اطلاق خطا اور گستاخی کا شور : ایک تجزیاتی مطالعہ

اطلاق خطا اور گستاخی کا شور : ایک تجزیاتی مطالعہ

تحریر : خلیفہ حضور تاج الشریعہ حضرت علامہ *غلام مصطفےٰ نعیمی* صاحب قبلہ
 مدیر اعلیٰ سواد اعظم دہلی
جنرل سیکریٹری تحریک فروغ اسلام، دہلی

*قسط-1*

ڈاکٹر اشرف آصف جلالی صاحب کے ایک جملے پر پاک وہند میں خوب تنازع برپا ہے۔ 
معاملے کی حساسیت کے پیش نظر ہم نے اس معاملے پر سکوت زیادہ بہتر سمجھا لیکن بدلتے حالات کے پیش نظر ضروری ہے کہ مذکورہ معاملے کے اہم پہلوؤں پر تجزیاتی تحریر لکھی جائے تاکہ عوام وخواص فریقین کے دعووں اور دلائل سے باخبر ہوسکیں اور کسی بہتر نتیجے تک پہنچ سکیں۔

چند ماہ قبل "شان مولیٰ علی رضی اللہ عنہ" سیمینار میں باغ فدک کے ضمن میں جلالی صاحب نے پیر مہر علی شاہ گولڑوی کی کتاب "تصفیہ مابین سنی وشیعہ" کا ایک اقتباس پڑھ کر اس کی تشریح کرتے ہوئے یہ کَہ دیا کہ:
"مطالبہ فدک کے وقت سیدہ فاطمہ خطاء(اجتہادی) پر تھیں۔"

دوران تقریر اور بعد میں مہینوں تقریر کے متعلق کہیں کوئی بات سننے میں نہیں آئی لیکن کسی بندے نے سیاق و سباق سے ہٹا کر محض اسی جملے کی کلپ "گستاخی فاطمہ" کے کیپشن کے ساتھ وائرل کردی دیکھتے ہی دیکھتے پڑوسی ملک میں جلالی صاحب کی مخالفت شروع ہوگئی۔مخالفت کرنے والوں میں تین گروہ اہم ہیں:
1-رافضی
2- سنفضی(نیم سنی نیم رافضی) 
3-بعض سنی علما ومشائخ

مخالفین میں یہی تین گروہ پیش پیش ہیں۔درجہ بندی کے بعد اختلافی نقطہ نظر کو سمجھنے میں زیادہ آسانی ہوگی۔
رافضی طبقہ اہل بیت اطہار کو "معصوم" گردانتا ہے اس لیے وہ ہمیشہ سے عقیدہ اہل سنت کے مخالف رہے ہیں اس لیے ان کی مخالفت باعث حیرت نہیں. 
سنفضی/تفضیلی طبقے کے افراد بظاہر خود کو سنی کہلاتے ہیں لیکن مزاجاً روافض کی اتباع وپیروی کرتے ہیں اس لیے جیسے ہی کوئی موقع ملتا ہے تو عقیدہ اہل سنت کی مخالفت اور روافض کی حمایت کا کوئی موقع نہیں چھوڑتے۔حالیہ معاملے میں جیسے ہی روافض نے شور مچایا تو امیدوں کے عین مطابق سنفضی اور تفضیلی بھی ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے مخالفت کی مہم میں شانہ بشانہ شریک ہوگئے۔
اختلاف کرنے والوں میں کئی ذمہ دار سنی علما ومشائخ بھی شامل ہیں۔ان میں سے بعض نے لفظ "خطا" کے استعمال کو بے ادبی اور گستاخی قرار دیتے ہوئے توبہ ورجوع کا مطالبہ کیا۔تو بعض علما نے مذکورہ جملے کو محض تعبیری خطا قرار دیا اور سیدہ فاطمہ کے شایان شان نہ سمجھتے ہوئے اسے تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا۔
سنی علما ومشائخ کے مخلصانہ مشوروں کو قبول کرتے جلالی صاحب نے اپنے جملے سے رجوع کرتے ہوئے یہ بیان دیا:
"ہم سیرت فاطمہ اور فدک کے بیان میں بھی سیدہ فاطمہ کی جانب خطائے اجتہادی کا ذکر جائز نہیں سمجھتے لیکن روافض کے رد کے وقت بمجبوری خاص اسی موقع پر اس لفظ کا استعمال کرتے ہیں لیکن روافض کے فریب سے عوام اہل سنت کے اعتقادی تحفظ کی خاطر ہم اس لفظ کو ترک کرتے ہیں۔"
اس وضاحت کے بعد بھی حالات پر کوئی فرق نہیں پڑا الٹا جلالی صاحب کی مخالفت میں لابنگ بڑھتی گئی،نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ ان کے بائکاٹ کی اپیلیں جاری ہونے لگیں اور بعض سیاست دانوں کی مہربانیوں سے قومی اسمبلی میں مذمتی قرار داد بھی پیش کی گئی۔
اپنے موقف کی وضاحت اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے عقیدت و محبت کا اظہار کرتے ہوئے "شان بتول کانفرنس ، بے خطا بے گناہ سیدہ زہرا کانفرنس" جیسی کئی کانفرنس منعقد کی گئیں جن میں جلالی صاحب نے نہایت عالمانہ اور مؤدبانہ لب و لہجے میں گھنٹوں خطاب کیا لیکن مخالفین پر ان خطابات کا کوئی اثر نہیں پڑا۔

*حالیہ معاملے پر ایک نظر*
جلالی صاحب کے بیان پر رافضی، طبقے کے علاوہ تفضیلی، سنفضی اور بعض سنی علما ومشائخ کے اعتراضات سامنے آئے ہیں۔شیعوں نے اپنی فطرت کے مطابق تبرا اور گالی بازی شروع کردی ان کی اتباع وپیروی میں سنفضی طبقہ بھی آگے آیا اور دونوں نے مل کر جلالی صاحب کو "ولد الزنا، نطفہ نامعلوم، مردود، حرامی، حیضی بچہ،منافق شیطان، ناصبی،یزیدی، جیسی گالیاں دے کر اپنے ذوق خاص کا اظہار کیا۔اب جس گروہ کے نزدیک جماعت صحابہ پر تبرا اور گالی گلوچ مذہبی کلچر کا حصہ ہو اس کی بدزبانی سے بھلا کون محفوظ رہ سکتا ہے؟
ایسے گالی بازوں کے جواب سے ہم بھی معذور ہیں اور "قالوا سلاما" میں ہی عافیت جانتے ہیں۔
رہ جاتے ہیں سنی علما ومشائخ کے اعتراضات،ان میں معترضین کے دو طبقے ہیں:
1-بعض حضرات نے اسے تعبیری خطا قرار دیا اور "احترام اہل بیت" کے پیش نظر اس جملے سے رجوع کا مطالبہ کیا۔
2-بعض کے نزدیک"سیدہ کی جانب خطا کی نسبت شدید گستاخی اور بے ادبی ہے جس سے توبہ ورجوع لازمی ہے۔"
طبقہ اول نے محبت اہل بیت اور لحاظ عرف کے باعث "مذکورہ جملے"کو بدلنے کی اپیل کی۔ان کی یہ اپیل یقیناً ان کے خلوص اور محبت اہل بیت کی دلیل ہے۔ ہمیں بھی اس حد تک ان سے اتفاق ہے کہ عوامی عرف کے پیش نظر "مطالبہ فدک" میں یہی مضمون مزید بہتر انداز میں بیان کیا جاسکتا تھا۔جیسا کہ "مشکلات الحدیث" میں غزالی زماں علامہ احمد سعید کاظمی نے کیا ہے جس کے مطابق سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے اجتہاد کو صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے اجتہاد سے مختلف قرار دیتے ہوئے اجتہاد صدیقی کو "بہتر" قرار دیا ہے۔
غزالی زماں کے اقتباس کی تشریح کی جائے تو نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ "قضیہ فدک" میں سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا فیصلہ ہی مبنی بر صواب تھا۔لیکن آپ نے عرف کے پیش نظر ان لفظوں سے پرہیز کیا جن سے رافضی اور رافضی نواز اہل سنت کو ورغلا سکتے تھے جیسا کہ آج کل ہورہا ہے۔
طبقہ دوم نے "نسبت خطا" کو سیدہ کی شان میں بے ادبی اور گستاخی قرار دیتے ہوئے نہایت جذباتی انداز اختیار کیا ہوا ہے۔جذباتیت کی طغیانی میں وہ مسلسل اس بات کو دُہرا رہے ہیں کہ سیدہ کی جانب خطا کا اطلاق کسی طور پر جائز نہیں ہے ایسا کرنا ناصبیت اور بدبختی کی نشانی ہے۔
ان حضرات کے جذباتی رد عمل سے ایکبارگی تو اہل بیت کے تئیں ان کی محبت ظاہر ہوتی ہے لیکن معاملے کا دوسرا رخ دیکھتے ہیں تو حیرت کا شدید جھٹکا لگتا ہے کہ ان "جذباتی دیوانوں" میں وہ "روشن خیال" بھی مورچہ سنبھالے ہوئے ہیں جو سیدہ فاطمہ کے بابا سید عالم ﷺ کی شان اقدس میں کی جانے والی صریح گستاخیوں پر نہ صرف پہلو بدلتے ہیں بلکہ گستاخوں کو شرعی حکم سے بچانے کے لیے تاویلات فاسدہ سے بھی کام لیتے ہیں۔
ایک طرف یہ "جذباتی دیوانے" سیدہ کی جناب میں "خطائے اجتہادی" کا جملہ استعمال کرنے والے کو اہل سنت سے خارج کرنے کی مہم چلا رہے ہیں تو دوسری جانب آقائے دوجہاں ﷺ کی شان میں صریح گستاخیاں کرنے والوں، گستاخیوں کی اشاعت،وکالت اور تبلیغ کرنے والوں سے یاریاں نبھاتے ہیں اور ان کے ساتھ ہم پیالہ وہم نوالہ نظر آتے ہیں۔آخر یہ دو رنگی کیوں؟
سیدہ فاطمہ سے محبت کا دعوی تو سیدہ کے بابا کے دشمنوں سے یارانہ کیسا؟
طبقہ ثانی میں وہ افراد بھی ہیں جو "روشن خیال دیوانوں" سے مزاجاً الگ ہیں اور وہ "نسبت خطا" کو محض بے ادبی تسلیم کرتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ لفظ خطا مطلقاً بولا گیا ہے اور مطلق اپنے اطلاق پر جاری ہوتا ہے اور اس سے فرد کامل مراد ہوتا ہے۔اس تشریح کے مطابق خطا سے خطائے معصیت کا ماننا لازم آتا ہے جو یقیناً سیدہ کائنات رضی اللہ عنہا کی جناب میں شدید گستاخی ہے۔
اپنے فہم کے مطابق ان حضرات کا استدلال درست اور بجا ہے لیکن جلالی صاحب پر اس کا انطباق اس لیے درست نہیں ہے کیوں کہ وہ اس بات کی وضاحت کر چکے ہیں کہ ان کی مراد "خطائے اجتہادی" ہے جو نہ گناہ ہے نہ بے ادبی، بلکہ باعث اجر و ثواب ہے۔تو جو چیز باعث اجر ہو اسے کسی معظم شخصیت کی جانب منسوب کرنا ہرگز ہرگز بے ادبی اور گستاخی نہیں ہے۔
کسی قول کی اصل مراد قائل ہی بیان کر سکتا ہے جب قائل اپنی مراد ظاہر کر چکا تو خود سے اس قول کی مراد متعین کرنا علمی اصولوں کے خلاف ہے،اگر جملے میں کوئی متحمل لفظ موجود ہو تب بھی قائل کو دیکھا جائے گا کہ وہ کس سوچ وفکر کا حامل ہے،اعلی حضرت فرماتے ہیں:
"بعض متحمل لفظ جب کسی مقبول سے صادر ہوں بحکم قرآن انہیں معنی حسن پر حمل کریں گے، اور جب کسی مردود سے صادر ہوں جو صریح توہینیں کرچکا ہو تو اس کی خبیث عادت کی بنا پر معنی خبیث ہی مفہوم ہوں گے کہ:
کل اناء یترشح بما فیہ۔
"ہر برتن سے وہی کچھ باہر آتا ہے جوا س کے اندر ہوتا ہے۔"(فتاوی رضویہ ج:29/ص35)

اقتباس بالا کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہاں لفظ "خطا" کے قائل علامہ اشرف آصف جلالی ہیں،جن کی فکر ونظر محتاج تعارف نہیں ہے۔
🔸موصوف بلاشبہ اہل سنت کے نامور محقق،اور متصلب عالم دین ہیں۔
🔸"توحید سیمینار" میں آپ کے تحقیقی خطابات اور تصنیفات بہترین علمی سرمایہ ہیں۔
🔸مذکورہ جملہ بھی"شان مولی علی سیمینار" میں ادا کیا گیا۔(ذرا سوچیں!جو شخص مولی علی کی عظمت بیان کرنے بیٹھا ہو،کیا وہ بانوئے مرتضیٰ کی توہین کرے گا؟)
🔸ماقبل کے جملے میں سیدہ کی عظمت بیان کرتے ہوئے یہ جملہ ادا کیا:
"اہل بیت سے خطا کا امکان تو ہے لیکن رب نے حفاظت فرما دی ہے۔"
🔸مذکورہ جملے کے فوراً بعد "سیدہ کی عظمت " کا بیان کیا۔
🔸عقائد اہل سنت کی ترویج و اشاعت میں موصوف کی قابل قدر خدمات ہیں۔
🔸روافض کے رد میں "عدالت صدیق اکبر،عظمت صحابہ" جیسے کئی اہم سیمینار منعقد کرکے سیکڑوں گھنٹوں پر مشتمل کئی تحقیقی خطاب فرما چکے ہیں۔
عقائد اہل سنت کی حفاظت اور بدعقیدوں کی تردید میں آپ کا نام مشعل راہ ہے۔ایسی پاک فکر ونظر اور خدمات کا وسیع دائرہ رکھنے والے عالم دین پر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی گستاخی کا الزام لگانا علمی دیانت اور انصاف کا خون کرنا ہے۔جس شخص کی پوری زندگی دفاع صحابہ اور عظمت اہل بیت میں گزر رہی ہے، اسے بے ادب قرار دینا کہاں کا انصاف ہے؟
(جاری) 

21 ذوالقعدہ 1441ھ
13 جولائی 2020 بروز پیر

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے