"محمد شفیق مذہب (المعروف جاوید غامدی ملعون) کی پوری تاریخ"
غامدی مذہب سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے۔۔۔
جاوید احمد غامدی(محمد شفیق)کون ہے؟
اسکا کا علمی پس منظر کیا ہے؟
اس نے کہاں سے پڑھا ؟ کیا پڑھا ؟
اس کے پاس دینی و عصری علوم کی کوئی سند یا ڈگری ہے یا نہیں؟
وہ کس کا تربیت یافتہ ہے؟
وہ کس کے علوم و افکار سے متاثر ہے؟
اس کے اساتذہ کون تھے؟ وہ ایک دم کہاں سے نمودار ہوا؟ اور دیکھتے ہی دیکھتے کیسے شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گیا اور خود کو مسلمان ظاہر کرکے کفریہ عقائد پھیلائے ؟
اس کو ٹی وی پر کون لایا؟ وہ اسلامی نظریاتی کونسل میں کیسے داخل ہوا ؟؟؟
اسے اپنی فکر و فلسفہ کے پروان چڑھانے میں کن لوگوں نے تعاون کیا ؟
یہ وہ سوالات ہیں جن سے غامدی کے بہت سے سامعین ، قارئین و عاشقین بے خبر ہیں !۔
کہتے ہیں کہ انسان اپنے استادوں سے اور استاد اپنے شاگردوں سے پہچانا جاتا ہے۔ آیئے! اس حوالے سے ایک شاگرد ، استاد اور استاد الاساتذہ کی سوانح اور کردار وعمل کا جائزہ لیتے ہیں ۔
"حمیدالدین فراہی "
یہ 1900ء کا ذکر ہے۔ ہندوستان پر برطانوی سامراج کی دوسری صدی چل رہی تھی۔ ہندوستان کا وائسرائے مشہور ذہین اور شاطر دماغ یہودی ''لارڈ کرزن'' تھا۔ ان صاحب کو مسلمانوں سے خدا واسطے کا بیر اور صہیونی مقاصد کی تکمیل کا شیطانی شغف تھا۔ انگریز نے برصغیر کی زمین پاؤں تلے سے کھسکتے دیکھ لی تھی۔ سونے کی ہندوستانی چڑیا کے پر وہ نوچ چکا تھا۔ اب مشرقِ وسطیٰ میں تیل کی دریافت اور ارض اسلام کو اپنے گماشتوں میں تقسیم کرنے کا مرحلہ درپیش تھا۔
لارڈ کرزن کو انگریز سرکار کی جانب سے حکم ملا تھا کہ وہ خلیج عرب کے ساحلی علاقوں میں مقیم عرب سرداروں سے ملاقات کرے اور مطلب کے لوگوں کی فہرست بنائے۔ خلیج عرب کے ساحلی علاقوں سے مراد کویت، سعودی عرب کا تیل سے لبالب مشرقی حصہ جو اس وقت آل سعود کے زیرنگیں تھا، نیز بحرین، قطر، متحدہ عرب امارات میں شامل سات مختلف ریاستیں اور عمان ہے۔ برطانیہ کے وزیراعظم ونسٹن چرچل اور امریکی صدر فرینکلن روز ویلٹ ریت پر لکیریں کھینچ کر ''جتنا کم اتنا لذیذ'' کے اُصول پر عمل کرتے ہوئے جس طرح کیک کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرتے ہیں اسی طرح ''جتنا مالدار اتنا چھوٹا'' کے اصول پر عرب ریاستیں اپنے دوست عرب سرداروں میں تقسیم کرچکے تھے۔ اب اس تقسیم کو عملی جامہ پہنانے کے لیے فیلڈ ورک کی ضرورت تھی اور لارڈ کرزن اپنے مخصوص یہودی پس منظر کے سبب یہ کام بخوبی کرسکتا تھا۔
لارڈ کرزن خلیج عرب کے خفیہ دورے پر فوری روانہ ہونا چاہتا تھا اور اسے کسی معتمد اور رازدار عربی ترجمان کی ضرورت تھی۔ برصغیر میں عربی اس وقت دو جگہ تھی۔ یا تو دارالعلوم دیوبند اور اس سے ملحقہ دینی مدارس، یا پھر علی گڑھ کا شعبہ عربی۔ اول الذکر سے تو ظاہر ہے کوئی ایسا ٹاؤٹ ملنا دشوار تھا۔ لارڈ کرزن کی نظر انتخاب اسی طرح کی مشکلات کے حل کے لیے قائم کیے گئے ادارہ علی گڑھ پر پڑی وہاں ایک مانگو تو چار ملتے تھے۔ مسئلہ چونکہ وائسرائے ہند کے ساتھ خفیہ ترین دورے پر جانے کا تھا جس کے مقاصد اور کارروائی کو انتہائی خفیہ قرار دیا گیا تھا اس لیے کسی معتمد ترین شخص کی ضرورت تھی جو عقل کا کورا اور ضمیر کا مارا ہوا ہو۔ سفارشوں پر سفارشیں اور عرضیوں پر عرضیاں چل رہی تھیں کہ خفیہ ہاتھ نے کارروائی دکھائی اور علی گڑھ کے سر پرستان اعلیٰ کی جانب سے ایک نوجوان فاضل کا انتخاب کرلیا گیا۔
لارڈ کرزن صاحب کو ان کی عربی دانی سے زیادہ سرکار سے وفاداری کی غیرمشروط یقین دہانی کرادی گئی اور یوں یہ عجمی عربی دان مسلمان ہوکر بھی اس تاریخی سفر پر انگریز وائسرائے کا خادم اور ترجمان بننے پر راضی ہوگیا جس کے نتیجے میں آج خلیجی ریاستوں میں استعمار کے مفادات کے محافظ حکمران کلا گاڑے بیٹھے ہیں اور امریکی و برطانوی افواج کو تحفظ اور خدمات فراہم کر رہے ہیں۔
یہ نوجوان فاضل حمید الدین فراہی تھا۔ جو اُترپردیش کے ضلع اعظم گڑھ میں ایک گاؤں ''فراہا'' میں پیدا ہوا ۔ یہ مشہور مؤرخ علامہ شبلی نعمانی (1858-1914) کا کزن تھا ۔ علی گڑھ یونیورسٹی میں تعلیم پائی اور MAO کالج میں عربی پڑھاتا رہا۔ لارڈ کرزن کی ہم راہی کے لیے اس کے انتخاب میں علی گڑھ میں موجود ایک جرمنی پروفیسر ''جوزف ہوروز'' کی سفارش کا بڑا دخل تھا جو یہودی النسل تھا اور فراہی پر اس کی خاص نظر تھی۔ آپ نے اس سے عبرانی زبان سیکھی تھی تاکہ تورات کا مطالعہ اس کی اصل زبان میں کرسکے۔
لارڈ کرزن صاحب جناب فراہی کی صلاحیت اور کارکردگی سے بہت خوش تھا چنانچہ واپسی پر اسے انگریزوں کی منظور نظر ریاست حیدر آباد میں سب سے بڑے سرکاری مدرسہ میں اعلیٰ مشاہرے پر رکھ لیا گیا اور آپ نے وہاں سے اس کام کا آغاز کیا جو قسمت کا مارا یہودیوں کا پروردہ ہر وہ شخص کرتا ہے جسے عربی آتی ہو۔ آپ نے اپنے آپ کو قرآن کریم کی ''مخصوص انداز'' میں خدمت کے لیے وقف کرلیا۔ مخصوص انداز سے مراد یہ ہے کہ تمام مفسرین سے ہٹ کر نئی راہ اختیار کی کہ قرآن کریم کو محض لغت کی مدد سے سمجھا جائے۔ یہ لغت پرست مفسرین دراصل اس راستے سے قرآنی آیات کو وہ معنی پہنانا چاہتے تھے جس کی ان کو ضرورت محسوس ہو اگرچہ دوسری آیات یا احادیث، مفسرین صحابہ و تابعین کے اقوال اس کی قطعی نفی کرتے ہوں۔ درحقیقت قرآن سے ان حضرات کا تعلق، انکار حدیث پر پردہ ڈالنے کی کوشش ہوتا ہے جیسا کہ تمام منکرین حدیث کا خاصہ ہے کہ وہ اپنے اس عیب کو چھپانے کے لیے قرآن کریم سے بڑھ چڑھ کر تعلق اور شغف کا اظہار کسی نہ کسی بہانے کرتے رہتے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ وہی حیدر آباد ہے جہاں شاعرِ مشرق علامہ اقبال جیسے فاضل شخص کو محض اس لیے ملازمت نہ مل سکی کہ وہ مغرب دشمن شاعری کے مرتکب تھے ، لیکن فراہی پر لارڈ کرزن کا دست کرم تھا کہ حیدر آباد کی آغوش ان کے لیے خود بخود وا ہوگئی اور اسے ایک بڑے ''علمی منصوبے'' کے لیے منتخب کرلیا گیا۔
اس منصوبے نے جو برگ وبار لائے انہیں مسلمانان برصغیر بالخصوص آج کے دور کے اہالیان پاکستان خوب خوب بھگت رہے ہیں۔ فراہی نے ''تفسیر نظام القرآن'' لکھی جس کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ کتب خانوں میں تلاش کرنے سے بھی مل کے نہیں دیتی۔ علامہ شبلی نعمانی، فراہی کے بارے میں اس وقت شدید تحفظات کا شکار ہوگئے تھے جب ان کی بعض غیر مطبوعہ تحریر ''دارالمصنفین'' میں شائع ہونے کے لیے آئیں لیکن ان کی طباعت سے انکار کردیا گیا کہ زبردست فتنہ پھیلنے کا خطرہ تھا۔ فراہی اپنے پیچھے چند شاگرد، چند کتابیں اور بے شمار شکوک وشبہات چھوڑ کر 1930ء میں دنیا سے رُخصت ہوگیا۔
"امین احسن اصلاحی "
فراہی نے حیدر آباد سے منتقل ہونے کے بعد اعظم گڑھ کے ایک قصبے ''سرائے میر'' میں ''مدرسۃ الاصلاح'' نامی ادارہ قائم کیا۔ نام سے ہی معلوم ہوتا تھا کہ وہ تفسیر کے مسلّمہ اُصولوں کی اصلاح کرکے نئی جہتیں پیدا کرنا چاہتا تھا ۔ اس کے اس مدرسے میں 1922ء میں ایک نوجوان فارغ ہوا جو اساتذہ کا منظور نظر اور چہیتا تھا۔ فراہی نے اسے دعوت دی کہ وہ ان کے ساتھ مل کر ''قرآن کریم کا مطالعہ'' کرے۔ یہ نوجوان آگے چل کر فراہی کا ممتاز ترین شاگرد اور اس کے نظریات وافکار کی اشاعت کا سب سے بڑا ذریعہ بنا۔
یہ جب مدرسۃ الاصلاح میں داخل ہوا تو امین احسن تھا، فارغ ہوا تو ''امین احسن اصلاحی'' (1904-1997) بن چکا تھا۔
اس نے فراہی کی وفات کے بعد اس کی یاد میں رسالہ ''الاصلاح'' جاری اور ''دائرہ حمیدیہ'' قائم کیا۔
اصلاحی صاحب انکار حدیث اور اجماع امت کا منکر ہونے کے علی الرغم جماعت اسلامی کے بانیوں میں سے تھا۔ قیام کے دوران مجلس شوریٰ کا رکن رہا۔ 1958ء میں مودودی صاحب سے اختلافات کی بنا پر جماعت سے علیحدہ ہوا اور وہی کام شروع کیا جو اس کے استاذ نے آخری عمر میں کیا تھا۔
اس نے ''حلقہء تدبر قرآن'' قائم کیا جس میں کالج کے طلبہ کو قرآن کریم اور عربی پڑھائی جاتی تھی۔ ساتھ ساتھ ''تدبر قرآن'' کے نام سے تفسیر لکھنے میں بھی کامیابی حاصل کی لیکن اسے مقبول کروانے میں بری طرح ناکام ہوا ۔ فراہی بہرحال عالم فاضل شخص تھا لیکن اصلاحی اس پائے کا عالم نہ تھا۔ مغربی علوم تو کیا وہ شرعی علوم سے بھی کماحقہ، واقف نہ تھا۔ اس کی تفسیر میں کئی بچگانہ غلطیاں ہیں جن میں سے کچھ اگلے مضمون میں قارئین کے سامنے پیش کی جائیں گی ۔ اصلاحی ہفتہ وار درس بھی دیتا تھا لیکن انکار حدیث، تجدد پسندی اور لغت پرستی نے اسے اپنے پیش رو استاد کی طرح کہیں کا بھی نہ چھوڑا تھا۔آخر خالد سعود اور جاوید غامدی جیسے شاگرد تیار کرکے 1997ء میں اس دارِ فانی سے رخصت ہوگیا ۔
"محمد شفیق المعروف جاوید احمد غامدی"
قیام پاکستان کے ابتدائی دور میں پاک پتن کے گاؤں میں ایک پیر پرست اور مزار گرویدہ قسم کا شخص رہتا تھا۔ مزاروں والا خصوصی لباس، گلے میں مالائیں ڈالنا، ہاتھ میں کئی انگوٹھیاں پہننا اور لمبی لمبی زلفیں بغیر دھوئے تیل لگائے رکھنا اس کی پہچان تھی۔ 18 اپریل 1951ء کو اس کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا۔ نام تو اس کا محمد شفیق تھا لیکن باپ کے مخصوص مزاج کی وجہ سے اس کا عرف کاکوشاہ پڑگیا۔ یہ خاندان ککّے زئی کہلاتا تھا۔ اس طرح اس کا پورا عرفی نام ''کاکوشاہ ککّے زئی'' بنا۔۔۔۔۔۔۔
محمد شفیق عرف کاکوشاہ ککّے زئی جب گاؤں کی تعلیم کے بعد لاہور آیا تو اسے اپ ٹوڈیٹ قسم کا نام رکھنے کی فکر لاحق ہوئی۔ اس نام کے ساتھ تو وہ ''لاہوریوں'' کا سامنا نہ کرسکتا تھا۔ سوچ سوچ کر اسے ''جاوید احمد'' نام اچھا معلوم ہوا کہ ماڈرن بھی تھا اور رعب دار بھی۔ اس نے محمد شفیق سے تو جان چھڑالی اب ''کاکو شاہ ککے زئی'' کے لاحقے کا مسئلہ تھا جو کافی سنگین اور مضحکہ خیز تھا۔ لیکن فی الحال اسے اس کی خاص فکر نہ تھی۔
اس زمانے میں اس کا ایک قریبی دوست ہوتا تھا۔"جناب رفیق احمد چوہدری"۔ وہ ان دنوں اور اس روئیداد کا عینی گواہ تھا۔ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد 1972ء کا دور تھا۔ کاکوشاہ لاہور گورنمنٹ کالج سے بی اے آنرز کرنے کے بعد معاشرے میں مقام بنانے کی جدوجہد کررہا تھا۔ اس کی انگریزی تو یوں ہی سی تھی لیکن قدرت نے اسے ایک صلاحیت سے خوب خوب نوازا تھا۔۔ وہ تھی طاقت لسانی۔ اس کے بل بوتے پر وہ تعلقات بنانے اور آگے بڑھنے کی سعی میں مصروف تھا۔
آخر کار اس کی جدوجہد رنگ لائی اور وہ اپنی چرب زبانی سے پنجاب کے ایڈمنسٹریٹر اوقاف جناب مختار گوندل کو متاثر کرکے اوقاف کے خرچ پر 29جے ماڈل ٹاؤن لاہور میں ''دائرۃ الفکر'' کے نام سے ایک تربیتی اور تحقیقی ادارہ کی داغ بیل ڈالنے میں کامیاب ہوگیا۔ پھر جلد ہی قدرت نے اسے مولانا مودودی مرحوم کے سایہ عاطفت میں ڈال دیا تو جاوید احمد کو فوری طورپر جماعتِ اسلامی میں پذیرائی ملی۔ رکنیت مجلس شوریٰ تو چھوٹی شے ہے، اس کے حواری اسے مولانا مودودی کا ''جانشین'' بتانے لگے ۔ آخرکار جب جاوید احمد کو جماعت اسلامی سے 1957ء میں الگ ہونے والے مولانا امین اصلاحی سے روابط کا شوق مولانا کے قریب تر اور جماعت اسلامی سے مزید دور لے جانے کا باعث بنا۔
آہستہ آہستہ وہ جاوید احمد سے جاوید احمد غامدی ہوگیا۔ اس لقب کی جناب 'جاوید احمد غامد ی ' دو چار وجوہات بیان کرتا ہے اور صحیح ایک کو بھی ثابت نہیں کرسکتا۔ حال ہی میں اس کے ایک شاگرد خاص نے یہ وجہ بیان کی ہے کہ ''اصل میں وہ اصلاحی صاحب سے عقیدت کی وجہ سے اصلاحی لقب رکھنا چاہتے تھے لیکن ''مدرسۃ الاصلاح'' سے فارغ نہ تھے۔ اس لیے غامدی نام رکھ لیا۔'' سبحان اللہ! چھوٹے میاں کو یہ بھی نہیں پتہ کہ غامدی نہ اصلاحی کے ہم وزن ہے نہ ہم معنی! آخر کس طرح سے اصلاحی سے غامدی تک چھلانگ لگادی گئی؟؟؟ گویا یہ پانچویں وجہ بھی عار ہی عار ہے اور پورا مکتب فکر مل کر اپنے بانی کے نام کی درست توجیہ کرنے سے قاصر ہے۔
2001ء سے قبل غامدی کی تحریک پروان چڑھ رہی تھی لیکن اسے کسی لارڈ کرزن کی سرپرستی دستیاب نہ تھی۔ 2001ء میں یہ کمی بھی پوری ہوگئی اور ان کے سر پر عصر حاضر کے لارڈ کرزن کا دست شفقت کچھ ایسا جم کرٹکا کہ وہ شخص جو دینی اور مذہبی علم کسی باقاعدہ مسلمہ دینی درس گاہ کا مرہون منت نہیں، بلکہ اس کا علم جنگلی گھاس کی طرح خود رو ہے، اور اس کی عقل و فہم کسی مسلمہ ضابطہ کی پابند نہیں ہے، جو عربی کی دوسطریں سیدھی نہیں لکھ سکتا، جو انگریزی کی چار نظموں اور 4مصرعوں کی پونجی میں آدھے سے زیادہ مصرع چوری کرکے ٹانکتا ہے، جس کی اکثر اردو تحریریں سرقہ بازی کا نتیجہ ہے ،،،، وہ آج ملک کا مشہور ومعروف اسکالر ہے اور اس کا فرمایا ہوا مستند سمجھا جاتا ہے۔ ''ککّے زئی سے غامدی تک'' کے سفر کی روداد عبرت ناک بھی اور الم ناک بھی۔ سچ ہے استاذ اپنے شاگردوں سے ہی پہچانا جاتا ہے اور شاگرد اپنے استاذ کی پہچان کا ذریعہ ہوتے ہیں۔
''فراہی سے اصلاحی اور اصلاحی سے غامدی تک'' استادی شاگردی کا سلسلہ اس مقولے کی صداقت کے لیے کافی سے زیادہ شافی، اور درکار ضرورت سے زیادہ پکی سچی گواہی ہے۔
غامدی کے متعلق اوپر جو باتیں لکھی گئیں یقینا یہ ان کے بہت سے محبین کے لئے نئی ہونگی ، ایسا ہوتا ہے جو لوگ اسلام اور مسلمانوں کے عقائد و نظریات، قرآن و سنت، اجماع امت اور دین و مذہب کو بگاڑنے، اکابر و اسلافِ امت کے خلاف بغاوت کرنے اور ان کے خلاف زبان درازی کرنے کی ہمت رکھتے ہوں، وہ دنیا بھر کی اسلام دشمن قوتوں اور مذہب بیزار لابیوں کے منظور نظر بن جاتے ہیں، ان کے تمام عیوب ونقائص نہ صرف چھپ جاتے ہیں بلکہ اعدائے اسلام ان کی سرپرستی میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کو اپنا فرض اور اعزاز سمجھتے ہیں اور ان کی حمایت و سرپرستی کے لئے اپنے اسباب، وسائل، مال و دولت اور خزانوں کے منہ کھول دیتے ہیں، صرف یہی نہیں بلکہ نظری، بصری میڈیا کے ذریعے ان کا ایسا تعارف کرایا جاتا ہے کہ دنیا ان کے ”قدوقامت“ اور نام نہاد علمی شوکت و صولت کے سامنے ڈھیر ہوجاتی ہے۔جس طرح آج سے ایک صدی پیشتر ضلع گورداس پور کی بستی قادیان کے میٹرک فیل اور مخبوط الحواس انسان نما جانور غلام احمد قادیانی کو استعمار نے اٹھایا ، اس کی سرپرستی کی اور اس سے دعویٰ نبوت کرایا،
ٹھیک اسی طرح دورِ حاضر کے نام نہاد اسکالر جاوید احمد غامدی کا قضیہ ہے، جس طرح غلام احمد قادیانی کا کوئی پس منظر نہیں تھا اور اس میں اس کے سوا کوئی کمال نہیں تھا کہ اس نے مسلمانوں کے قرآن کے مقابلہ میں نیا قرآن، مسلمانوں کے دین کے مقابلہ میں نیا دین اور مسلمانوں کے نبی کے مقابلہ میں نئی نبوت کا اعلان کیا، جہاد جیسے دائمی فریضہ کو حرام قرار دیا اور حیات و نزول عیسیٰ علیہ السلام کے قطعی عقیدہ کا انکار کیا ، ٹھیک اسی طرح جاوید احمد غامدی بھی دین اسلام کے مقابلہ میں نئے ترمیم شدہ دین اور مذہب کی ایجاد کی کوشش میں ہے اور اس نے بھی اپنے پیش روؤں کی طرح منصوص دینی مسلمات کے انکار پر کمر ہمت باندھی ہوئی ہے۔
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں