itekaf ‎ki ‎fazilat ‎aur ‎masailاعتکاف کی فضیلت اور مسائل

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته.

اعتکاف کی فضیلت اور مسائل

  یوں تو پورے ماہ رمضان میں عبادت وریاضت پر کثیر ثواب ہے۔اور ماہ رمضان المبارک کی پوری ساعت ایسی ہے کہ جس میں رب کی خوشنودی ورضا حاصل کی جاسکتی ہے، مگر کچھ چیزیں بطورِ خاص اس ماہ مبارک میں کی جاتی ہیں ۔ ان میں ایک اعتکاف ہے۔ یعنی دنیا کی عظیم ترین جگہ مسجد میں دن رات رہ کر الله تعالی کی عبادت کرنا۔ چوں کہ مسجد کو الله کا گھر کہا جاتا ہے، تو بندہ مسجد میں آکر کچھ دن کےلیے ٹھہر جاتا ہے۔ اور رب تبارک و تعالیٰ سے اپنی محبت اور عبادت الٰہی سے اپنے شوق و ذوق کا اظہار کرتاہے، اور اپنے روٹھے ہوۓ رب کو منانے کی کوشش کرتاہے کہ مولیٰ تعالیٰ مسجد تیرا گھر ہے، مسجد کو تیرے جانب سے نسبت ہے، ہم تیرے ہی گھر میں اپنے عاجزی و انکساری ظاہرکرنے آۓ ہیں، اپنے گناہوں کی تلافی چاہتے ہیں۔ اس طرح بندہ دن رات الله رب العزت کے نام کا مالا جپتا رہتا ہے۔

اعتکاف کا لغوی و شرعی مفہوم

    علامہ اصفہانی لکھتے ہیں کہ اعتکاف کا لغوی معنی ہے تعظیم کی نیت سے کسی چیز کے پاس ٹھہرنا اور شریعت میں عبادت کی نیت سے مسجد میں ٹھہرنے کو اعتکاف کہتے ہیں۔ 
( شرحِ صحیح مسلم،ج ٣ ص ٢٢٠)

اعتکاف کی تعریف 
اعتکاف میں بندہ الله تعالی کے گھر کا مجاور بن کر اس کا قرب حاصل کرتاہے، دنیا کی مصروفیات اور آسائشوں سے کنارہ کش ہوتاہے اور دنیاوی لذتوں کوچھوڑ کر عبادت کی مشقتوں کو اختیار کرتاہے، الله تعالی سے مغفرت اور رحمت کو طلب کرنے کےلیے اس کے گھر میں ڈیرہ ڈال کر بیٹھ جاتاہے۔
(شرحِ صحیح مسلم،ج ٣ ص ٢٢٠)

اعتکاف کے اقسام
اعتکاف کی تین قسمیں ہیں واجب، سنت مؤکدہ اور نفل۔ علامہ کاسانی فرماتے ہیں: اعتکاف کا وجوب نذر مطلق سے ہوتاہے یا نذر مقید سے ، نذر مطلق کی مثال یہ ہے کہ بندہ کہے کہ میں الله تعالی کی رضا جوئی کےلیے ایک دن یا ایک ماہ کا اعتکاف کروں گا، اور نذر مقید کی مثال یہ ہے کہ بندہ کہے کہ میرا فلاں کام ہوگیا یا فلاں بیمار ٹھیک ہوگیا تو میں اتنے دن اعتکاف کروں گا ۔ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرنا سنتِ مؤکدہ کفایہ ہے۔ اعتکاف کے ان دونوں قسموں میں روزہ شرط ہے۔ اعتکاف نفل اگر ایک دن کا ہو تو اس میں بھی روزہ شرط ہے اور چند گھنٹوں یا چند منٹ کا اعتکاف ہو تو اس میں روزہ شرط نہیں ہے۔
(شرحِ صحیح مسلم ج٣ ص٢٢١)
 
فضیلت اعتکاف پر احادیث
حدیث نمبر (١) حضرت ام المومنین صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخرعشرےکا اعتکاف فرمایا کرتے۔(صحیح مسلم ج ١ ص ٥٩٧)
حدیث نمبر(٢) حضرت ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی الله سے مروی ہے وہ فرماتی ہیں: معتکف پر سنت (یعنی حدیث سے ثابت ) یہ ہے کہ نہ مریض کی عیادت کو جائے، نہ جنازہ میں حاضر ہو،نہ عورت کو ہاتھ لگائے اور نہ اس سے مباشرت کرے اور نہ کسی حاجت کے لیے جائے ، مگر اس حاجت کے لیے جاسکتا ہے جو ضروری ہے اور اعتکاف بغیر روزہ کے نہیں اور اعتکاف جماعت والی مسجد میں کرے۔(سنن ابی داؤد ج ٢ ص٤٩٢)
حدیث نمبر (٣) ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے معتکف کے بارے میں فرمایا "وہ گناہوں سے باز رہتا ہے اور نیکیوں سے اسے اس قدر ثواب ملتا ہے جیسے اس نے تمام نیکیاں کیں"۔
  (سنن ابن ماجہ ج٢ ص ٣٩٥)
حدیث نمبر (٤) امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے
 کہ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " جس نے رمضان میں دس دنوں کا اعتکاف کر لیا تو ایسا ہے جیسے دو حج اوردو عمرے کیے۔( شعب الایمان ج٣ ص ٤٢٥)
حدیث نمبر (٥) حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ حضور علیہ الصلاۃ و السلام رمضان کے آخری عشرہ میں فرمایا کرتے تھے اور ایک سال اعتکاف نہیں فرمایا تو دوسرے سال بیس دن اعتکاف فرمایا۔ (ابو داود ج ١ ص ٣٣٤)

اعتکاف کے مسائل

(١) مسئلہ: مسجد میں اللہ عزوجل کے لیے نیت کے ساتھ ٹھہرنا اعتکاف ہے اور اس کے لیے مسلمان ،عاقل اور جنابت و حیض و نفاس سے پاک ہونا شرط ہے، بلوغ شرط نہیں بلکہ نابالغ جو تمیز رکھتا ہے اگر بہ نیت اعتکاف مسجد میں ٹھہرے تو یہ اعتکاف صحیح ہے آزاد ہونا بھی شرط نہیں لہذا غلام بھی اعتکاف کر سکتا ہے مگر اسے مولا سے اجازت لینی ہوگی اور مولی کو بہرحال منع کرنے کا حق حاصل ہے۔(ردالمحتار ج ٣ص ٤٩٢. فتاویٰ عالمگیری ج ١ ص ٢١١)
(٢) مسئلہ : عورت کا مسجد میں اعتکاف مکروہ ہے بلکہ وہ گھر میں ہی اعتکاف کرے مگر اس جگہ کرے جو اس نے نماز پڑھنے کے لیے مقرر کر رکھی ہے جسے مسجد بیت کہتے ہیں اور عورت کے لیے یہ مستحب بھی ہے کہ گھر میں نماز پڑھنے کے لیے کوئی جگہ مقرر کرلے اور چاہیے کہ اس جگہ کو پاک صاف رکھے اور بہتر یہ ہے کہ اس جگہ کو چبوترا وغیرہ کی طرح بلند کر لے۔ بلکہ مرد کو بھی چاہیے کے نوافل کے لیے گھر میں کوئی جگہ مقرر کرلیں کہ نفلی نماز گھر میں پڑھنا افضل ہے۔ 
                   (ایضا)
(٣) مسئلہ: اگر عورت نے نماز کےلیے کوئی جگہ مقرر نہیں کر رکھی ہے تو گھر میں اعتکاف نہیں کرسکتی ، البتہ اگر اس وقت یعنی جب کہ اعتکاف کا ارادہ کیا کسی جگہ کو نماز کے لیے خاص کرلیا تو اس جگہ اعتکاف کرسکتی ہے۔
         (ایضا)
(٤) مسئلہ: سنت مؤکدہ، کہ رمضان کے پورے عشرۂ اخیرہ یعنی آخر کے دس دن میں اعتکاف کیا جاۓ یعنی بیسویں رمضان کو سورج ڈوبتے وقت بہ نیت اعتکاف مسجد میں ہو اور تیسویں کے غروب کے بعد یا انتیس کو چاند ہونے کے بعد نکلے۔ اگر بیسویں تاریخ کو بعد نمازِ مغرب نیت اعتکاف کی تو سنت مؤکدہ ادا نہ ہوئی اور یہ اعتکاف سنت کفایہ ہے کہ اگر سب ترک کریں تو سب سے مطالبہ ہوگا اور شہر میں ایک نے کرلیا تو سب بری الذمہ ۔(بہار شریعت ج١ح٥ص١٠٢٠)
(٥) مسئلہ: اعتکاف واجب میں معتکف کو مسجد سے بغیر عذر نکلنا حرام ہے،اگر نکلا تو اعتکاف جاتا رہا اگرچہ بھول کر نکلا ہو۔ یوہیں اعتکاف سنت بھی. (ایضا)

(٦) مسئلہ: معتکف کو مسجد سے نکلنے کے دو عذر ہیں - 
ایک حاجت طبعی کہ مسجد میں پوری نہ ہو سکے جیسے پاخانہ، پیشاب، استنجا،وضو اورغسل کی ضرورت ہو تو غسل ، مگر غسل و وضو میں یہ شرط ہےکہ مسجد میں نہ ہوسکیں یعنی کوئی ایسی چیز نہ ہو جس میں غسل وغسل کا پانی لےسکے اس طرح کہ مسجد میں پانی کی کوئی بوند نہ گرے کہ وضوو غسل کا پانی مسجد میں گرانا ناجائز ہے اور لگن وغیرہ موجود ہو کہ اس میں وضو اس طرح کرسکتا ہے کہ کوئی چھینٹ مسجد میں نہ گرےتو وضو کےلیے مسجد نکلنا جائز نہیں ، نکلےگا تو اعتکاف جاتا رہے گا۔ یوہیں اگر مسجد میں وضووغسل کےلیے جگہ بنی ہو یا حوض ہو تو باہر جانے کی اب اجازت نہیں۔
  دوم حاجت شرعی مثلاً عید یا جمعہ کےلیے جانا یا اذان کہنے کےلیے منارہ پر جانا، جب کہ منارہ پر جانے کےلیے باہر ہی راستہ ہو اور اگر منارہ کا راستہ اندر سے ہو تو غیر مؤذن بھی منارہ پر جاسکتا ہے مؤذن کی تخصیص نہیں۔ 
      (ردالمحتار ج ٣ ص ٥٠١)
طالب دعا
محمد نوید سرور قادری مصباحی گیاوی، دوبھل، امام گنج ، گیا بہار رابطہ نمبر: 7781075063

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے