سورۂ بنی اسرائیل کا تعارف اور مقامِ نزول

*📚 « امجــــدی مضــــامین » 📚*
-----------------------------------------------------------
 *🕯سورۂ بنی اسرائیل کا تعارف اور مقامِ نزول🕯* 
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

📬 حضرت قتادہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ: یہ سورت ’’وَ اِنْ كَادُوْا لَیَفْتِنُوْنَكَ‘‘ سے لے کر ’’نَصِیْرًا‘‘ تک آٹھ آیتوں کے علاوہ مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی ہے۔ 
*( خازن، تفسیر سورۃ الاسراء، ۳ / ۱۵۳)*

علامہ بیضاوی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے جَزم کیا (یعنی یقین کے ساتھ لکھا) ہے کہ پوری سورت ہی مکۂ مکرمہ میں نازل ہوئی ہے۔ 
*(بیضاوی مع حاشیۃ الشہاب، سورۃ بنی اسرائیل، ۶ / ۳، مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ، بیروت)* 

*رکوع اور آیات کی تعداد:* 
اس سورت میں 12 رکوع اور 111 آیتیں ہیں۔

 *سورۂ بنی اسرائیل کے اَسماء اور ان کی وجہِ تَسْمِیَہ:* 
اس سورۂ مبارکہ کے چند نام ہیں:
*(1) سورۂ اِسراء:* اسراء کا معنی ہے رات کو جانا، اور اس سورت کی پہلی آیت میں تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے رات کے مختصر حصے میں مکۂ مکرمہ سے بیتُ المقدس جانے کا ذکر ہے اس مناسبت سے اسے’’سورۂ اِسراء‘‘ کہتے ہیں۔
*(حضور ﷺ کا معراج کی رات میں مکہ سے بیت المقدس جانا قرآن سے ثابت ہے جس کا انکار کفر ہے )* 

*(2) سورۂ سبحان:* سبحان کا معنی ہے پاک ہونا، اور اس سورت کی ابتداء لفظِ ’’سبحان‘‘ سے کی گئی اس مناسبت سے اسے’’سورۂ سبحان‘‘ کہتے ہیں۔
*(3) بنی اسرائیل:* اسرائیل کا معنی ہے اللّٰہ تعالیٰ کا بندہ، یہ حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا لقب ہے اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد کو ’’بنی اسرائیل‘‘ کہتے ہیں، اس سورت میں بنی اسرائیل کے عروج و زوال اور عزت و ذلت کے وہ اَحوال بیان کئے گئے ہیں جو دیگر سورتوں میں بیان نہیں ہوئے، اس مناسبت سے اس سورت کو ’’بنی اسرائیل‘‘ کہتے ہیں اور یہی اس کا مشہور نام ہے۔

*سورۂ بنی اسرائیل کے فضائل:* 
اس سورت کے فضائل پر مشتمل دو اَحادیث ملاحظہ فرمائیں:
(1) حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں: ’’سورۂ بنی اسرائیل، سورۂ کہف اور سورۂ مریم فصاحت و بلاغت میں انتہائی کمال کو پہنچی ہوئی ہیں اور ایک عرصہ ہوا کہ میں نے انہیں زبانی یاد کر لیا تھا۔ 
*( بخاری، کتاب التفسیر، سورۃ بنی اسرائیل، ۳ / ۲۵۸، الحدیث: ۴۷۰۸)* 

(2) حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں: ’’نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس وقت تک اپنے بستر پر نیند نہیں فرماتے تھے جب تک سورۂ بنی اسرائیل اور سورۂ زُمر کی تلاوت نہ کر لیں۔
*( ترمذی، کتاب فضائل القرآن، ۲۱-باب، ۴ / ۴۲۲، الحدیث: ۲۹۲۹)*

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
*المرتب⬅ قاضـی شعیب رضـا تحسینی امجــدی 📱917798520672+*
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے