➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
📬 انسان کی یہ فطرت ہے کہ وہ اپنے محبوب کے دشمنوں سے نفرت کرتا اور ان پر سختی کرتا ہے اور اس میں بھی جس کی محبت جتنی زیادہ ہو اس کی اپنے محبوب کے دشمن سے نفرت اور سختی بھی اتنی ہی زیادہ ہوتی ہے اور یہ چیز اس کے عشق و محبت کی علامات میں سے ایک اہم علامت شمار کی جاتی ہے۔
صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ وہ مبارک ہستیاں ہیں جن کا اللہ تعالیٰ اور اس کے پیارے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے عشق و محبت بےمثال اور لازوال ہے اور سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ذات ِگرامی انہیں اپنے مال، اولاد، اہل و عیال حتّٰی کہ اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب اور عزیز تھی اور اسی بے انتہاء عشق و محبت کا یہ نتیجہ تھا کہ صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دشمنوں یعنی کفار سے سخت نفرت کرتے اور ان پر انتہائی سختی فرمایا کرتے تھے اور ان کے اسی عمل کو اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں ان کے ایک وصف کے طور پر بیان فرمایا ہے کہ میرے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صحابہ کا ایک وصف یہ ہے کہ وہ کافروں پر سخت ہیں۔
عمومی طور پر تمام صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ ہی کافروں پر سختی فرمایا کرتے تھے البتہ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ اس معاملے میں سب سے زیادہ مشہور تھے، حتّٰی کہ شیطان جیسا بدترین کافر بھی آپ کی سختی سے ڈرتا تھا۔
یہاں آپ کی اس سیرت سے متعلق تین واقعات کا خلاصہ ملاحظہ ہو۔۔۔
*(1)* غزوہ ٔبدر کے بعد آپ نے یہ رائے پیش کی کہ سارے کافر قیدی قتل کر دئیے جائیں اور آپ کی اس رائے کی تائید میں قرآنِ مجید کی آیات نازل ہوئیں۔
*(2)* بشر نامی منافق نے سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فیصلہ ماننے سے انکار کیا تو آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے اسے قتل کر دیا اور فرمایا جو اللہ اور اس کے رسول کے فیصلہ سے راضی نہ ہو اُس کا میرے پاس یہ فیصلہ ہے۔
*(3)* جب منافقوں کا سردار عبداللہ بن اُبی مر گیا تو حضرت عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی رائے یہ تھی اس کی نمازِ جنازہ نہ پڑھی جائے اور اس کی قبر پر نہ جایا جائے، اس کی تائید میں بھی قرآنِ مجید کی آیت نازل ہوئی۔
*صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کی باہمی نرم دلی:*
اس سے پہلے اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دشمنوں کے ساتھ صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے سلوک کا حال بیان ہوا اور اب اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کامل محبت کرنے والوں کے باہمی سلوک کا حال ملاحظہ ہو۔
چنانچہ ان کا یہ وصف بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ وہ آپس میں نرم دل ہیں۔
صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ آپس میں ایسے نرم دل اور ایک دوسر ے کے ساتھ ایسے محبت و مہربانی کرنے والے تھے جیسے ایک باپ اپنے بیٹے کے ساتھ کرتا ہے اور ان کی یہ ایمانی محبت اس حد تک پہنچ گئی تھی کہ جب ایک صحابی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ دوسرے کو دیکھتے تو فرطِ محبت سے مصافحہ اور معانقہ کرتے۔
صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کی اس سیرت میں دیگر مسلمانوں کے لئے بھی نصیحت ہے کہ ایک مسلمان اپنے مسلمان بھائی سے نفرت نہ کرے اور اس کے ساتھ سختی سے پیش نہ آئے بلکہ شفقت و نرمی سے پیش آئے اور اس کے ساتھ مہربانی بھرا سلوک کرے۔
حدیثِ پاک میں ہے کہ تم مسلمانوں کو آپس کی رحمت، باہمی محبت اور مہربانی میں ایک جسم کی طرح دیکھو گے کہ جب ایک عُضْوْ بیمار ہوجائے تو سارے جسم کے اَعضاء بے خوابی اور بخار کی طرف ایک دوسرے کو بلاتے ہیں۔
*( بخاری، کتاب الادب، باب رحمۃ النّاس والبہائم، ۴ / ۱۰۳، الحدیث: ۶۰۱۱)*
اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو آپس میں شفقت و نرمی سے پیش آنے اور ایک دوسرے پر مہربانی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*المرتب⬅ قاضـی شعیب رضـا تحسینی امجــدی 📱917798520672+*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
0 تبصرے
اپنا کمینٹ یہاں لکھیں