حضرت امام محمد تقی رضی اللہ عنہ

*📚 « مختصــر ســوانح حیــات » 📚*
-----------------------------------------------------------
*🕯 حضرت امام محمد تقی رضی اللہ عنہ🕯*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

*نام و نسب:* 
*اسمِ گرامی:* محمد۔ 
*کنیت:* ابو جعفر۔
*لقب:* تقی، جواد، قانع، مرتضیٰ۔
*سلسلہ نسب اسطرح ہے:* امام محمد تقی بن امام علی رضا بن امام موسیٰ کاظم بن امام محمد جعفر صادق بن امام محمد باقر بن امام زین العابدین بن امام حسین بن حضرت علی بن ابی طالب۔ آپ کی والدہ کا اسم گرامی ریحان یا سکینہ یا خیزران تھا۔ (رضی اللہ عنہم اجمعین)

*تاریخِ ولادت:* آپ 10رجب المرجب/195ھ، بمطابق /اپریل 811ء کو مدینۃ المنورہ میں پیدا ہوئے۔

*تحصیلِ علم:* خاندانی روایت کے مطابق آپ نے تمام علوم ِ ظاہری و باطنی کی تحصیل اپنے والدِ گرامی اور دیگر شیوخ سے فرمائی۔ آپ اپنے وقت کے علماء و مشائخ میں علم و عمل، اور ہر لحاظ سے ممتاز تھے۔ 

*شواہد النبوت میں ہے:* کہ امام حضرت امام تقی رضی اللہ عنہ صغر سنی میں علم و ادب اور فضل میں اس قدر ترقی کر چکے تھے کہ اس زمانے میں کسی کو ایسے ظاہری و باطنی کمالات حاصل نہ تھے۔

*بیعت و خلافت:* آپ اپنے والدِ گرامی حضرت امام علی رضا رضی اللہ عنہ کے جانشین و خلیفہ تھے۔

*سیرت و خصائص:* امام الاولیاء و الاصفیاء، ساداتِ کرام کے نیر عظیم، خانوادۂ نبوت کے سراج منیر ابوجعفر حضرت امام محمد تقی جواد رضی اللہ عنہ۔
آپ آئمۂ اہلِ بیت کے نانویں امام ہیں۔ آپ حسن جمال و علمی کمالات اور جملہ خصائل میں مثل آباء کرام رضی اللہ عنہ کے تھے، بڑے عالم، بڑے عاقل، بڑے حاضر جواب اور صاحبِ کشف و کرامات تھے، خورد سالی میں مراتبِ امامت کو پہنچے، اِن کے فیض باطن سے بہت لوگ مستفیض ہوئے، خلیفہ مامون الرشید اِن کی کمال تعظیم و توقیر کرتا تھا، جس قدر اِن کے علم و فضل و کمالِ عقل اور فہم و فراست کی حقیقت اُس پر کھُلتی گئی، اُسی قدر وہ تعظیم و تکریم میں مبالغہ کرتا گیا، آخر اپنی بیٹی امّ الفضل سے اِنکا نِکاح کر دیا، اور ہزار دینار خرچ سالانہ آپ کو نذرانہ پیش کرتا رہا۔ 
ایک بار خلیفہ مامون نے قاضی یحییٰ بن اکثم رحمۃ اللہ علیہ سے جو متبحر عالم تھا، اِن کا مناظرہ کر وایا، جس میں وہ نہایت لاجواب ہَوا، اور اِن کو نمایاں فتح ہوئی، اور اراکینِ دولت و اعیانِ سلطنت کی طرف سے احسنت احسنت کے آوازے آنے لگے۔

روحانی قوت و تصرف کا یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ آپ مدینۃ المنورہ جا رہے تھے۔ جب کوفہ پہنچے شام کے وقت مسجد میں قیام فرمایا۔ مسجد کے صحن میں ایک بیری کا درخت تھا جو بالکل خشک تھا۔ آپ نے پانی کا کوزہ منگوا کر اس درخت کے نیچے وضو کیا اور مغرب کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کی۔ اس کے بعد آپ اس درخت کے نیچے پہنچے، تو دیکھا کہ بغیر گٹھلی کے درخت پر پھل آگیا اور لوگوں نے تازہ اور میٹھا پھل بطور تبرک حاصل کیا اور کھایا، اور بعد میں بطورِ تبرک لوگ اس سے پھل لیجاتے تھے۔ 
اسی طرح جب خلیفہ مأمون فوت ہوا تو امام موصوف نے فرمایا کہ میری وفات مامون کی وفات کے تیس ماہ بعد ہوگی۔ چنانچہ یہی ہوا کہ مامون کی وفات کے تیس ماہ بعد امام صاحب کا بھی وصال ہوگیا۔(بارہ امام: 202)

*وصال:* آپ کا وصال 6/ذوالحجہ 220ھ، بمطابق نومبر/835ء کو ہوا۔ آپ کی قبر انور (بغداد شریف، عراق) میں اپنے جد مکرم حضرت امام موسیٰ کاظم رضی اللہ عنہ کے مقبرے میں ہے۔

*ماخذ و مراجع:* اقتبا س الانوار۔ خزینۃ الاصفیاء۔ شواہدالنبوت۔ بارہ امام۔

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*المرتب⬅ محــمد یـوسـف رضــا رضــوی امجــدی 📱919604397443*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے