اہل سنت سواد اعظم کیسے؟

مبسملا و حامدا::ومصلیا ومسلما

اہل سنت سواد اعظم کیسے؟

سوال:

کلمہ گو کی ایک کثیر تعداد وہابی اور دیوبندی ہے۔یہ لوگ پہلے اہل سنت و جماعت میں تھے۔اس کے بعد اپنی بد اعتقادی کے سبب اہل سنت سے خارج ہو گئے۔یہ لوگ اج بھی خود کو اہل سنت و جماعت کہتے ہیں۔

عہد حاضر میں شیعہ جماعت کی بھی بہت بڑی تعداد ہے۔

اگر شیعہ اور وہابیہ و دیابنہ کی مجموعی تعداد دیکھی جائے تو قرین قیاس یہی ہے کہ ان تمام کی مجموعی تعداد اہل سنت و جماعت سے زیادہ ہو گی۔ایسی صورت میں اہل سنت و جماعت کو سواد اعظم کس طرح قرار دیا جا سکتا ہے؟

جواب:

سواد اعظم یعنی اہل سنت و جماعت کے کثیر التعداد ہونے کی تشریح ہم نے اپنے رسالہ "السواد الاعظم من عہد الرسالۃ الی قرب القیامہ"میں رقم کر دی ہے۔

سواد اعظم کے تعین کے لئے چند امور کو ملحوظ خاطر رکھیں۔

(الف)سواد اعظم کا تعین ہر عہد میں مسلمانوں کی مجموعی تعداد کے اعتبار سے ہو گا یعنی اس وقت دنیا بھر میں جتنے مسلمان موجود ہیں۔اس مجموعی تعداد میں کم ازکم اکاون فی صد اہل سنت و جماعت ہوں گے۔

ملکوں کی تقسیم اور سرحدوں کی حدبندی انسانوں نے کی ہے۔ان سرحدوں کا لحاظ اس امر میں نہیں ہو گا۔

(ب)صرف امت اجابت کی تعداد کا لحاظ ہو گا۔مرتد جماعتیں اور مرتد کلمہ گو افراد امت اجابت سے خارج ہیں۔

عہد حاضر کے شیعہ لوگ حضرت علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ کو حضرات انبیائے کرام علیہم الصلوۃ والسلام سے افضل مانتے ہیں۔یہ کفریہ عقیدہ ہے۔
اسی طرح یہ لوگ قران مجید کو ناقص مانتے ہیں یعنی ان لوگوں کا عقیدہ ہے کہ قران مجید کے چالیس پارے تھے۔ان کے بقول دس پارہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین نے غائب کردیا۔

اس عقیدہ کے سبب اس ایت قرانیہ کا صریح انکار ہو گیا جس میں اللہ تعالی نے حفاظت قران کا وعدہ فرمایا ہے۔
ان دو کے علاوہ بھی کفریات ہیں۔ان کفری عقائد کے سبب وہ مرتد ہو کر امت اجابت سے خارج اور امت دعوت میں داخل ہو گئے۔

تفضیلی شیعہ اور اسی طرح وہ شیعہ جو کوئی کفری عقیدہ نہ رکھے,نہ مرتدین کو مومن مانے تو وہ امت اجابت میں شمار ہو گا,لیکن ایسے شیعوں کی تعداد عہد حاضر میں روافض کے درمیان ایک فی صد بھی نہیں۔

دیابنہ اور وہابیہ میں جو لوگ کفری عقیدہ رکھتے ہوں یا کسی مرتد کلامی کو مومن مانتے ہوں,وہ بھی امت اجابت سے خارج ہیں۔
دیابنہ میں جو عام و خاص اشخاص اربعہ کی کفری عبارتوں سے اشنا ہو کر بھی ان کو مومن مانتے ہیں,وہ یقینا مرتد اور امت اجابت سے خارج ہیں۔ایسے دیوبندیوں کی تعداد دیابنہ کے درمیان ساٹھ ستر فی صد ہے۔

علمائے اہل سنت ان کفریہ عبارتوں کو بیان کرتے رہتے ہیں اور دیوبندی عوام و خواص کو ان کفریہ عبارتوں کا علم ہے۔
گرچہ وہ تاویل کرتے ہیں۔لیکن تاویل باطل کے سبب ان کا کفر و اردتداد زائل نہیں ہو گا۔

الحاصل دیوبندیوں میں بمشکل تیس چالیس فی صد کا شمار امت اجابت میں ہو سکتا ہے۔

قادیانی بھی مرتد ہیں۔نیچری بھی مرتد۔

الغرض غیر سنیوں میں کچھ تفضیلی شیعہ,اشخاص اربعہ کی کفریہ عبارتوں سے نا اشنا کچھ دیوبندی,غیر مقلدین جوکوئی کفریہ عقیدہ نہ رکھتے ہوں۔بس یہی سب لوگ امت اجابت میں ہوں گے۔

اس بحث میں کفریہ عقیدہ سے وہ کفریہ عقیدہ مرادہے جو متکلمین کے یہاں کفر ہے۔

جو بدمذہب کوئی کفریہ عقیدہ نہ رکھتاہو,صرف وہی امت اجابت میں شمار ہوگا۔

اب اندازہ لگا لیں کہ دنیا بھر میں اہل سنت و جماعت کی تعداد زیادہ ہو گی یا کسی بدمذہب جماعت کی تعداد زیادہ ہو گی؟

(ج) اہل سنت و جماعت چار طبقات میں منقسم ہیں اور ساری دنیا میں پائے جاتے ہیں۔
حنفی,مالکی,شافعی اور حنبلی اہل سنت و جماعت کے چار طبقات ہیں۔

مرتد جماعتیں اور مرتد افراد امت اجابت میں شامل نہیں۔ان کو الگ کر دیں اور امت اجابت میں اہل سنت و غیر اہل سنت کی تعداد کا اندازہ کر لیں اور بتائیں کہ سواد اعظم کون ہے؟

ہم نے "السواد الاعظم"میں وضاحت رقم کی ہے کہ اہل سنت و جماعت کا کسی بدمذہب جماعت سے قلیل التعداد ہونا محال بالغیر ہے۔

اسلاف کرام نے تحریر فرمایا کہ کسی بھی زمانے میں تمام بدمذہب فرقے مل کر بھی اہل سنت کی تعداد کو نہ پہنچ سکے۔امام احمد رضا قادری قدس سرہ العزیز نے بھی فتاوی رضویہ میں ایسا ہی رقم فرمایا۔

ایسی صورت میں کوئی ایک بدمذہب فرقہ اہل سنت سے کیسے بڑھ سکتا ہے۔

در حقیقت اعداد و شمار میں شرائط کا لحاظ نہ کرنے کے سبب کبھی بعض اہل علم بھی شک و شبہہ میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔

طارق انور مصباحی

26_10_2020

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے