اطلاق خطا اور گستاخی کا شور :ایک تجزیاتی مطالعہ

اطلاق خطا اور گستاخی کا شور :ایک تجزیاتی مطالعہ

قسط-2

تحریر:خلیفہ حضور تاج الشریعہ
حضرت علامہ *غلام مصطفےٰ نعیمی*
جنرل سیکرٹری تحریک فروغ اسلام
روشن مستقبل دہلی

پیش کش: محمد زبیر رضا


*خطا کا معنی اور اطلاق*
چونکہ ساری بحث "انتساب خطا" کی بنیاد پر ہورہی ہے اس لیے ضروری ہے کہ پہلے لفظ خطا کا معنی و محل سمجھ لیا جائے تاکہ فریقین کے دعوؤں کو سمجھنے میں آسانی ہو۔
بنیادی طور پر "خَطا" ایسے قول یا فعل کو کہتے ہیں جو دُرستی کے معیار پر پورا نہ اُترتا ہو،لیکن کرنے والے نے جان بوجھ کر انہیں نہ کیا ہو۔
یعنی ایسا نہ ہو کہ قائل جانتا ہو کہ وہ جو کہنے/کرنے والا ہے وہ درست نہیں ہے مگر پھر بھی اس کام کو کہے یا کرے۔
قران کریم میں لفظ خطا اسی معنی میں استعمال کیا گیا ہے:
اُدۡعُوۡہُمۡ لِاٰبَآئِہِمۡ ہُوَ اَقۡسَطُ عِنۡدَ اللّٰہِ ۚ فَاِنۡ لَّمۡ تَعۡلَمُوۡۤا اٰبَآءَہُمۡ فَاِخۡوَانُکُمۡ فِی الدِّیۡنِ وَ مَوَالِیۡکُمۡ ؕ وَلَیۡسَ عَلَیۡکُمۡ جُنَاحٌ فِیۡمَاۤ اَخۡطَاۡتُمۡ بِہٖ ۙ وَ لٰکِنۡ مَّا تَعَمَّدَتۡ قُلُوۡبُکُمۡ ؕوَکَانَ اللّٰہُ غَفُوۡرًارَّحِیۡمًا ﴿سورۃ الاحزاب:آیت,5﴾ 
"انہیں(لے پالکوں کو) ان کے باپ ہی کا کہہ کر پکارو یہ اللہ کے نزدیک زیادہ ٹھیک ہے پھر اگر تمہیں ان کے باپ معلوم نہ ہوں تو دین میں تمہارے بھائی ہیں اور بشریت میں تمہارے چچا زاد اور تم پر اس میں کچھ گناہ نہیں جو نادانستہ تم سے صادر ہوا ہاں وہ گناہ ہے جو دل کے قصد سے کرو اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔"
دوسرے مقام پر اللہ فرماتا ہے:
 وَ مَنۡ قَتَلَ مُؤۡمِنًا خَطَئًا۔(سورۃ النساء :92)
"اور جو کسی مسلمان کو نادانستہ قتل کرے۔"
 
مذکورہ آیات میں لفظ "خطا" اس عمل کے بارے میں استعمال کیا گیا ہے جس میں قائل وفاعل کا قصد وارادہ نہیں پایا گیا بلکہ نادانستہ صدور ہوگیا۔ساتھ ہی آیات مذکورہ سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ کسی "نادرست عمل" کرنے والے کو مطلقاً "غلط کار وخطاکار" نہیں کہا جاتا نہ ہی اس "نادرست عمل" کو شرعی غلطی مانا جاتا ہے۔ حدیث پاک میں بھی "خطا" کو نادانستہ عمل کے معنی میں ہی استعمال کیا گیا ہے:
إِنَّ اللَّهَ قَدْ تَجَاوَزَ عَنْ أُمَّتِي الْخَطَأَ، وَالنِّسْيَانَ، وَمَا اسْتُكْرِهُوا عَلَيْهِ:(سنن ابن ماجه:رقم الحديث 2121)
بے شک اللہ نے میری اُمت کی خَطاؤں،بھول اور جن کاموں کے کرنے پر اُنہیں مجبور کیا گیا۔(ایسے کاموں) سے درگزر فرمایا ہے)
مذکورہ حدیث میں بھی "خطا" کا اطلاق نادانستہ عمل پر کیا گیا اور اسے قابل درگزر قرار دیا ہے۔درج بالا مثالیں ان اعمال وافعال کے بارے میں ہیں جو کسی بھی عام انسان سے صادر ہوتی ہیں۔عام طور پر خطا کی دو قسمیں کی جاتی ہیں:
1-خطائے عرفی۔
2- خطائے شرعی
خطائے شرعی کی دو قسمیں ہیں:
1-خطائے عنادی: جس میں بالقصد گناہ کیا جاتا ہے۔
2-خطائے اجتہادی: جس میں مجتہد امر خیر کی کوشش کرتا ہے. یہ باعث اجر و ثواب ہے۔ اجتہادی امور میں کسی مجتہد پر تنقید جائز نہیں،فتاوی رضویہ میں ہے:
"اجتہاد پر طعن جائز نہیں، خطاء اجتہادی کی دو قسم ہے، مقرر و منکر، مقرر وہ جس کے صاحب کو اُس پر برقرار رکھا جائے گا اور اُس سے تعرض نہ کیا جائے گا، جیسے حنفیہ کے نزدیک شافعی المذہب مقتدی کا امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنا، اور منکر وہ جس پر انکار کیا جائے گا جب کہ اس کے سبب کوئی فتنہ پیدا ہوتا ہو جیسے اجلہ اصحاب جمل رضی اللہ تعالٰی عنہم کہ قطعی جتنی ہیں اور ان کی خطا یقیناً اجتہادی جس میں کسی نام سنیت لینے والے کو محل لب کشائی نہیں، یا اینہہ اس پر انکار لازم تھا جیسا امیر المومنین مولٰی علی کرم ﷲ تعالٰی وجہہ الکریم نے کیا باقی مشاجراتِ صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہم میں مداخلت حرام ہے،حدیث میں ہے نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں:
اذا ذکر اصحابی فامسکوا۔(۱ المعجم الکبیر حدیث ۱۴۲۷ المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت ۲/ ۹۶)
جب میرےصحابہ کا ذکر آئے تو زبان روکو۔"
(فتاوی رضویہ ج:29 ص:54)

عقیدہ اہل سنت کے مطابق بزرگ ہستیوں کی جانب خطائے عنادی یا خطائے عرفی کی نسبت کرنا ہرگز جائز نہیں ہے کیوں کہ خطائے عنادی ہو کہ خطائے عرفی، انہیں اخلاقی طور پر درست نہیں سمجھا جاتا اور ان باتوں کو صاحب کردار شخص کے لیے معیوب تصور کیا جاتا ہے۔جو باتیں اخلاقاً یا عرفاً معیوب مانی جاتی ہوں انہیں بزرگ شخصیات کی جانب منسوب کرنا حد درجے کی جسارت وگستاخی اور بے ادبی ہے۔اہل سنت وجماعت میں ادب واحترام کا سبق پڑھایا جاتا ہے۔اب رہ جاتا ہے خطائے اجتہادی کا معاملہ، چونکہ خطائے اجتہادی باعث ندامت نہیں بلکہ باعث ثواب ہے،کیوں کہ اس میں امر خیر کی کوشش ہوتی ہے۔درستی کی صورت میں دوگنا اجر اور خطا کی صورت میں بھی ایک اجر ملتا ہے۔ اس لیے غیر معصوم افراد کی جانب اس کی نسبت کرنا بالاتفاق جائز ہے اور شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔

*کیا خطائے اجتہادی کی نسبت گستاخی ہے؟*
معظمین کی بارگاہ میں بے ادبی اور گستاخی انتہائی بد نصیبی اور محرومی کی بات ہے لیکن یہ نکتہ واضح رہے کہ معظمین کے حق میں وہ باتیں گستاخی اور بے ادبی کہلاتی ہیں جو فی نفسہ معیوب اور گناہ ہوں جیسے جھوٹ،غیبت،لالچ وغیرہ۔ چونکہ یہ ساری باتیں اپنے آپ میں عیب اور گناہ ہیں، ان جیسی باتوں کو معظمین کی جانب منسوب کرنا یقیناً پرلے درجے کی گستاخی اور سخت بے ادبی ہے لیکن جس "خطائے اجتہادی" پر شور برپا ہے وہ فی نفسہ عیب اور گناہ نہیں بلکہ باعث اجر و ثواب ہے۔اجتہاد کے درست وخطا ہونے اور اس پر ثواب مرتب ہونے کو حدیث میں اس طرح ذکر کیا گیا ہے:
 "عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِذَا حَكَمَ الْحَاكِمُ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَصَابَ فَلَهُ أَجْرَانِ وَإِذَا حَكَمَ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَخْطَأَ فَلَه أجْر۔(بخاری شریف:رقم الحدیث7352)
"حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول الله ﷺ سے سنا، آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب حاکم کوئی فیصلہ اپنے اجتہاد سے کرے اور فیصلہ صحیح ہو تو اسے دُہرا ثواب ملتا ہے اور جب کسی فیصلہ میں اجتہاد کرے اور خطا کر جائے تو اسے(اجتہاد کرنے کے عوض) ایک گنا ثواب ملتا ہے۔"

اب جو بات عیب وگناہ نہیں، باعث اجر و ثواب ہے اس کی نسبت سیدہ فاطمہ کی جانب کرنا گستاخی قرار کیوں پائے گا؟
سیدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا سے قبل بھی "خطائے اجتہادی" کی نسبت معظمین کی جانب کی جاتی رہی ہے۔
ابوالبشر سیدنا آدم علیہ السلام کے دانہ گندم کھانے کو "خطائے اجتہادی" قرار دیا گیا ہے۔
جنگ جمل کے موقع پر سیدنا مولی علی رضی اللہ عنہ کے بالمقابل ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی جانب "خطائے اجتہادی" کی نسبت کی جاتی ہے۔
جنگ صفین کے موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مقابلے پر آنے والے اجلہ صحابہ کی جانب "خطائے اجتہادی" کی نسبت کی جاتی ہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مقابلے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی جانب "خطائے اجتہادی" کا قول کیا جاتا ہے۔
اس طرح کی درجنوں بلکہ اس سے زائد مثالیں کتب میں موجود ہیں لیکن کبھی بھی معظمین کے حق میں خطائے اجتہادی کی نسبت کو گستاخی قرار نہیں دیا گیا تو آج سیدہ فاطمہ کی جانب انتساب کو کس لیے گستاخی قرار دیا جارہا ہے ؟
جو بات انبیاے کرام کے حق میں گستاخی نہیں ہے وہی بات سیدہ فاطمہ کے حق میں گستاخی کیوں بتائی جارہی ہے !!

اس معاملے پر بعض حضرات حد درجہ جذباتیت اور لفظوں کی بازی گری سے عوام کو Emotionally Blackmail کرنے کی ناروا کوشش کر رہے ہیں۔یہ لوگ جان بوجھ کر "خطائے اجتہادی" کو "خطائے معصیت" بتا کر لوگوں کے جذبات ابھار رہے ہیں۔اگر سیدہ کی شان میں "خطائے معصیت" کی نسبت کی گئی ہوتی تو یہ سارا ہنگامہ جائز تھا لیکن بار بار "خطائے اجتہادی" کی وضاحت کرنے کے باوجود "خطائے معصیت" کی رٹ لگانا اول درجے کی خیانت اور سیدہ پاک کی شان میں شدید قسم کی بے ادبی بھی ہے۔
پچھلے چودہ سو سالوں سے ائمہ ومفسرین، انبیاے کرام،صحابہ اور ام المومنین کے حق میں "خطائے اجتہادی" کی نسبت کرتے آئے ہیں اگر "خطائے اجتہادی" کی نسبت گستاخی مان لی جائے تو جملہ اکابرین امت پر گستاخی کا الزام لازم آئے گا۔لیکن آج تک کسی نے بھی "خطائے اجتہادی" کی بنا پر گستاخی کا قول نہیں کیا تو آج گستاخی قرار دینے کی وجہ کیا ہے؟
کیا ایسی جذباتی باتوں سے غیر شعوری طور شیعوں کے عقیدہ معصومیت کو کھاد پانی فراہم نہیں کیا جارہا ہے؟
ہمارے افراد کے جذباتی رویّوں کو دیکھتے ہوئے سنفضی طبقے نے اہل بیت کے بارے میں "عقیدہ عصمت" کی تخم ریزی شروع کردی ہے، ایک معروف پیر صاحب نے اپنی فیس بک پوسٹ میں لکھا:
"معصوم صرف نبی ہی نہیں فرشتے بھی معصوم ہیں اور درِ زہرا سے خیرات لیتے ہیں جب لینے والے معصوم ہیں تو دینے والوں کی عصمت کیا ہوگی۔"

ایک اور معروف پیر صاحب لکھتے ہیں:
"امکان خطا کا عقیدہ اپنے پاس رکھ۔"

یہ دو مثالیں تو مشتے نمونہ از خروارے کے طور پر درج کردی ہیں ورنہ اگر سوشل میڈیائی تحریروں کو جمع کیا جائے تو حالات نہایت ناگفتہ بہ نظر آتے ہیں۔انہیں سے اندازہ لگائیں کہ کس دیدہ دلیری کے ساتھ اہل بیت کے حق میں "معصوم" بنانے کی مہم چل رہی ہے اگر اس فتنہ کا سدّ باب نہ کیا گیا تو آنے والے وقت میں سنیت میں بھی "عقیدہ عصمت" جڑیں جما لیگا اور پھر اس فتنے کا مقابلہ انتہائی مشکل ہوگا۔ابھی جو لوگ نادانستہ طور پر اس فتنے کو نہیں پہچان پارہے اور لاشعوری طور پر فتنوں کے معاون بن رہے ہیں انہیں امام حسن بصری کا یہ قول یاد رکھنا چاہیے جسے امام بخاری نے التاریخ الکبیر میں نقل فرمایا ہے:
"الفتنة إذا أقبلت عرفها كل عالم، وإذا أدبرت عرفها كل جاهل"
فتنہ جب اٹھتا ھے [یعنی جب کسی فتنے کی شروعات ھوتی ھے] تو ھر عالم اسے پہچان لیتا ھے۔ اور جب فتنہ چلا جاتا ھے تب جاہل اسے پہچانتا ھے۔"

امام حسن بصری کے اس ارشاد سے پتہ چلتا ہے کہ دین میں اٹھنے والے فتنوں کی صحیح سمجھ "علماے دین یعنی دین کی صحیح سمجھ رکھنے والوں" ہی کو ہوتی ہے،وہ فتنوں کے سر اٹھاتے ہی انھیں پہچان لیتے ہیں اور امت کو باخبر کر دیتے ہیں۔جب کہ جاہل اور انجان لوگ ان فتنوں کی حقیقت نہیں سمجھ پاتے۔جب اٹھنے والے فتنے اپنا کام کر جاتے ہیں تب انھیں ان فتنوں کی حقیقت سمجھ میں آتی ہے۔
ایسے ماحول میں جبکہ رافضیت ہماری صفوں میں نقب لگا چکی ہے ہمارے احباب کا اس معاملے پر بیجا جذباتیت سے کام لینا رافضیت کو مزید کمک فراہم کرے گا۔سنفضی طبقہ اس عنوان پر عوام اہل سنت کو ورغلانے کی کوشش میں جٹ گیا ہے۔اس لیے "خطائے اجتہادی" کے باب میں جو طرز عمل اسلاف کا تھا اسی پر قائم رہا جائے، محبت اہل بیت کے نام پر ایک نئی فکر کے داغ بیل سے پرہیز کیا جائے۔اگر اس طرز عمل سے پرہیز نہ کیا گیا تو غیر شعوری طور پر روافض کے "عقیدہ معصومیت" کو کھاد پانی فراہم کرنا ہوگا جس کی ذمہ داری ان جذباتی حضرات کے ذمہ ہوگی۔

22 ذوالقعدہ 1441ھ
14 جولائی 2020 بروز منگل

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے