{خدمتِ والدین،خوفِ خداوندی اورحُسنِ اخلاق ومروت سے لبریز کلمات حدیث؛جنہیں آج کی ترقی یافتہ زندگی میں عملی جامہ پہناکرکامیابی کی منازل کوحاصل کیا جاسکتا ہے۔ساتھ ہی وسیلہ کے منکرین کے لئے ایک تازیانہ بھی،جوبات بات پرسنی صحیح العقیدہ مسلمانوں کو توسل واستغاثہ کے عقیدہ کودرست ماننے پرمشرک بناتے رہتے ہیں اور کھلے عام اس جیسی متعدد احادیث کے منکربنتے ہیں۔}
*وصل مولیٰ چاہتے ہو تو وسیلہ ڈھونڈ لو*
*بے وسیلہ نجدیو!ہرگزخداملتانہیں*
(حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ)
صحیح بخاری شریف وغیرہ میں
عبداللّٰہ بن عمر رضی ﷲ تعالٰی عنہماسے مروی، کہتے ہیں میں نے رسول اللّٰہ صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلَّم سے سنا کہ فرماتے ہیں : ’’اگلے زمانہ کے تین شخص کہیں جارہے تھے، سونے کے وقت ایک غار کے پاس پہنچے اُس میں یہ تینوں شخص داخل ہوگئے پہاڑ کی ایک چٹان اوپر سے گری جس نے غار کو بند کردیا اُنھوں نے کہا: اب اس سے نجات کی کوئی صورت نہیں بجز اس کے کہ تم نے جوکچھ نیک کام کیاہو اُس کے ذریعہ سے اللّٰہ (عزوجل) سے دُعا کرو۔ ایک نے کہا اے اللّٰہ! (عزوجل) میرے والدین بہت بوڑھے تھے جب میں جنگل سے بکریاں چرا کر لاتا تو دودھ دوہ کر سب سے پہلے اُن کو پلاتا اُن سے پہلے نہ اپنے بال بچوں کوپلاتا، نہ لونڈی نہ غلام کو دیتا، ایک دن میں جنگل میں دور چلاگیا رات میں جانوروں کو لے کر ایسے وقت آیا کہ والدین سوگئے تھے میں دودھ لیکر اُن کے پاس پہنچا تو وہ سو ئے ہوئے تھے بچے بھوک سے چلا رہے تھے، مگر میں نے والدین سے پہلے بچوں کو پلانا پسند نہ کیا اور یہ بھی پسند نہ کیا کہ انھیں سوتے سے جگادوں دودھ کا پیالہ ہاتھ پر رکھے ہوئے ان کے جاگنے کے انتظار میں رہا یہاں تک کہ صبح چمک گئی اب وہ جاگے اور دودھ پیا، اےﷲ ! (عزوجل) اگر میں نے یہ کام تیری خوشنودی کے لیے کیاہے تو اس چٹان کوکچھ ہٹا دے، اس کا کہنا تھا کہ چٹان کچھ سرک گئی مگر اتنی نہیں ہٹی کہ یہ لوگ غار سے نکل سکیں ۔ دوسرے نے کہا:اے اللّٰہ! (عزوجل) میرے چچا کی ایک لڑکی تھی جس کو میں بہت محبوب رکھتا تھا، میں نے اُس کے ساتھ بُرے کام کا ارادہ کیا اُس نے انکار کردیا، وہ قحط کی مصیبت میں مبتلا ہوئی میرے پاس کچھ مانگنے کو آئی میں نے اُسے ایک سو بیس اشرفیاں دیں کہ میرے ساتھ خلوت کرےوہ راضی ہوگئی، جب مجھے اُس پر قابو ملا تو بولی کہ ناجائز طورپر اس مُہر کا توڑنا تیرے لیے حلال نہیں کرتی، اس کام کو گناہ سمجھ کر میں ہٹ گیا اور اشرفیاں جو دے چکا تھا وہ بھی چھوڑ دیں، الٰہی! اگر یہ کام تیری رضا جوئی کے لیے میں نے کیاہے تو اس کو ہٹا دے، اس کے کہتے ہی چٹان کچھ سرک گئی مگر اتنی نہیں ہٹی کہ نکل سکیں ۔
تیسرے نے کہا، اے اللّٰہ! (عزوجل) میں نے چندشخصوں کو مزدوری پر رکھا تھا، اُن سب کو مزدوریاں دیدیں،ایک شخص ایساکام کیا جس سے اُس میں اضافہ ہوا اُس کو بڑھاکر میں نے بہت کچھ کرلیا وہ ایک زمانہ کے بعد آیا اور کہنے لگا:اے خدا کے بندہ! میری مزدوری مجھے دیدے۔ میں نے کہا:یہ جو کچھ اونٹ، گائے، بیل، بکریاں، غلام تو دیکھ رہا ہے یہ سب تیری ہی مزدوری کاہے سب لے لے۔ بولا: اے بندۂ خدا! مجھ سے مذاق نہ کر۔ میں نے کہا: مذاق نہیں کرتا ہوں یہ سب تیر اہی ہے، لے جا، وہ سب کچھ لے کر چلا گیا، الٰہی! اگر یہ کام میں نے تیری رضا کے لیے کیا ہے تو اسے ہٹا دے وہ پتھر ہٹ گیا، یہ تینوں اُس غار سے نکل کر چلے گئے۔‘‘
(صحیح البخاري‘‘، کتاب الإجارۃ، باب من استاجر اجیراً ۔۔۔ إلخ، الحدیث: ۲۲۷۲،ج۲)
*ترسیل:*
محمد اسلم رضا قادری اشفاقی
رکن سنی ایجوکیشنل ٹرسٹ
باسنی ناگور شریف۔
١٣ذی الحجہ ١٤٤١ھ
4اگست2020
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں