائی ہبل بن خطاب کی نسل سے ہیں۔ آپ کے جد اعلیٰ، حضرت شیخ احمد خطابی مدنی رحمۃ اللّٰه علیہ حضرت ابو مدین رحمہ اللّٰه کے مریدین میں سے تھے۔ علوم ِ دینیہ میں تبحر حاصل تھا۔ علمِ حدیث کے تو گویا امام تھے۔ حدیث کی اکثر مشکلات صاحبِ حدیث علیہ السلام سے حل کراتے تھے۔ ہمیشہ آدھی رات کے وقت جب روضۂ رسولﷺ کی آستانہ بوسی کےلئے حاضر ہوتے، تو آپ کے لیے حرم محترم کے دروازے خود بخود کھل جاتے تھے، بارگاہِ حبیبﷺ میں راز و نیاز کی باتیں کرتے پھر واپس آجاتے۔
*(گلزار ابرار: 212)*
پھر یکایک دل میں سیر و سیاحت کی آرزو پیدا ہوئی، تو اپنے فرزند ارجمند شیخ ملک کو بھی ہمراہ لیا۔ کچھ طلباء بھی ساتھ ہوگئے، اور مدینۃ المنورہ سے چلے، عراق، خراسان، ماوراء النہر، اور سندھ کی سیر کرتے ہوئے دہلی پہنچے۔ یہاں آپ سے لوگ بڑی محبت سے پیش آئے۔ آپ کی اور آپ کے طلباء کی خوب خدمت کی۔ جب بادشاہ کو آپ کی اطلاع کی آمد ہوئی تو وہ بھی حاضر خدمت ہوا اور شدید خواہش کی کہ آپ ہمارے ملک میں رہیں، اور اپنے فیوضات و برکات سے مستفید فرمائیں۔ پھر سلطان نے اپنی بیٹی کا نکاح آپ کے صاحبزادے ’’شیخ ملک‘‘ سے کردیا۔ کچھ عرصے کےلئے شیخ دہلی رونق افروز رہے۔ کثیر مخلوقِ خدا نے استفادہ کیا۔ کچھ عرصہ بعد اپنے وطن مالوف کی یاد تازہ ہوئی، اور مدینۃ المنورہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ پھر مدینہ طیبہ میں بقیہ زندگی گزاری اور وہیں کی خاک پاک میں آرام فرما ہوئے۔ (ایضا:213)
آپ کے صاحبزادے شیخ ملک دہلی میں قیام پذیر ہوگئے۔ ان کی اولاد کا سلسلہ جاری ہوگیا۔ سب کے سب علم و فضل میں اپنی مثال تھے۔ حضرت شیخ باجن رحمۃ اللّٰه علیہ کےوالد گرامی مخدوم حاجی معزالدین رحمہ اللّٰه حضرت مخدوم جہانیاں سید جلال الدین بخاری رحمہ اللّٰه کے جید خلیفہ تھے۔ ان کی عمر ایک سو چالیس ہوئی۔ سات مرتبہ حرمین کی زیارت سے مشرف ہوئے۔ ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ آپ کو اپنے خاندان کی ملاقات و دیدار کا شوق ہوا۔ اس کےلئے حجاز کے سفر کا ارادہ کیا۔ جب احمد آباد گجرات (ہند) پہنچے تو عقیدت مندوں نے یہاں رہنے پہ مجبور کر دیا۔ پھر یہیں رہائش پذیر ہوگئے۔ ان کی اولاد کا سلسلہ یہیں سے شروع ہوا۔ (ایضا:)
*تاریخِ ولادت:* آپ کی ولادت باسعادت 790ھ مطابق 1388ء کو احمد آباد گجرات (ہند) میں ہوئی۔
*تحصیلِ علم:* آپ ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ گھر کا ماحول شروع سے ہی مذہبی تھا۔ اس لیے بچپن میں ہی دین کی طرف لگاؤ پیدا ہوگیا تھا۔چار سال کی عمر تھی کہ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ ان کو شہید کر دیا گیا۔ آپ کی تعلیم و تربیت کی ساری ذمہ داری آپ کی والدہ محترمہ پر آگئی۔ انہوں نے یہ ذمہ داری خوب نبھائی۔ آپ کی والدہ کی خواہش تھی کہ حضرت شاہ برہان الدین کی خدمت میں رہ کر تعلیم و تربیت حاصل کریں، اور شاہ صاحب نے آپ کوئی خاص توجہ نہیں کی۔ پھر ایک دن وہ اپنے چچا زاد بھائی شیخ میاں کی معرفت شیخ رحمت اللہ کی خدمت میں پہنچے، خانقاہ میں تعلیمی سلسلہ شروع کیا، اور وہیں پہ تکمیل ہوئی۔
*بیعت و خلافت:* دورانِ تعلیم آپ حضرت شاہ رحمت اللہ رحمۃ اللّٰه علیہ کو قریب سے دیکھا، اور متأثر ہو کر دستِ بیعت ہوئے۔ اکیس سال ان کی خدمت میں گزارے۔ یہاں تک کہ ولایت کے درجے کو پہنچے۔
*سیرت و خصائص:* جامع الفضائل و الکمالاتِ علمیہ و عملیہ، صاحبِ اوصافِ کثیرہ، حضرت شیخ بہاء الدین باجن برہان پوری رحمہ اللّٰه۔
آپ اپنے وقت کے نام ور عالم دین، صوفی شاعر، اور ولی کامل تھے۔ اپنے اکابرین کی اعلیٰ صفات کے حامل، ان کی امانتوں کے وارثِ کامل تھے۔ اپنے پیر و مرشد کی خدمت میں اکیس سال گزارے، اور پھر ان کی اجازت سے خشکی کے راستے سفر حجاز پر روانہ ہوئے۔ دہلی سے خراسان پہنچے۔ وہاں سے کعبہ کی زیارت کے لیے روانہ ہوئے۔ مراقبہ میں دیکھا کہ حضور سرور کائناتﷺ حج کی قبولیت کا مژدہ سنا رہے ہیں اور برہان پور کی طرف مراجعت کی ہدایت فرما رہے ہیں۔ اسی طرح خواب میں آپﷺ نےآپ کے پیر و مرشد سے فرمایا کہ اپنے مرید سے کہ دو کہ خیالِ حج جو تم نے کیا تھا وہ قبول ہوا۔ اب لوٹ خراسان سے برہان واپس آجائے، اور وہیں قیام کرے، لوگوں کو دین کی طرف بلائے، اور ان کا تزکیہ کرے۔ اس کی تعبیر آپ نے اپنے پیر و مرشد کے وصال سے کی۔
چنانچہ نفس الامر میں ایسا ہی ہوا۔ شیخ رحمت اللہ کا کوئی فرزند نہیں تھا، لہذا انہوں نے اپنے بھتیجے کو شیخ احمد عطاء اللہ بن شیخ شہر اللہ کو اپنا جانشین مقرر کیا، اور وصیت کی کہ یہ خاص خرقہ شیخ باجن کے سپرد کر دینا جو خراسان سے واپس آرہے ہیں۔ آپ مرقدِ شیخ پہ حاضر ہوئے۔ امانتی خرقہ لیا۔ پھر چند سال شیخ کے سجادہ نشین شیخ عطاء اللہ کی خدمت میں گزارے۔ پھر اشارۂ غیبی سے دکن کی طرف روانہ ہوئے۔ دولت آباد میں پہنچ کر سلطان برہان الدین غریب نواز کے مرقد مبارک پر حاضر ہوئے، اور علو ہمتی کی درخواست کی، یہاں سے شہر بیدر کیطرف روانہ ہوئے، وہاں شیخ منجھلے تھے۔ جو منصور ِ زماں مسعود بک کے خلیفہ تھے۔ان کی خدمت میں رہ کر چلہ کشی کی۔ یہاں سےآپ کو خرقۂ خلافت عطاء ہوا۔
(ایضا:214)
پھر غیب سے ایسی قبولیت حاصل ہوئی کہ ہر طرف سے مخلوق خدا حاضر ہونے لگی۔مخلوق سے دل اکتایا، پھر آٹھ سال تک خلوت میں چلہ کشی کی، اور شہر سے چلے گئے۔ اس کے بعد دیرینہ فرمان کی تعمیل عمل میں آئی جو برہان پور کی نسبت تھا۔ برہان پور کے قریب نواحی موضع خان پور میں قیام کیا، جب مشائخ کرام اور حاکم وقت کو ان کی آمد کی اطلاع ہوئی تو بصد اکرام و اعزاز ان کو شہر لائے، اور ان کےلئے ایک مسجد، خانقاہ، اور خوابگاہ (گھر) تعمیر کروائے۔ پھر بقیہ عمر یہیں لوگوں کی تربیت کرتے ہوئے گزاری، اسی مقام پر انتقال ہوا۔
*اردو زبان کے پہلے ادیب:* اردو زبان کی ابتدائی تاریخ کے مطالعے سے واضح ہوتا ہے کہ اس کے فروغ میں صوفیائے کرام کا نمایاں کردار تھا۔ زبان کے تشکیلی مراحل سے اس کی ترقی تک صوفیا کرام کے مختلف سلسلوں نے اس کو اختیار کیا اور اس سے قربت کا محرک بنے۔ اگرچہ صوفیا کرام کا اصل مقصد تبلیغ و اصلاح تھا مگر بندگان خدا تک ترسیل و ابلاغ کے ایک ذریعے کے طور پر انھوں نے اس زبان کو اختیار کیا۔ کچھ تو ان کا خلوص اور جدوجہد اور کچھ اردو زبان کا عوامی لہجہ دونوں نے مل کر ایک دوسرے کو تقویت بخشی۔ واقعہ یہ ہے کہ صوفیائے کرام ایک ایسی دنیا کی تعمیر میں منہمک تھے جہاں دنیا داری کا شائبہ تک نہیں تھا بلکہ ایثار و اخلاص کی کار فرمائی تھی۔ اثیار و اخلاص کے اسی ماحول میں اردو زبان نے اپنا سفر شروع کیا۔
شمس الرحمن فاروقیؔ نے’’اردو کا ابتدائی زمانہ،ادبی تہذیب و تاریخی پہلو ‘‘ میں شیخ بہاء الدین باجن رحمۃ اللّٰہ علیہ کو اردو کا پہلا باقاعدہ ’’ادیب ‘‘ قرار دیا ہے۔
شیخ باجن نے ’’خزائن رحمت اللہ‘‘ کے نام سے اپنا فارسی اور ہندی کلام کا مجموعہ مرتب کیا۔ اس میں صوفیا کی معروف و مقبول صنف سخن جکری بھی شامل تھی۔
’’خزائن رحمت اللہ ‘‘میں شیخ نے ایک عرصۂ طویل کے لیے اردو زبان اور ادب کے حدود اربعہ بیان کردیے ۔ اس کی زبان ہندی ہے، اس کی بحریں ہندوستانی بھی ہیں اور فارسی بھی۔ اس کے مضامین مذہبی صوفیانہ بھی ہیں اور دنیاوی بھی۔ اس شاعری کی جڑیں عوام میں گہری ہیں۔ اور ہر دل عزیز بن جانے کی صفت اس میں پوری طرح موجود ہے۔ اس کے معاملات میں زہد، روحانی اور صوفیانہ پاکیزگی نمایاں ہے۔ وطن کی محبت بھی ایک نمایاں وصف ہے۔
*(ارود کا ابتدائی زمانہ: 70۔ 69)*
انسان دوستی اور وطن سے غیر معمولی محبت نے ہی صوفیا کے آستانوں کو مرجع خلائق بنا دیا تھا۔ ان کے یہاں خویش و بیگانے کا لفظ ہی نہیں تھا۔ عام انسانوں کی بھلائی اور رہنمائی کے جذبے کے تحت ہی صوفیا نے ان زبانوں کو اختیار کیا جس کا دائرہ وسیع تھا۔ اور جس میں اتنی قوت تھی کہ اس سے پیغام رسانی ممکن ہو سکے۔ مخلوط زبانوں کا معیار خصوصا مقامی بولیوں اورمخلوط زبان فارسی صوفیا کے یہاں زیادہ ملتی ہے۔ ’’خزائن رحمت اللہ‘‘ نامی مجموعہ شیخ باجن کی یادگار ہے۔ اس میں انہوں نے اپنے پیر حضرت شاہ رحمت اللہ کے ارشادات، دوسرے بزرگوں کے اقوال وغیرہ جمع کیےتھے۔ جابجا اپنے اشعار اور دوہے بھی نقل کیے ہیں۔ کل آٹھ خزانے ہیں۔ زبان بالعموم سادہ اور آسان ہے۔ ان کا کلام اردو ادب کے اولین نقوش میں نمایاں مقام کا حامل ہے۔ صدافسوس کہ پاک وہند میں ’’اردو ادب‘‘ کی ترقی و نشریات کےکئی ادارے موجود ہیں، لیکن اردو ادب کے ادیبِ اول پر کوئی کام نہیں کیا گیا۔ نہ ہی ان کی شاعری کا مجموعہ دستیاب ہے۔
آپ رحمۃ اللّٰه علیہ کے جانشین آپ کے صاحبزادے حضرت شیخ عبدالحکیم باجن رحمہ اللّٰه ہوئے۔ ’’صاحبِ کنزالعمال‘‘ حضرت شیخ علی متقی رحمہ اللّٰه ان کے مریدین و خلفاء میں سے ہیں۔
*تاریخِ وصال:* آپ کا وصال 14/ ذوالقعدہ 912ھ مطابق آخرِ مارچ/1507ء کو ہوا۔ مزار پُر انوار برہان پور انڈیا میں مرجعِ خلائق ہے۔
*ماخذ و مراجع:* گلزار ابرار۔اردو کا ابتدائی زمانہ۔
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*المرتب⬅ محــمد یـوسـف رضــا رضــوی امجــدی 📱919604397443*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں