بھارت کی جمہوریت تباہی کے دہانے پر
امریکہ کے سابق صدر ابراہم لنکن (1809-1865)نے کہاکہ جمہوریت عوامی حکومت ہے جوعوام کے ذریعہ منتخب اور عوامی مفاد کے لیے ہو::
Government of the people,by the people,for the people.
جمہوریت میں فتح اس کی ہوتی ہے،جس کی اکثریت ہوتی ہے۔بھارت میں اس کے برعکس ہورہا ہے۔بی جے پی کے پاس آج تک قریباً تیس فی صد ووٹ ہے،اوروہ حکومت میں ہے۔ سیکولر پارٹیوں کے پاس قریباً ستر فی صد ووٹ ہے، لیکن وہ حکومت سے باہر ہیں۔ اس کی وجہ بالکل ظاہر ہے کہ سیکولر ووٹ تقسیم ہوجاتے ہیں۔اسمبلی یا پارلیامنٹ کی ایک سیٹ پر بی جے پی یا این ڈی اے کا ایک امیدوار ہوتا ہے،دوسری جانب سیکولر پارٹیوں کے چارپانچ امیدوار ہوتے ہیں۔بی جے پی کا ووٹ بی جے پی کو چلا جاتا ہے اورسیکولر ووٹ تقسیم ہوجاتا ہے۔ایسی صورت میں سیکولر امیدواروں کا ہارجانا بالکل یقینی ہے۔
پہلے سیکولر ووٹ زیادہ تر کانگریس کو جاتے تھے،اور کچھ کمیونسٹ کو،پھر کانگریس کی غلط پالیسیوں کے سبب ایمر جنسی کے بعددیگرسیکولر پارٹیاں وجود میں آنے لگیں اورووٹ تقسیم ہونے لگا۔ایمر جنسی کے بعد جن سنکھ پارٹی نے تجدید کاری کی اور 1980 میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی شکل میں نمودار ہوکر ہندودھر م اور رام مندرکے نام پرہندؤں کومشتعل اور اپناطرفدار بنانے لگی۔مذہبی جذبات یاقومی،علاقائی،نسلی جذبات کو ابھارکر کسی قوم کو بہت جلد اپنی طر ف مائل کیا جاسکتا ہے۔وہی سب کچھ یہاں ہوا،اوریہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔
اس کے جواب میں مول نواسی قوم کی ملک گیرتحریک ”بام سیف“کی طرف سے مسلسل تشہیرکی جارہی ہے کہ صرف آرین قوم سناتن دھرمی اور ہندوہیں۔مول نواسی قومیں یعنی ایس سی،ایس ٹی،اوبی سی (SC, ST & OBC)ہندو یا سناتن دھرمی نہیں ہیں۔ وہ تمام اقلیتوں،یعنی مسلم،سکھ،عیسائی،بودھ،جینی وغیرہ کو اپنا ایک اٹوٹ حصہ مانتے ہیں اورکہتے ہیں کہ یہ سب ہمارے لوگ ہیں،جنہوں نے عہد ماضی میں آرین قوم کے ذات پات سسٹم اوران کے مظالم کے سبب ان مذاہب کواختیارکرلیا تھا۔
یہ سوال کہ سیکولر پارٹیوں کے ہار جانے سے نقصان کن لوگوں کا ہوتا ہے۔جواب یہ ہے کہ ہارجانے پر پبلک اور امیدوار دونوں کا نقصان ہوتا ہے۔فرقہ پرست پارٹیاں جیت جاتی ہیں۔فرقہ پرست قوتوں سے ملک کو بڑا نقصان ہے۔
ماب لنچنگ کے واقعات ملک بھر میں ہوئے،تاکہ مسلمانوں اور پس ماندہ طبقات کودہشت میں مبتلا رکھا جائے۔ سی اے اے نامی قانون بنایا گیا۔ جن ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت تھی، ان ریاستوں میں مظاہرین کو گولیوں سے ہلاک کر دیا گیا۔دہلی میں فساد ہوا۔لوگوں کی جان ومال کی تباہی ہوئی۔
ایس سی، ایس ٹی،اوبی سی کا ریزرویشن ختم کرنے کی سازشیں ہورہی ہیں۔ ملک بھر میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کی گرم بازاری ہے،یہاں تک کہ کورونا وائرس کوبھی مسلمانوں سے جوڑ دیا گیا اورجابجا مسلمانوں پر تشدد کیا گیا۔ایسے امورکی ایک لمبی فہرست ہے۔دستور کو بدل کر ایک جدیددستور کی اندرونی سازشیں ہورہی ہیں،تاکہ ہمیشہ کے لیے غیرسورنوں کوغلام بنالیا جائے،پھر کسی کی جان،مال،عزت وآبروکچھ بھی محفوظ نہیں رہے گی۔انسان زندہ لاشوں کی طرح رہیں گے۔اسپین کے حالات کابغور جائزہ لیا جائے۔غلط حکمت عملی کے سبب وہاں سے قوم مسلم کا نام ونشان مٹ گیا۔
ہارجانے سے امیدوار کانقصان یہ کہ اس کی وہ ساری رقم برباد ہوجاتی ہے،جو اس نے الیکشن کے موقع پر خرچ کیا تھا۔ سیکولر پارٹیوں کے امیدواروں کوبھی چاہئے کہ جب ان کی کامیابی کی امید نہ ہوتو بلا ضرورت اپنی جمع رقم کو برباد نہ کریں۔ الیکشن میں رقم برباد کریں گے،پھر اپنے نقصان کی تلافی کے لیے غلط طریقوں کو اختیار کریں گے تو ملک کی تباہی ہے۔
چوں کہ سیکولر پارٹیاں متحدہ محاذ بناکر الیکشن نہیں لڑتی ہیں،اس لیے سیکولر ووٹرس اپنے اسمبلی وپارلیامانی حلقے میں سروے کر یں اور جس سیکولر امیدوار کی کامیابی کی زیادہ امید ہو، اسی کے لیے ماحول سازی کریں اور اسے کامیاب بنائیں۔
ابھی سب سے اہم مسئلہ ملک کو فرقہ پر ستوں سے محفوظ رکھنا ہے۔سیکولر ووٹرس متحد ہوکر اپنی بیداری کا ثبوت دیں،پھر ان شاء اللہ تعالیٰ مستقبل کے لیے کوئی راہ نکل آئے گی۔محض ووٹ فی صدبڑھانے کے لیے کسی سیکولر پارٹی کے امیدوار کو ووٹ دینا اور سارے سیکولر امیدوار کا ہارجانا،پھر فرقہ پرستوں کا حکمراں بن جانا یہی بی جے پی کی سازش ہے،بلکہ بی جے پی ووٹ منتشر کرنے کے لیے بھی بعض سیکولر پارٹیوں کی طرف سے امیدوار نامزد کرواتی ہے،تاکہ ووٹ منتشرہونے کے سبب تمام سیکولرامیدوارہارجائیں اوربی جے پی جیت جائے۔کسی پارٹی کے محض ووٹ فی صد کوبڑھانے کے چکر میں فرقہ پرستوں کو کامیاب نہ کیا جائے۔
یہ سوال کہ کانگریس کے عہد حکومت میں بھی وسیع پیما نے پرفسادات ہوئے۔اس کا جواب یہ ہے کہ کانگریس بھی برہمنوں کی پارٹی ہے اور سافٹ ہندتو کی حامی ہے،تاہم سافٹ ہندتو اورہارڈ ہندتومیں بہت فرق ہے۔ اگر آزادی ہند کے وقت بی جے بی مرکز میں قابض ہوتی تو شاید ملک کا سیکولر دستور بھی بننا مشکل ہوجاتا۔
آج تک بی جے پی سب سے زیادہ کانگریس پر حملہ آور ہوتی رہی ہے،کیوں کہ سورنوں کا ووٹ اسے اپنی طرف لانا تھا۔ اب سورنوں کاووٹ بی جے پی کی طرف جا چکا ہے، کیوں کہ وہ ہارڈ ہندتو کے نظریہ کی حامل ہے۔تعجب ان مسلمانوں پر جو بی جے پی کوووٹ دیتے ہیں،حالاں کہ بی جے پی اعلانیہ کہتی ہے کہ ہم کو مسلمانوں کاووٹ نہیں چاہئے۔سورنوں کی کوئی پارٹی مسلمانوں کی حقیقی خیرخواہ نہیں ہوسکتی۔آرین قوم میں شاذونادر کوئی انسانیت نواز ہوسکتا ہے،ورنہ وہ مثل یہود ہے۔
بہار الیکشن 2020 قریب آچکا ہے۔ سیکولر گروپ کی طرف سے مہا گٹھ بندھن،مجلس اور دیگرسیکولر امیدوار میدان میں ہیں۔سیمانچل کے علاقے میں اورجہاں مجلس کا زور ہے،وہاں مجلس کوووٹ دیا جائے۔جن علاقوں میں مہاگٹھ بندھن کی جیت کی امید زیادہ ہے،وہاں مہاگٹھ بندھن کو ووٹ دیں۔دیگرسیکولرامیدوارکا زورجہاں نظرآئے،وہاں اسی کوکامیابی دلائیں۔ ووٹ کومنتشر ہونے سے بچائیں اورالیکشن سے قبل ہرعلاقے کے ووٹ دہندگان کسی ایک سیکولر امیدوار پر اتحاد کی کوشش کریں۔
طارق انور مصباحی
ایڈیٹر:ماہنامہ پیغام شریعت (دہلی)
جاری کردہ:24:جولائی 2020
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں